Tafseer-e-Usmani - Al-Maaida : 27
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ١ۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ١ؕ قَالَ لَاَقْتُلَنَّكَ١ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ
وَاتْلُ : اور سنا عَلَيْهِمْ : انہیں نَبَاَ : خبر ابْنَيْ اٰدَمَ : آدم کے دو بیٹے بِالْحَقِّ : احوال واقعی اِذْ قَرَّبَا : جب دونوں نے پیش کی قُرْبَانًا : کچھ نیاز فَتُقُبِّلَ : تو قبول کرلی گئی مِنْ : سے اَحَدِهِمَا : ان میں سے ایک وَلَمْ يُتَقَبَّلْ : اور نہ قبول کی گئی مِنَ الْاٰخَرِ : دوسرے سے قَالَ : اس نے کہا لَاَقْتُلَنَّكَ : میں ضرور تجھے مار ڈالونگا قَالَ : اس نے کہا اِنَّمَا : بیشک صرف يَتَقَبَّلُ : قبول کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ مِنَ : سے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
اور سنا ان کو حال واقعی آدم کے دو بیٹوں کا2 جب نیاز کی دونوں نے کچھ نیاز اور مقبول ہوئی ایک کی اور نہ مقبول ہوئی دوسرے کی3 کہا میں تجھ کو مار ڈالوں گا4 وہ بولا اللہ قبول کرتا ہے تو پرہیزگاروں سے5
2 یعنی آدم کے دو صلبی بیٹوں قابیل و ہابیل کا قصہ ان کو سناؤ۔ کیونکہ اس قصہ میں ایک بھائی کے دوسرے بھائی کی مقبولیت اور تقویٰ پر حسد کرنے اور اسی غیظ میں اس کو ناحق قتل کر ڈالنے کا ذکر ہے اور ناحق خون کرنے کی عواقب بیان کئے ہیں۔ پچھلے رکوع میں یہ بتلایا تھا کہ بنی اسرائیل کو جب یہ حکم دیا گیا کہ ظالموں اور جابروں سے قتال کرو تو خوف زدہ ہو کر بھاگنے لگے۔ اب ہابیل و قابیل کا قصہ سنانا اس کی تمہید ہے کہ متقی اور مقبول بندوں کا قتل جو شدید ترین جرائم میں سے ہے اور جس سے ان لوگوں کو بےانتہا تہدید و تشدید کے ساتھ منع کیا گیا تھا اس کے لئے یہ ملعون ہمیشہ کیسے مستعد اور تیار نظر آتے ہیں۔ پہلے بھی کتنے نبیوں کو قتل کیا اور آج بھی خدا کے سب سے بڑے پیغمبر کے خلاف ازراہ بغض و حسد کیسے کیسے منصوبے گانٹھتے رہتے ہیں۔ گویا ظالموں اور شریروں کے مقابلہ سے جان چرانا اور بےگناہ معصوم بندوں کے خلاف قتل و آسر کی سازشیں کرنا، یہ اس قوم کا شیوہ رہا ہے اور اس پر نحن ابنآء اللہ واحبآوہ کا دعویٰ بھی رکھتے ہیں اس تقریر کے موافق قابیل و ہابیل کا قصہ پھر اس پر مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ الآیۃ کی تفریع، یہ سب تمہید ہوگی اس مضمون کی جو اس قصہ اور تفریع کے ختم پر فرمایا (ۭوَلَقَدْ جَاۗءَتْهُمْ رُسُلُنَا بالْبَيِّنٰتِ ۡ ثُمَّ اِنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ فِي الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ :32) 3 یعنی آدم (علیہ السلام) دستور کے موافق جو لڑکی ہابیل کے نکاح میں دینا چاہتے تھے قابیل اسکا طلب گار ہوا۔ آخر حضرت آدم (علیہ السلام) کے اشارہ سے دونوں نے خدا کے لئے کچھ نیاز کی کہ جس کی نیاز مقبول ہوجائے لڑکی اسی کو دے دی جائے۔ آدم (علیہ السلام) کو غالباً یہ یقین تھا کہ ہابیل ہی کی نیاز مقبول ہوگی چناچہ ایسا ہی ہوا۔ آتش آسمانی ظاہر ہوئی اور ہابیل کی نیاز کو کھا گئی۔ یہ ہی علامت اس وقت قبول عند اللہ کی تھی۔ 4 قابیل یہ دیکھ کر آتش حسد میں جلنے لگا اور بجائے اس کے کہ مقبولیت کے وسائل اختیار کرتا غیظ و غضب میں اپنے حقیقی بھائی کو قتل کی دھمکیاں دینے لگا۔ 5 یعنی ہابیل نے کہا کہ میرا اس میں کیا قصور ہے خدا کے یہاں کسی کی زبردستی نہیں چلتی تقویٰ چلتا ہے۔ گویا میری نیاز جو قبول کرلی گئی اس کا سبب تقویٰ ہے تو بھی اگر تقویٰ اختیار کرلے تو خدا کو تجھ سے کوئی ضد نہیں۔
Top