Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 27
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ١ۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ١ؕ قَالَ لَاَقْتُلَنَّكَ١ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ
وَاتْلُ : اور سنا عَلَيْهِمْ : انہیں نَبَاَ : خبر ابْنَيْ اٰدَمَ : آدم کے دو بیٹے بِالْحَقِّ : احوال واقعی اِذْ قَرَّبَا : جب دونوں نے پیش کی قُرْبَانًا : کچھ نیاز فَتُقُبِّلَ : تو قبول کرلی گئی مِنْ : سے اَحَدِهِمَا : ان میں سے ایک وَلَمْ يُتَقَبَّلْ : اور نہ قبول کی گئی مِنَ الْاٰخَرِ : دوسرے سے قَالَ : اس نے کہا لَاَقْتُلَنَّكَ : میں ضرور تجھے مار ڈالونگا قَالَ : اس نے کہا اِنَّمَا : بیشک صرف يَتَقَبَّلُ : قبول کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ مِنَ : سے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
اور پڑھ سناؤ ان کو قصہ آدم کے دو بیٹوں کو حق کے ساتھ، جب کہ ان دونوں نے ایک ایک قربانی پیش کی، تو ان میں سے ایک کی قربانی تو قبول کرلی جائے، مگر دوسرے کی قبول نہ کی گئی اس پر اس نے (جل کر پہلے سے) کہا کہ میں تجھے قتل کر ڈالوں گا، تو اس نے جواب دیا کہ (اس میں کسی کا کیا قصور ؟ ) اللہ تو پرہیزگاروں ہی سے قبول فرماتا ہے،1
71 آدم کے دو بیٹوں کی قربانیوں کی نوعیت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں کو آدم کے دو بیٹوں کا قصہ ٹھیک ٹھیک سنا دو جبکہ ان میں سے ہر ایک نے ایک ایک قربانی پیش کی۔ یہ قربانیاں ان دونوں نے کس بنا پر پیش کی تھیں اس کا ذکر کسی آیت کریمہ یا صحیح حدیث میں نہیں ملتا۔ البتہ بعض آثار اور تفسیری روایات میں اس کا یہ قصہ مذکور ہے کہ اس کی ضرورت ان کے رشتے کے سلسلے میں باہمی تنازع کی بنا پر پیش آئی تھی۔ (قرطبی، ابن جریر، ابن کثیر وغیرہ) ۔ کچھ بھی ہو بہرکیف ان دونوں میں سے ہر ایک نے الگ الگ قربانی پیش کی تھی جن میں سے ایک کی قربانی اس کے صدق و اخلاص کی بنا پر قبول فرمائی گئی اور دوسرے کی شرف قبولیت سے بازیاب نہ ہوسکی۔ اور اس طرح ان دونوں کی آزمائش کا نتیجہ ان کے سامنے آگیا۔ اور واضح ہوگیا کہ ان میں سچا اور مخلص کون ہے اور غلط کار و بدنیت کون۔ اور یہ کردار و مدار سب کا سب صدق و اخلاص پر ہے۔ سو صدق و اخلاص کی دولت عظیم الشان دولت ہے ۔ وَ باللّٰہِ التوفیق لما یُحِبُّ وَیُرِیْد ۔ سبحانہ و تعالیٰ - 72 حسد سب سے پہلا اور بڑا ہولناک جرم و گناہ : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ حسد وہ پہلا جرم و گناہ ہے جس کا اولاد آدم میں ارتکاب کیا گیا۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس شخص نے اپنے بھائی سے کہا کہ میں تجھے قتل کردوں گا حسد کی بنا پر۔ اور یہی حال انسان کا آج بھی ہے کہ وہ اپنی کمزوری کو دیکھنے کی بجائے دوسرے پر تنقید کرتا اور اس پر جلتا اور حسد کرتا ہے۔ اور اس کے درپے آزار ہوجاتا ہے۔ اور اس طرح وہ دوسروں کی تکلیف و ایذا رسانی سے پہلے خود حسد کی آگ میں جلتا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے ۔ " الْحَسُوْدُ لا یَسُوْدُ " ۔ سو حسد وہ پہلا گناہ اور بڑا سنگین جرم ہے جس کا ارتکاب اولاد آدم میں کیا گیا اور جس نے آدم کے ایک بیٹے سے قتل اور وہ بھی اپنے بھائی کے قتل جیسے سنگین اور ہولناک جرم کا ارتکاب کرا دیا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ حسد اور اس کے عواقب و نتائج سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین - 73 تقویٰ اصلاح و قبولیت کی اولین اساس : سو اس بھائی نے اپنے بھائی کی اس ہولناک دھمکی کے جواب میں کہا کہ سوائے اس کے نہیں کہ اللہ پرہیزگار لوگوں ہی سے قبول فرماتا ہے۔ پس تیری قربانی اگر قبول نہیں ہوئی تو یقیناً تیرے اپنے تقوے اور پرہیزگاری میں کوئی فرق ہوگا۔ تو تجھے اس کی فکر اور اصلاح کرنی چاہیئے۔ نہ کہ تو الٹا بلاوجہ میرے قتل کے درپے ہوجائے۔ سو اس سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ تقویٰ و پرہیزگاری اور خوف و مشیت خداوندی اصلاح احوال اور قبولیت عنداللہ کیلئے اولین اساس اور اہم بنیاد ہے ۔ وباللہ التوفیق ۔ سو تقویٰ و پرہیزگاری کے اس گوہر گرانبہا ہی کو اپنانے اور ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں یہی مطلوب و مقصود ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے صاف اور صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { لَنْ یَّنَال اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَائُ ھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہٗ التَّقْویٰ مِنْکم } ۔ اللہ نصیب فرمائے اور صدق نیت اور اصلاح قلب و باطن کی دولت سے ہمیشہ سرفراز و سرشار رکھے ۔ کہ یہی ہے اصل اور حقیقی دولت جو انسان کو دارین میں کام آنے والی دولت ہے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
Top