Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 27
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ١ۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ١ؕ قَالَ لَاَقْتُلَنَّكَ١ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ
وَاتْلُ : اور سنا عَلَيْهِمْ : انہیں نَبَاَ : خبر ابْنَيْ اٰدَمَ : آدم کے دو بیٹے بِالْحَقِّ : احوال واقعی اِذْ قَرَّبَا : جب دونوں نے پیش کی قُرْبَانًا : کچھ نیاز فَتُقُبِّلَ : تو قبول کرلی گئی مِنْ : سے اَحَدِهِمَا : ان میں سے ایک وَلَمْ يُتَقَبَّلْ : اور نہ قبول کی گئی مِنَ الْاٰخَرِ : دوسرے سے قَالَ : اس نے کہا لَاَقْتُلَنَّكَ : میں ضرور تجھے مار ڈالونگا قَالَ : اس نے کہا اِنَّمَا : بیشک صرف يَتَقَبَّلُ : قبول کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ مِنَ : سے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
اور (اے محمد) ان کو آدم کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل) کے حالات (جو بالکل) سچے ّ (ہیں) پڑھ کر سن دو کہ جب ان دونوں نے (خدا کی جناب میں) کچھ نیازیں چڑھائیں تو ایک کی نیاز تو قبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی (تب قابیل ہابیل سے) کہنے لگا کہ میں تجھے قتل کردونگا۔ اس نے کہا کہ خدا پرہیزگاروں ہی کی (نیاز) قبول فرمایا کرتا ہے۔
ہابیل وقابیل کی قربانی قول باری ہے (واتل علیھم نبا ابنی ادم بالحق اذ قربا قربانا اور ذرا ابن آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بےکم و کاست سنا دو ، جب ان دونوں نے قربانی کی) حضرت ابن حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ ، مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ یہ دونوں حضرت آدم (علیہ السلام) کے صلبی بیٹے تھے، ہابیل اور قابیل۔ ہابیل مومن تھا جبکہ قابیل کافر تھا۔ ایک قول ہے کہ وہ ایک برا انسان تھا۔ حسن کا قول ہے کہ یہ دونوں بنی اسرائیل میں سے تھے اس لئے قربانی قبول ہونے کی نشانی بنی اسرائیل سے پہلے نہ تھی۔ قربان یا قربانی اس کارخیر کو کہتے ہیں جس میں اللہ کی رحمت سے مقصود ہوتا ہے۔ قربان قرب سے فلعان کے وزن پر ہے جس طرح فرقان کا لفظ فرق ہے۔ یا عدوان کا لفظ عدو سے اور کفران کا لفظ کفر سے بنا ہے۔ ایک قول ہے کہ دونوں بھائیوں میں سے ایک کی قربانی اس لئے قبول نہیں ہوئی کہ اس نے اپنے بدترین مال سے قربانی پیش کی تھی۔ جبکہ دوسرے نے اپنے بہترین مال سے قربانی دی تھی۔ اس لئے اس کی قربانی قبول ہوگئی۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کی قربانی اس لئے رد کردی گئی کہ وہ فاجر تھا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ صرف پرہیزگاروں کی پیش کردہ قربانیاں قبول کرتا ہے۔ ایک قول ہے کہ قربانی کی قبولیت کی علامت یہ تھی کہ ایک آگ آتی اور مقبول قربانی کو کھا جاتی لیکن نامقبول قربانی کو چھوڑ جاتی۔ اسی امر کا ذکر اس قول باری میں ہوا ہے (حتی یاتینا بقربان تاکلہ النار۔ یہاں تک کہ وہ ہمارے پاس ایسی قربانی لے کر آئے جسے آگ آ کر کھاجائے)
Top