Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 27
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ١ۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ١ؕ قَالَ لَاَقْتُلَنَّكَ١ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ
وَاتْلُ : اور سنا عَلَيْهِمْ : انہیں نَبَاَ : خبر ابْنَيْ اٰدَمَ : آدم کے دو بیٹے بِالْحَقِّ : احوال واقعی اِذْ قَرَّبَا : جب دونوں نے پیش کی قُرْبَانًا : کچھ نیاز فَتُقُبِّلَ : تو قبول کرلی گئی مِنْ : سے اَحَدِهِمَا : ان میں سے ایک وَلَمْ يُتَقَبَّلْ : اور نہ قبول کی گئی مِنَ الْاٰخَرِ : دوسرے سے قَالَ : اس نے کہا لَاَقْتُلَنَّكَ : میں ضرور تجھے مار ڈالونگا قَالَ : اس نے کہا اِنَّمَا : بیشک صرف يَتَقَبَّلُ : قبول کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ مِنَ : سے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
(اے پیغمبر) آپ ان کو پڑھ کر سنائیں جہاں (آدم علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا حق کے ساتھ جب کہ ان دونوں نے قربانی پیش کی پس ان میں سے ایک سے قبول کی گئی اور دوسرے سے قبول نہ کی گئی دوسرے نے کہا کہ میں تمہیں قتل کر ڈالوں گا اس نے کہا بیشک اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے متقیوں سے
ربط آیات پچھلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی بزدلی کا حال ذکر کیا تھا۔ کہ وہ دشمن سے مقابلہ کے لیے تیار نہ ہوئے جس کی پاداش میں چالیس سال تک سرزمین مقدس سے محروم رہے۔ جس طرح دشمن کے مقابلے میں بزدلی دکھائی بہت بری بات ہے اسی طرح قتل ناحق پر دلیر ہو ابھی قبیح خصلت ہے۔ اسی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے آج کے درس کی آیات میں آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا حال ذکر کیا ہے۔ اس سے پہلے آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے دونوں فرقوں کے نقض عہد کا تذکرہ فرمایا تھا۔ یہودی شکنی کی وجہ سے ملعون ٹھہرے ‘ پھر سنگدل ہوئے اور اللہ کی کتاب میں تحریف کے مرتکب۔ اسی عہد شکنی کی وجہ سے گروہ نصاریٰ باہمی جنگ و جدل میں مبتلا ہوئے۔ چناچہ ابتدائے سورة میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بھی ایفائے عہد کی تلقین کی یایھا الذین امنوا اوفو بالعقود “ یعنی اے اہل ایمان اپنے عہد و پیمان کو پورا کرو۔ آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹے آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا تذکرہ فرمایا ہے جن میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کردیا تھا ‘ یہ بھی قاتل کی طرف سے عہد شکنی کی وجہ سے ہی ہوا تھا۔ ارشاد ہوتا ہے واتل علیھم نبا ابنی ادم بالحق اے پیغمبر ! (ﷺ) آپ ان کو آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا حال پڑھ کر سنا دیں حق کے ساتھ نبا کا معنی خبر ‘ حال یا واقعہ ہوتا ہے ۔ اور ابن آدم سے عام طور پر انسان مراد لیا جاتا ہے۔ کیونکہ ہر انسان آدم (علیہ السلام) کا ہی بیٹا ہے ۔ “ ہم حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ ‘ عبد اللہ بن عمر ؓ ‘ مجاہد و قتادہ وغیرہ ہم فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں مذکور دو بیٹوں سے حضرت آدم (علیہ السلام) کے صلبی بیٹے مراد ہیں ‘ ان دو بیٹوں یعنی ہابیل اور قابیل کا تذکرہ تورات میں بھی موجود ہے تاہم۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہے۔ دو بیٹوں کا واقعہ حضور ﷺ کی بعثت سے ہزاروں سال پہلے پیش کیا اور اس کا ٹھیک طور پر علم خیر وحی الٰہی کے نہیں ہو سکتا تھا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے وحی ہی کے ذریعے اپنے پیغمبر کو فرمایا کہ آپ بنی اسرائیل اور دوسرے لوگوں کو اس واقعہ کی ٹھیک ٹھیک تفصیلات سنادیں تاکہ ان کو علم ہو سکے کہ عہد شکنی کے کس قدر قبیح نتائج برمد ہوتے ہیں۔ پیدائش اور نکاح مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ سب کے جدا مجد حضرت آدم (علیہ السلام) کے ہاں ہر حمل سے دو جڑواں بچے پیدا ہوتے تھے جن میں ایک لڑکا ہوا اور دوسری لڑکی۔ چناچہ جب آدم (علیہ السلام) اپنی زندگی کے ایک ہزار برس مکمل کرکے اس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ ایک ہزار سے زیادہ اولاد یعنی لڑکے لڑکیاں پیچھے چھوڑ گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو ایسا ہی منظور تھا۔ نسل انسانی کی ابتداء تھی اور اسے پوری دنیا میں پھیلا نا مقصود تھا۔ لہٰذا حضرت آدم (علیہ السلام) کے ہاں کثرت سے بچے پیدا ہوئے۔ جب بچے جوان ہوتے اور ان کے نکاح کا مسئلہ پیدا ہوتا تو آپ کی شریعت کے مطابق ایک حمل کے لڑکے اور دوسرے حمل کی لڑکی کا آپس میں نکا ح کردیا جاتا اور اس طرح نسل انسانی در پھیلنے لگی۔ وجہ تنازعہ اور قربانی آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹے ہا بیل اور قابیل دو مختلف ۔۔۔ (حملوں) سے تھے مگر اتفاق کی بات کہ ہابیل کے ساتھ پیدا ہونیوالی لڑکی اچھی شکل و صورت کی نہ تھی جب کہ قابیل کی جڑواں بہن خوبصورت تھی اب اس وقت کی شریعت کے مطابق قابیل کا نکاح ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی کے ساتھ ہونا چاہیے تھا مگر وہ اسے پسند نہیں کرتا تھا اور اس کی بجائے اپنے ساتھ جنم لینے والی خوبرو لڑکی سے نکاح کا خواہشمند تھا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے انہیں سمجھا یا کہ ایسا کرنا درست نہیں ہے کیونکہ یہ حکم خدا وندی کی خلاف ورزی ہوگی ‘ مگر قابیل اپنی ضد پر مصررہا ادھر ہابیل بھی اسی لڑکی کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا تھا کیونکہ شریعت کے مطابق اس کے نکاح میں وہی آنی چاہیے تھی۔ آخر کار آدم (علیہ السلام) نے یہ تدبیر پیش کی کہ دونوں بھائی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نیاز قربانی پیش کریں اور جس بھائی کی قربانی قبول ہوجائے گی۔ اس کا موقف درست تسلیم کیا جائے گا۔ چناچہ دونوں بھائی اس تجویز پر رضا مند ہوگئے۔ ہا بیل کا پیشہ گلہ بانی تھا ‘ اس نے ریوڑپال رکھے تھے اور قابیل کا شتکاری کرتا تھا۔ چناچہ ہابیل نے اپنے جانوروں میں سے ایک اچھا اور عمدہ جانور منتخب کیا اور اسے اللہ کی راہ میں ذبح کردیا۔ دوسرے بھائی قابیل نے اپنے محلے کی پیداوار میں سے ردی مال قربانی کے لیے پیش کیا۔ جیسا کہ سورة آل عمران میں بیان ہوچکا ہے ‘ قربانی کی قبولیت کی نشانی یہ تھی کہ متعلقہ چیز کو ایک خاص مقام پر رکھ دیا جاتا تھا ‘ آسمان سے آگ نازل ہوتی تھی اور قبولیت کی صورت میں قربانی کی چیز کو جلاکر راکھ کردیتی تھی اسی طریقے کے مطابق دونوں بھائیوں نے اپنی اپنی قربانی اللہ کی بار گاہ میں پیش کی اس آیت کریمہ میں اسی چیز کو یہاں بیان کیا گیا ہے۔ اذ قربا قربانا جب دونوں نے قربانی پیش کی فتقبل من احد ھما تو ان میں سے ایک یعنی ہابیل کی قربانی قبول کرلی گئی۔ ولم یتقبل من الا خر اور دوسرے یعنی قابیل کی قربانی قبول نہ کی گئی۔ قابیل کا ارادہ قتل اس پر قابیل حسد کی آگ میں جل گیا اور اس نے غصے میں آکر دوسرے بھائی ہابیل سے کہا قال لا قتلنک میں تجھے مارڈالوں گا کیونکہ تو میری خواہش کے راستے میں حائل ہے۔ تیرا کام تمام کرکے ہی میں اپنے لیے راستہ صاف کرسکتا ہوں اس کے جواب میں ہا بیل نے کہا کہ بھائی ! طیش میں نہ آئو۔ قربانی کی قبولیت یا عدم قبولیت تو اس مالک الملک کے ہاتھ میں ہے جس کے حضور قربانی پیش کی جاتی ہے۔ اور اس کا قانون یہ ہے 173 قال ان ما یتقبل اللہ من المتقین کہ خدا تعالیٰ متقیوں کی قربانی قبول فرماتا ہے ۔ اگر تیری قربانی قبول نہیں ہوئی تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے تقویٰ کی صفت سے متصف کیا ہے اور میری قربانی قبول فرمائی ہے۔ اگر تجھ میں بھی یہ صفت پائی جاتی تو اللہ تعالیٰ تمہاری قربانی بھی قبول کرلیتا۔ حضرت ابو دردا ؓ بڑے اور اونچے درجے کے صحابی رسول ہیں۔ آپ حکیم الامت کہلاتے تھے ۔ ان کا قول ہے کہ بخدا اگر مجھے یقین ہو کہ میری یہ دور رکعت نماز قبول ہوگئی ہے تو یہ میرے لیے دنیا و ما فیہا سے زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ اس آیت کریمہ کی رو سے کہ ان ما یتقبل اللہ من المتقین میں سمجھو گا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے متقین کی صف میں شامل کرلیا ہے۔ ہابیل کی فراخدلی بہر حال ہابیل نے قابیل کی قتل کی دہمکی کے جواب میں ایک تو اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اس کی قربانی کی عدم قبولیت میں میرا کوئی قصور نہیں کیونکہ اللہ متقیوں کی قربانی قبول فرماتا ہے۔ اور دوسری بات یہ کی کہ اے بھائی ! لئن بسطت الی یدک لتقتلنی اگر دہمکی کے مطابق تو مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا ئیگا تو اس کے جواب میں مآ انا ببا سط یدی الیک لاقتلک میں تمہاری طرف ارادہ قتل سے اپنا ہاتھ نہیں بڑھائوں گا۔ کیونکہ انی اخاف اللہ رب العلمین میں اللہ رب العلمین سے ڈرتا ہوں کہ کہیں اس کی گرفت میں نہ آجائوں ‘ لہٰذا میں تیرے ساتھ کوئی زیادتی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں ۔ ہابیل کی طرف سے بھائی کے خلاف ہاتھ نہ اٹھانے کا عزم اس وجہ سے تھا۔ کہ اگر اپنے دفاع کے لیے بھی ہاتھ اٹھایا تو اسے جارحیت کا ہاتھ نہ سمجھا جائے۔ اور جب دو اشخاص ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں تو دونوں مجرم ہوتے ہیں خواہ ابتدا کسی طرف سے ہو۔ اسی لیے حضور ﷺ کا فرمان ہے صفحہ 174 پر قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا۔ حضور ! قاتل تو جہنمی ٹھہرا کہ وہ قتل ناحق کا مرتکب ہوا مگر مقتول کو کیسی سزا ؟ فرمایا انہ کان حریصا علی قتل صاحبہ وہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر حریص تھا ‘ یعنی ارادہ تو دونوں کا یہی تھا کہ ایک دوسرے کو قتل کردیں مگر ایک کا قتل ہوا اور دوسرا مقتول ‘ تاہم اپنے ارادہ کے اعتبار سے دونوں جہنمی ہیں۔ اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے ‘ کہ ان احکام کی روشنی میں کیا کسی مظلوم کو اپنے دفاع کا حق بھی حاصل نہیں ؟ تو بعض مفسرین کرم فرماتے ہیں۔ کہ مظلوم کے لیے اپنا دفاع نہ کرنا صرف حضرت آدم (علیہ السلام) کی شریعت میں جائز تھا ‘ ہماری شریعت میں ایسا حکم نہیں ہے۔ بلکہ یہاں تو حکم یہ ہے فاعتدوا علیہ بمثل ماعتدی علیکم “ (البقرہ) جو کوئی تم پر زیادتی کرے تم بھی اسی طرح جواب دو ۔ ہماری شریعت میں مظلوم کو بدلہ لینے کی اجازت ہے اور اگر صبر کیا جائے اور شہادت حاصل ہوجائے تو یہ مقام عزت ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے اپنے آخری دور میں نہ خود محاصرین پر ہاتھ اٹھایا اور نہ اپنی فوج کو ان کا مقابلہ کرنے کی اجازت دی یہ بہت اونچا درجہ ہے جسے حاصل ہوجائے۔ تاہم انتقام لینے کی رخصت ہے۔ گناہوں کا بار بہرحال ہا بیل نے عزمیت کا راستہ اختیار کیا اور کہا کہ اے میرے بھائی ! میں تیرے خلاف ہاتھ نہیں اٹھائوں گا۔ انی ارید ان تبوء باثمی واثمک میں چاہتا ہوں کہ تو میرا گناہ اور اپنا گناہ بھی لے کر لوٹے۔ یہاں اشکال پیدا ہوتا ہے ۔ کہ قاتل اپنے گناہ تو ساتھ لے جائیگا مگر مقتول کے گناہوں کا بوجھ کیسے اٹھائیگا جب کہ قرآن پاک کا عام ضابطہ یہ ہے۔ ولا تذر وزرۃ وزر اخری ۔۔۔۔ ابراہیمی کا بھی یہ اصول ہے کہ کسی ایک کے گناہ کا بوجھ دوسرا نہیں اٹھاتا۔ تو مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہاں باثمی کا مطلب ہابیل کے سارے گناہ نہیں بلکہ صرف اس کے قتل کا گناہ مراد ہے ‘ جسے قابیل اٹھا کرلے جائیگا۔ حضرت مولانا انور شاہ صاحب کشمیری (رح) فرماتے ہیں کہ ان الفاظ سے ایک لطیف مطلب بھی اخذ کیا جاسکتا ہے حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے السیف محاء الذنوب یعنی تلوار گناہوں کو ہٹا دیتی ہے۔ اسی لیے شہید کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں الا الذین سوائے قرض کے کہ وہ معاف نہیں ہوتا جب تک کہ قرض خواہ خود معاف نہ کرے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ہابیل کے کلام کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے۔ کہ مجھے قتل کرکے میرے گناہوں کے مٹانے کا بھی تو ہی سبب بنے گا۔ گویا میرے گناہ بھی لے جائیگا اور تیرے اپنے گناہ تو تیرے ساتھ ہی ہوں گا۔ گویا میرے گناہ بھی لے جائیگا اور تیرے اپنے گناہ تو تیرے ساتھ ہی ہوں گے۔ فرماتے ہیں اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مقتول سے تمام گناہ قاتل کے سر پر ڈال دیے جائیں گے۔ قاتل کا انجام فرما یا جب تو ایک قتل ناحق کا ارتکاب کر ہی بیٹھے گا فتکون من اصحب النار پس تو جہنمیوں میں سے ہوجائے گا۔ یعنی تیرے لیے دوزخ واجب کردی جائیگی۔ قتل چند اکبر الکبائر یعنی بڑے گناہوں میں سے ایک ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا ومن یقتل مئو منا متعمد فجزا ئو ہ جھنم خلدا فیھا “ (النسآء) جو کسی مومن کو عمدہ قتل کریگا۔ تو اس کی سزا دائمی جہنم ہے۔ اگر قتل کریگا۔ تو اس کی سزا دائمی جہنم ہے۔ اگر قتل کو حلال سمجھ کر کیا ہے۔ تو قاتل کا فر اور مرتد سمجھا جائے گا اور ہمیشہ دوزخ میں جلتا رہے گا۔ اور اگر حلال نہیں سمجھتا مگر قتل کا مرتکب ہوا ہے تو لمبے عرصے تک سزا پانے کے بعد ایمان کی بدولت رہائی حاصل کرے گا۔ فرمایا وذلک جزآء الظلمین ظلم کرنے والوں کی یہی جزا ہوا کرتی ہے۔ کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ بہرحال جب قابیل نے ہابیل کو قتل کرنے کا ارادہ کیا ‘ تو ہابیل نے اسے ہر چند سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسا کرنے سے تو قانون خداوندی کو توڑے گا جس کی بدولت تو خدا تعالیٰ کی ابدی گرفت میں مبتلا ہوگا۔
Top