Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 27
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ١ۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ١ؕ قَالَ لَاَقْتُلَنَّكَ١ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ
وَاتْلُ : اور سنا عَلَيْهِمْ : انہیں نَبَاَ : خبر ابْنَيْ اٰدَمَ : آدم کے دو بیٹے بِالْحَقِّ : احوال واقعی اِذْ قَرَّبَا : جب دونوں نے پیش کی قُرْبَانًا : کچھ نیاز فَتُقُبِّلَ : تو قبول کرلی گئی مِنْ : سے اَحَدِهِمَا : ان میں سے ایک وَلَمْ يُتَقَبَّلْ : اور نہ قبول کی گئی مِنَ الْاٰخَرِ : دوسرے سے قَالَ : اس نے کہا لَاَقْتُلَنَّكَ : میں ضرور تجھے مار ڈالونگا قَالَ : اس نے کہا اِنَّمَا : بیشک صرف يَتَقَبَّلُ : قبول کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ مِنَ : سے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
اور ان لوگوں کو دو آدم زادوں کا حال سچائی کے ساتھ سنا دو جب ان دونوں نے قبولیت کے لیے قربانیاں چڑھائیں تو ان میں سے ایک کی قبول ہوگئی ، دوسرے کی قبول نہیں ہوئی ، اس پر اس نے کہا میں یقینا تجھے قتل کر دوں گا اللہ صرف متقی آدمیوں ہی قربانی قبول کرتا ہے
دو آدم زادوں کا قصہ بطور تمثیل بیان کیا جاتا ہے : 95: اہل کتاب کا اور خصوصاً یہود کا ذکر ہو رہا تھا اور انہی کی تفہیم کے لئے یہ تمثیل کی گئی تھی اور اس تمثیل کے بعد پھر یہود کا ذکر چلتا ہے جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ” ابن آدم “ سے سیدنا آدم (علیہ السلام) کی دو حقیقی بیٹیوں کا ذکر ہوں ضروری نہیں بلکہ اولاد آدم میں سے دو بھائیوں کا بیان ہے خواہ بنی اسرائیل ہی سے ہوں یا آدم (علیہ السلام) کے بیٹے کے عرفی بیٹے کیونکہ ” ابن آدم “ سے حقیقی بیٹے مراد لینا ضروری نہیں کیونکہ سارے انسان بنی آدم ہی ہیں اور حسن (رح) اور ضحاک (رح) نے بنی اسرائیل ہی کے دو آدمی مراد لئے ہیں۔ تاہم جس کہانی کے تحت ان کو آدم (علیہ السلام) کے حقیقی بیٹے قرار دیا جاتا ہے وہ اسرئیلیات سے ہے روایات اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ کس صحیح حد یث میں اس کا بیان موجود نہیں۔ تورات میں یہ واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے اور قرآن کریم میں اس کا کوئی اشارہ تک بھی نہیں پایا جاتا۔ ہاں ! تورات میں ان دونوں بھائیوں کے نام ہابیل اور قابیل بتائے گئے ہیں جن کا اصل تلفظ بالفاظ تورات ” قائن “ اور ” ہابل “ کہا گیا ہے اور اس تلفظ کو ہمارے مفسرین نے قابیل اور ہابیل کردیا ہے ۔ لیکن اس قصہ کو جو قصہ گوؤں نے گھڑا ہے درمیان سے نکال دیا جائے تو آدم (علیہ السلام) کے حقیقی بیٹے مراد لینے میں کوئی استحالہ نہیں کیونکہ تمثیل ان سے بھی دی جاسکتی ہے اور اگر آدم (علیہ السلام) کے حقیقی بیٹے مراد نہ لئے جائیں تو بھی اس تمثیل میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ رہی یہ بات کہ ” ابنی آدم “ سے حقیقی بیٹے مراد نہ لینا قرآن کریم کے بیان کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ “ قطعا صحیح نہیں۔ کیوں ؟ اس لئے کہ قرآن کریم نے دوسرے مقامات پر جہاں بھی ” یا بنی آدم “ کے الفاظ استعمال کئے ہیں وہاں تما بنی نوع انسان ہی مراد لئے گئے ہیں۔ چناچہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا : یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا 1ؕ ۔۔۔۔۔ (الاعراف 7 : 26) اے اولاد آدم ! ہم نے تمہارے لیے ایسا لباس مہیا کردیا ہے جو جسم کی ستر پوشی کرتا ہے اور ایسی چیزیں بھی جو زیب وزینت کا ذریعہ ہیں نیز تمہیں پرہیزگاری کی راہ دکھا دی کہ تمام لباسوں سے بہتر لباس ہے ، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے تاکہ لوگ نصیحت پذیر ہوں۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا : یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّكُمُ الشَّیْطٰنُ کَمَاۤ اَخْرَجَ اَبَوَیْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ (الاعراف 7 : 27) اے اولاد آدم ! دیکھو کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں اسی طرح بہکا دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو بہکا کر جنت سے نکلوا دیا تھا اور ان کے لباس اتروا دیئے تھے ۔ ثث ایک جگہ ارشاد فرمایا : یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا 1ۚ ۔۔۔۔ ( الاعراف 7 : 31) اے اولاد آدم ! عبادت کے ہر موقع پر اپنے جسم کی زیب وزینت سے آراستہ رہا کرو نیز کھاؤ پیو مگر حد سے گزر نہ جاؤ ، اللہ انہیں پسند نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے ہیں۔ ایک جگہ فرمایا : یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ 1ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ 0035 (الاعراف : 7 : 35) اے اولاد آدم ! جب کبھی ایسا ہو کہ میرے پیغمبر تم ہی میں سے آئیں اور میری آیتیں تمہیں پڑھ کر سنائیں تو جو کوئی برائیوں سے بچے گا اور اپنے آپ کو سنوار لے گا اس کے لیے کسی طرح کا اندشیہ نہ ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی ۔ ان سب مقامات پر سارے بنی نوع انسان ہی مراد لئے گئے ہیں آدم (علیہ السلام) کے حقیقی اور نسلی بیٹے کسی نے بھی مراد نہیں لئے اس لئے گو اس جگہ ابنی آدمی ” آدم کے دو بیٹو ! “ سے مراد بنی نوع انسانوں سے دو بھائی یا بنی اسرائیل میں دو بھائی بھی مراد لینے میں کوئی زیادتی نہیں ہوگی اور یہ بات پہلے بیان کی چکی ہے کہ وہ قصہ جو آدم (علیہ السلام) کے حقیقی بنانے کے لئے گھڑا گیا جس کا کوئی سر پیر نہیں اس کو درمیان سے نکال دیا جائے تو اس جگہ آدم (علیہ السلام) کے دو حقیقی بیٹے مراد لینے میں کوئی قباحت نہیں ، قباحت وہی ہے جو ان قصہ گوؤں نے اس قصہ کو گھڑ کر اس کے ساتھ لگادی ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ قصہ کیا ہے ؟ اور اس قصہ میں قباحت کیا ہے ؟ تو سن لیجئے وہ قصہ یہ ہے کہ : ” جب حضرت آدم اور حوا علیما السلام دنیا میں آئے اور توالد وتناسل کا سلسلہ شروع ہوا تو ان کے ہر ایک حمل سے دو بچے پیدا ہوئے ایک لڑکا اور دوسری لڑکی۔ اس وقت جب کہ آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں بجز بہن بھائیوں کے کوئی اور نہ تھا اور بھائی بہن کا آپس میں نکاح نہیں ہو سکتا تو اللہ تعالیٰ نے اسوقت کی ضرورت کے لحاظ سے شریعت آدم (علیہ السلام) میں یہ خصوصی حکم جاری فرما دیا تھا کہ ایک حمل سے جو لڑکا اور لڑکی پیدا ہو وہ تو آپس میں حقیقی بہن بھائی سمجھے جائیں اور ان کے درمیان نکاح حرام قرار پائے لیکن دوسرے حمل سے پیدا ہونے والے لڑکے کے لئے پہلے حمل سے پیدا ہونے والی لڑکی حقیقی بہن کے حکم میں نہیں ہوگی بلکہ ان کے درمیان رشتہ ازدواج مناکحت جائز ہوگا۔ لیکن ہوا یہ کہ پہلے لڑکے قابیل کے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی وہ حسین و جمیل تھی اور دوسرے لڑکے ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی بدشکل تھی ۔ جب نکاح کا وقت آیا تو حسب ضابطہ ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بدشکل لڑکی قابیل کے حصہ میں آئی اس پر قابیل ناراض ہو کر ہابیل کا دشمن ہوگیا اور اس پر اصرار کرنے لگا کہ میرے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی ہے وہی میرے نکاح میں دی جائے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے شرعی قاعدہ کے موافق اس کو قبول نہ فرمایا اور ہابیل و قابیل کے درمیان رفع اختلاف کے لئے یہ تجویز فرمائی کہ تم دونون اپنی اپنی قربانی اللہ کے لئے پیش کروجس کی قربانی قبول ہوجائے گی یہ لڑکی اس کو دے دی جائے گی کیونکہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو یقین تھا کہ قربانی اسی کی قبول ہوگی جس کا حق ہے یعنی قابیل کی۔ “ یہ قصہ تو بہت لمبا ہے ساری داستان جو داستان گوؤں نے گھڑی ہے بالکل فرضی ہے لیکن ضرورت کے مطابق اس قصہ کا اتنا حصہ جتنا کہ ہم کو مطلوب تھا نقل کردیا۔ اتنے حصے میں بھی کتنی قباحتیں ہیں ان سب کو اگر بیان کیا جائے تو بات سے بات نکلتی جائے گی اور ہم ضرورت کے مضمون سے بہت دور چلے جائیں گے اس وقت ایک قباحت کا ذکر کرنا ہے جو ساری قباحتوں سے بڑی اور بری ہے وہ ہے ” حقیقی بہن بھائی کی شادی “ غور کیجئے کہ آدم مٹی سے بنائے گئے کڑوڑوں سال گزر گئے نسل در نسل انسان پیدا ہوتے رہے اور پیدا ہو رہے ہیں لیکن آج تک اس مٹی نے انسان کا پیچھا نہیں چھوڑا بچہ بچہ جانتا اور کہتا ہے کہ انسان مٹی سے پیدا ہوا اور وہ انسان خواہ آپ ہوں یا میں۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ہماری اصل مٹی ہی سے ہے یعنی آدم (علیہ السلام) ۔ اب اگر ہم حقیقی بہن بھائی کی اولاد ہیں تو حرمت نے ہمارا پیچھا کب چھوڑا ہے جو ہمارے خون میں پیچھے سے چلی آرہی ہے ۔ کیا ایک ماں باپ سے پیدا ہونے والے حقیقی بہن بھائی نہیں ہوتے ؟ اور پھر شریعت آدمی میں جس چیز کو حلال رکھا گیا اس کا کوئی واضح ثبوت بیان کیا جاتا صرف فرض کرلینے سے تو کوئی شریعت کا مسئلہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ تو اس اعتراض کا عقلی پہلو ہے۔ رہا اس کا نقلی پہلو تو وہ اس طرح ہے کہ قرآن کریم نے دوسری جگہ خود وضاحت فرمادی ہے جہاں نکاح کی حلت و حرمت کو بیان کیا ہے کہ فلاں فلاں عورت سے نکاح حرام ہے اور آخر میں فرمایا کہ یہ حلت و حرمت صرف تمہارے ہی لئے نہیں ہے بلکہ تم سے پہلے سارے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے زمانہ میں یہ اس طرح برقرار رہی ہے جس میں آدم (علیہ السلام) اور انکے بیٹے بھی شامل ہیں بلکہ وہ اصل ہیں۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہوتا ہے کہ : یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُبَیِّنَ لَكُمْ وَ یَهْدِیَكُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ یَتُوْبَ عَلَیْكُمْ 1ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ 0026 (النساء 4 : 26) اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان لوگوں کی راہ کھول دے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور انہی کے طریقہ پر تمہیں بھی چلائے نیز تم پر اپنی رحمت سے لوٹ آئے۔ “ جس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ نکاح کی حلت و حرمت ابدی ہے وقتی نہیں بلکہ لوگوں نے جو اس میں جائز حلال بنایا یا بتایا ہے وہ سراسر ان کی جہالت تھی تفصیل کے لئے دیکھو عروۃ الوثقیٰ جلد دوم تفسیر سورة النساء کی آیات 23 تا 26۔ چناچہ فتح البیان ، جامع البیان ، جلالین ، مدارک اور سواطع میں سورة النساء کی ان آیات کریمات کی یہی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ فتح الباری پارہ 12 ص 170 میں بحوالہ شافعی عبد الرزاق عبد بن حمید ، سند صحیح اور حسن بن علی ؓ بن ابی طالب سے مروی ہے کہ مجوسیوں کے ایک بدبخت امام نے شراب سے مخمور ہو کر اپنی بہن سے بدکاری کا ارتکاب کیا تو لوگوں نے اس پر لعن طعن کیا تو اس نے یہ جواب دیا کہ : ” ان آدم کان ینکح اولاد بناتۃ “ آدم (علیہ السلام) کے وقت بھی تو بہن بھائیوں کی شادی ہوتی رہی ہے پھر اس کے اس طرح کے بیان کرنے کے نتیجہ میں کہا گیا ہے کہ اس کے مرید ین نے اس کی یہ بات مان لی اور اس کی تابعداری کرنے لگے مگر دوسرے لوگ تو بالاتفاق چلا اٹھے : فقال الناس جما عنھم معاذ اللہ ان نومن بھذاء ونقربہ اوجاء بہ نبی اونزل علینا فی کتاب ۔ معاذ اللہ ! کہ ہم لوگ ایک منٹ کے لئے بھی اسے تسلیم کریں یعنی بالکل یہ بات تسلیم نہیں کرسکتے کہ اللہ کے کسی فرستادہ نے کبھی ایسا بتایا ہو یا اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی کتاب میں ایسا نازل فرمایا ہو بلکہ یہ سب کا سب جھوٹ ہے۔ امام سیوطی (رح) نے بھی سورة البروج میں اس طرح بیان فرمایا ہے اور الدر المنثور میں بھی اسی طرح بیان ہوا ہے ۔ ہاں ! امام ابن کثیر ؓ نے اپنی تفسیر ” ابن کثیر “ میں یہ واقعہ نقل کیا ہے اور اس کے ساتھ بہت کچھ اور بھی بیان کیا ہے جو ذکر ” ابن کثیر “ اردو میں بھی دستیاب ہے اسلئے اہل کتاب کی طرف سے رجوع کریں آپ کو مع شے زائد بہت کچھ مل جائے گا۔ امام ابن کثیر ؓ کے ایسے قصے نقل کرنے سے مراد صرف اور صرف یہ ہے کہ لوگ اس سے آگاہ رہیں کہ اسرائیلیات میں کیا کچھ بیان کردیا گیا ہے اور ان کے مرتبہ کے مطابق ہم یہی ان کے ساتھ حسن ظن رکھ سکتے ہیں اور حقیقت حال اللہ کے سپرد ہے۔ ایسی کہانیاں کیوں گھڑنی پڑیں ؟ بہن بھائیوں کو توام اور ہر بہن کے ساتھ ایک بھائی کیوں لازم بتایا گیا ؟ ایک جوڑے کی دوسرے سے کیوں شادی جائز قرار دی گئی ہے ؟ داستان گوؤں نے یہ داستان کیوں گھڑی ؟ ان کا صحیح جواب آپ کو عروۃ الوثقیٰجلد اول سورة البقرہ آیت 39 کے تحت مل جائے گا وہاں ملاحظہ فرمائیں۔ دونوں بھائیوں کا قربانی دینا ، ایک کی قبول ، دوسرے کی ناقبول ہونا : 96: ” جب ان دونوں نے قبولیت کے لئے قربانیاں چڑھائیں۔ “ قربان سے مراد کوئی جانور نہیں جو ذبح کیا گیا ہو محض نذر خداوندی مراد ہے خواہ وہ جنس کی شکل میں ہو یا کسی جانور کی قربانی کی صورت میں۔ بتایا جاتا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے دونوں بیٹوں (قابیل اور ہابیل) نے بارگاہ رب العزت میں نذرانہ معبودیت پیش کیا۔ (ضیاء القرآن جلد اول ص 460) اس جگہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ انہوں نے قربانی کیوں پیش کی ؟ سیدھا اور صاف جواب تو یہ ہے کہ اس سبب سے جیسے سارے انسان اپنے طریقہ یا تفہیم کے مطابق صدقہ و خیرات کرتے ہیں۔ فرائض کو دینی پابندی کے ساتھ نوافل ومستحبات کو قرب خداوندی حاصل کرنے کے لئے جو ہر انسان میں فطری چیز ہے۔ اگر یہ فرائض میں سے ہو تو حکومت اسلامی کو حق ہے کہ وہ وصول کرے اور یہ بھی حق ہے کہ جو فرائض کی ادائیگی صحیح طریقہ پر نہ کرے اس سے وصول بھی کرے اور قانون کے مطابق اس کو سزا بھی دے اور اس طرح نوافل صداقات کی قبولیت اور نامقبولیت کی اور صورتیں بھی ہیں۔ چونکہ اس جگہ مقصود قصہ یہ تھا کہ ” بعض اوقات انسان حسد سے متاثر ہو کر کیسی کیسی شیطانی حرکتیں کر گزرتا ہے۔ “ اس لئے کہ اس وقت بنی اسرائیل کی ایسی ہی بداعتدالیوں کا تذکرہ جاری تھا جو انہوں نے پیغمبر اسلام محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ (علیہ السلام) کے ساتھیوں سے روارکھی تھیں اس مقصود ہی کو یہاں بیان کیا گیا ہے اور باقی چیزیں جو اصل مقصود نہ تھیں انکو بیان نہیں کیا گیا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ان کی ضرورت نہ تھی اور قرآن کریم کا انداز بیان ہی ایسا ہے کہ وہ غیر ضروری باتوں کے پیچھے نہیں پڑتا۔ اس طرح بال کی کھال اتارنے والوں نے پہلے فرضی سوال پیدا کئے اور پھر ان کے جواب دیئے جس کے نتیجہ میں ان کو ایک پوری داستان تخلیق کرنا پڑی جس پر سینکڑوں مزید سوال پیدا ہوگئے اور اس طرح اصل حقیقت بالکل ان میں مستور ہو کر رہ گئیں۔ سیدھی بات اتنی ہی تھی کہ ان دونوں نے بارگاہ خداوندی میں قربانی پیش کی ، ایک کی قبول ہوگئی اور دوسرے کی نامقبول ٹھہری۔ خواہ اس وقت کے نبی یا حاکم وقت نے قبول نہ کی یا اس کی جو صورت بھی ہوئی ہاں ! قبول کیوں نہ ہوئی ؟ فرمایا اس لئے کہ وہ متقی و پرہیز گار نہیں تھا بلکہ مغرورومتکبر تھا۔ اس نے جو کچھ پیش کیا اس میں اخلاص و فرمانبرداری اور رضائے الٰہی کا عنصر نہیں تھا بلکہ رعونت ، ظاہر داری اور دکھاوے کے جراثیم تھے اور قربانی کا مقصود دلی تقویٰ و طہارت کے سوا اور کچھ نہیں ۔ چناچہ قرآن کریم میں بھی قربانی کا یہی اصول مدنظر رکھا گیا ہے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے کہ : ” تمہاری قربانیوں کے نہ گوشت اللہ کے پہنچتے ہیں ، نہ خون مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ “ (الحج 22 : 37) اور ایسے بےاصولے اور متکبر لوگوں کے صدقات نہ قبول کرنے کا حکم بھی قرآن کریم میں موجود ہے۔ چناچہ ارشادہوتا ہے کہ : ” ان سے کہو کہ تم اپنے مال خواہ راضی خوشی خرچ کرو یا بکراہت بہر حال وہ قبول نہ کئے جائیں کیونکہ تم فاسق لوگ ہو ، ان کے مال قبول نہ ہونے کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا اور نماز کے لئے آتے ہیں تو کسمساتے ہوئے بےدلی اور بےغبتی کے ساتھ آتے ہیں۔ “ (التوبہ 9 : 54) نبی اعظم و آخر ﷺ نے ثعلبہ جیسے لوگوں کے صدقات و خیرات کو قبول نہیں فرمایا اور انکو برملا کہہ بھی دیا کہ تم مخلص لوگ نہیں تمہارا صدقہ قبول نہیں کیا جاسکتا جب کہ ابن ابی حاتم ، ابن المنذر ، ابن مردویہ ، ابن مندہ ، ابن عساکر ، طبرانی اور البیہقی میں اس کی تفصیل موجود گے۔ عام معاشرہ میں متقی انسان اور فاسق و فاجر انسان کی زندگیوں میں جو فرق ہوتا ہے اس سے ہر انسان سمجھتا ہے کہ متیی کون ہے اور فاسق و فاجر کون ، اللہ تعالیٰ کی چاہت و خوشنودی کس کے پیش نظر ہے اور شہرت ودکھاوے کے لئے کون کام کرتا ہے ، شریف کون ہے اور رذیل کون پھر ہر ایک نہ سہی لیکن کچھ اللہ کے بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو دکھاوا کرنے والوں۔ ریا سے کام لینے والوں اور متکبر لوگوں کو برملا کہہ دیتے ہیں کہ تمہارا اس طرح سے دیا ہوا صدقہ ، خیرات بارگاہ خداوندی میں قطعا مقبول نہیں اس لئے تم ان حرکات سے باز آجاؤ اور جو کچھ کرو رضائے الٰہی کے لئے کرو۔ پھرمعاشرہ میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس کی ان باتوں کو برداشت کر جاتے ہیں خواہ بادل نخواستہ سہی ، ایسے بھی ہوتے ہیں جو صحیح معنوں میں سمجھ جاتے ہیں اور راہ راست کی طرف آجاتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس طرح کے وعظ کہنے والوں کے درپے آزار ہوجاتے ہیں اور وہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ ان کی ” ناک میں دم کردیں “ ان سے مقاطع کریں اور کرائیں۔ ان کو فرضی مقدموں میں پھنسا دیں۔ ان کے خلاف پراپیگنڈہ کی مہم تیز کردیں ، شہر یا صوبہ بدر کرادیں اور اگر ہو سکے تو قتل ہی کردیں یا کرادیں ۔ چناچہ قرآن کریم نے لوط (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ لوط (علیہ السلام) ان کو برے کاموں سے بچنے کی تلقین فرما رہے تھے کہ قوم کے چودھری بپھر گئے اور انہوں نے کہہ دیا کہ ” نکالو ان لوگوں کا اپنی بستی سے یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں۔ “ (الاعراف 7 : 82) اس لئے عین ممکن ہے کہ ان دونوں بھائیوں میں سے جو متقی اور پر ہیز گار تھا اس نے ریا کار اور متکبر بھائی کو کہہ دیا ہو کہ تمہاری قربانی قبول نہیں ہوتی ؟ اس لئے کہ تم ریا کار اور متکبر ہو اور ایسے کردار والوں کی نذر و نیاز اس احکم الحاکمین اور بےنیاز ذات کے ہاں کبھی مقبول نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے کہ ایک ریا کار اور متکبر آدمی جو ” ہم چوما دیگرے نسیت “ کے اصول پر زندگی بسر کرتا ہو وہ ایسی بات کو کیسے برداشت کرسکتا تھا اس نے اس کے وعظ اور پندونصیحت کو سنا تو وہ آگ بگولا ہوگیا اور اس کردار کے لوگ ایسا کرتے ہی ہیں اور پھر جب سامنے دنیاوی لحاظ سے ایک کمزور اور بےمایہ آدمی کھڑا نظر آئے توا س کا غصہ مزید بھڑک جاتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ میں اس زندہ ہی کو نگل جاؤں یا کم از کم میری آنکھوں کے سامنے وہ نظر نہ آئے اور یہی کچھ یہاں ہوا۔ قربانی قبول نہ ہونے والے نے بپھر کر قربانی قبول ہونے والے بھائی کو قتل کی دھمکی دے دی : 97: متقی و پرہیزگار اور منکسر المزاج بھائی نے جو وعظ و نصیحت اپنے بدمزاج ، بدخلق اور متکبر بھائی کو کیا تھا اس کا اثر اس پر الٹا ہی ہوا اور بجائے اس کے کہ وہ اپنے کردار پر نظر ثانی کرتا اس نے وعظ و نصیحت کرنے والے بھائی کو الٹی میٹم دے دیا کہ یہ تیری کارستانیوں کا نتیجہ ہے کہ میرا صدقہ و خیرات قبول نہ ہوا یا تو نے ایسا کہہ کہہ کر لوگوں کو باور کرادیا کہ میری قربانی قبول نہیں اس طرح تو نے میری گویا کردار کشی کی اور اس کا مزہ تجھے ابھی چکھا دوں گا۔ تو ہی نہیں دیکھے گا بلکہ ساری دنیا دیکھ لے گی کہ میں کس طرح تیرا سر قلم کرتا ہوں اور تجھے تیرے کئے کا حساب چکا دیتا ہوں کہ ” نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ “ اس ذلت کو برداشت نہیں کرسکتا جس کا باعث صرف اور صرف تو ہے۔ اب تیری جان لئے بغیر مجھے تسکین نہیں ہوسکتی۔ (ضیاء القرآن) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قابیل ہابیل سے پہلے ہی کسی معاملہ میں خفا تھا اور یوں بھی سن میں بڑا تھا ، اپنے کو بزرگی و مقبولیت کا زیادہ حق دار سمجھتا تھا اب شدت حسد سے برا فروختہ ہوگیا اور بےگناہ بھائی کی جان لینے تک پر آمادہ ہوگیا۔ “ (ماجدی) قابیل کو یہ جان کر کہ اس کی قربانی قبول نہیں ہوئی بجائے اس کے کہ اپنی نیت کے کھوٹ کی طرف توجہ ہوتی غصہ ہابیل پر آیا کہ اس کی قربانی کیوں قبول ہوئی حالانکہ اس کی قربانی قبول نہ ہونے میں ہابیل کا کوئی دخل نہ تھا بلکہ اس میں سارا قصور خود اس کا اپنا تھا لیکن جب آدمی پر حسد کا دورہ پڑتا ہے تو اس کو اپنی نالا ئقیاں نظر نہیں آتیں بلکہ وہ اپنی تمام ناکامیوں کے اسباب دوسروں کے اندر ڈھونڈتا ہے اور اس غصے میں ان کے درپے آزار ہوجاتا ہے۔ “ (تدبر) اس برتری سے جو چھوٹے بھائی کو حاصل ہوئی بڑا بھائی خار کھا گیا اور اس کے قتل کے درپے ہوگیا ، یونہی بیٹھے بیٹھے دونوں بھائیوں نے قربانی دی تھی نکاح کے اختلاف مٹانے کی وجہ نہ تھی اور قرآن کے ظاہری الفاظ کا اقتضاء بھی یہی ہے کہ باعث ناراضگی عدم قبولیت قربانی تھی نہ کچھ اور (ابن کثیر) قابیل کو اپنی ناکامی کے ساتھ رسوائی کا غم وغصہ اور بڑھ گیا تو اس سے رہا نہ گیا اور کھلے طور پر اپنے بھائی سے کہہ دیا کہ میں تجھے قتل کر ڈالوں گا۔ (معارف) قربانی قبول ہونے والے بھائی نے جو جواب دیا وہ کیا ہی جواب ہے ؟ سبحان اللہ ! : 98: اللہ والے جہاں بھی ، جس قوم میں بھی ، جس زمانہ میں بھی اور جن حالات میں بھی ہوئے ان کے صبر و تحمل اور بردباری کی مثالیں ایک ہی جیسی رہیں اور انہوں نے ہمیشہ ٹھنڈے دل سے بات کی وہ کسی چڑانے سے بھی چڑ نہ گئے ۔ انہوں نے ہمیشہ برائی کے مقابلہ میں نیکی کرکے دکھائی ان کا اصول ہی یہ رہا کہ نیکی کے مقابلہ میں نیکی کوئی نیکی نہیں ہاں ! برائی کے مقابلہ میں وہ بھی اس وقت جو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی ہمت ہونے کی کی اور دنیا کو دکھا دیا کہ اللہ والوں کا کردار کیا ہوتا ہے۔ یہی صورت اس جگہ دیکھنے میں آئی ایک بھائی دوسرے کے قتل کے درپے ہے اس کو دھمکی سنائی جا رہی ہے اور اس کو ملزم بنایا جارہا ہے نہیں بلکہ مجرم ثابت کیا جا رہا ہے لیکن وہ بھائی ہے جس کے دل میں اللہ کی باتیں رچ بس گئی ہیں وہ سو کچھ سنتا ہے ، دیکھتا ہے لیکن کوئی واویلا نہیں کرتا۔ کسی کے سامنے اپنا دکھ بیان نہیں کرتا۔ بندہ بندہ سے شکوہ نہیں کرتا اور ہر انسان کے سامنے اپنے مظلوم ہونے کی داستانیں بیان نہیں کرتا۔ سب کچھ سنتا ہے لیکن خاموش ہے پھر اس کی خاموشی بھی ظالم بھائی پر شاق گزر رہی ہے کہ جھوٹا ہے اسی لئے تو خاموش ہے بہر حال خاموش بھائی بولتا ہے کس سے ؟ کسی سے نہیں صرف اور صرف اسی سے جب ظلم کرنے کے درپے ہے۔ بولتا ہے تو واعظانہ انداز سے۔ ناصحانہ رنگ میں اس کو رو در رو کہتا ہے کہ ” بھائی جان ! تمہاری قربانی قبول نہیں ہوئی تو یہ میرے کسی قصو کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ آپ میں تقویٰ نہیں ہے لہٰذا میری جان لینے کی بجائے آپ کو اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنے کی فکر کرنی چاہئے۔ “ سبحان اللہ ! کیا ہی اچھا جواب ہے کہ کچھ کہا بھی نہیں اور سب کچھ کہہ بھی دیا ہے اور جو کچھ کہا ہے وہ بالکل سچ کہا ہے رو در رو کہا ہے اور ٹوک کہا ہے اس کو کہا ہے جس کے متعلق کہنے کی بات ہے ۔ قتل کی دھمکی سنانے والے کو دوزخ کی آگ سے بچانے کی پوری پوری کوشش کی ہے۔ آگ بگولا ہونے والے کو بھڑکایا نہیں ، جلتی پر تیل نہیں ڈالاہاں ! ہر ممکن مٹی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ غصہ کی بات کا جواب غصہ کے ساتھ دینے کی بجائے ایک ٹھنڈی اور اصولی بات کہی ہے جس میں اس کی ہمدردی اور خیر خواہی کا پہلو غالب ہے ۔ اچھا ذرا بتاؤ توسہی کہ ” میرے قتل کرنے سے تمہاری قربانی کی قبولیت کی راہ کس طرح کھلے گی ؟ “ ذرا غور کرو اور جلدی جلدی آگے بڑھنے سے رک جاؤ جو پڑھا ہے اس کو ایک بار پھر پڑھو کہ بار بار پڑھنے ہی سے سمجھ آتی ہے سر سری پڑھ جانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ یہ لوگ جن کا اس جگہ ذکر کیا جا رہا ہے انسان تھے۔ تم بھی انسان ہو اور میں بھی انسان ہوں اور اس جگہ بتایا یہ جا رہا ہے کہ ” انسان کی یہ درینہ عادت ہے کہ وہ ایک غلطی پر دوسری شدید غلطی سے پردہ ڈالنا چاہتا ہے ۔ ایک گناہ کو چھپانے کے لئے اس سے بھی سنگین گناہ کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے ۔ “ دیکھو وہ بھی انسان تھے ، تم بھی انسان ہو اور میں بھی انسان ہوں۔ وہ چلے گئے ہیں اور تم اور میں موجود ہیں کہیں ہم میں سے کوئی قابیل تو نہیں ؟ ہاں ! ہاں اس کا کردار ادا کرنے والا ؟ قابیل کے لئے آسانی اور سلامتی کا راستہ کیا تھا ؟ پھر اس نے وہ راستہ اختیار کیا جو اس کے لئے سلامتی کا تھا ؟ نہیں ، تو آخر کیوں ؟۔
Top