Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 27
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ١ۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ١ؕ قَالَ لَاَقْتُلَنَّكَ١ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ
وَاتْلُ
: اور سنا
عَلَيْهِمْ
: انہیں
نَبَاَ
: خبر
ابْنَيْ اٰدَمَ
: آدم کے دو بیٹے
بِالْحَقِّ
: احوال واقعی
اِذْ قَرَّبَا
: جب دونوں نے پیش کی
قُرْبَانًا
: کچھ نیاز
فَتُقُبِّلَ
: تو قبول کرلی گئی
مِنْ
: سے
اَحَدِهِمَا
: ان میں سے ایک
وَلَمْ يُتَقَبَّلْ
: اور نہ قبول کی گئی
مِنَ الْاٰخَرِ
: دوسرے سے
قَالَ
: اس نے کہا
لَاَقْتُلَنَّكَ
: میں ضرور تجھے مار ڈالونگا
قَالَ
: اس نے کہا
اِنَّمَا
: بیشک صرف
يَتَقَبَّلُ
: قبول کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
مِنَ
: سے
الْمُتَّقِيْنَ
: پرہیزگار (جمع)
(اے پیغمبر) آپ ان کو پڑھ کر سنائیں جہاں (آدم علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا حق کے ساتھ جب کہ ان دونوں نے قربانی پیش کی پس ان میں سے ایک سے قبول کی گئی اور دوسرے سے قبول نہ کی گئی دوسرے نے کہا کہ میں تمہیں قتل کر ڈالوں گا اس نے کہا بیشک اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے متقیوں سے
ربط آیات پچھلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی بزدلی کا حال ذکر کیا تھا۔ کہ وہ دشمن سے مقابلہ کے لیے تیار نہ ہوئے جس کی پاداش میں چالیس سال تک سرزمین مقدس سے محروم رہے۔ جس طرح دشمن کے مقابلے میں بزدلی دکھائی بہت بری بات ہے اسی طرح قتل ناحق پر دلیر ہو ابھی قبیح خصلت ہے۔ اسی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے آج کے درس کی آیات میں آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا حال ذکر کیا ہے۔ اس سے پہلے آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے دونوں فرقوں کے نقض عہد کا تذکرہ فرمایا تھا۔ یہودی شکنی کی وجہ سے ملعون ٹھہرے ‘ پھر سنگدل ہوئے اور اللہ کی کتاب میں تحریف کے مرتکب۔ اسی عہد شکنی کی وجہ سے گروہ نصاریٰ باہمی جنگ و جدل میں مبتلا ہوئے۔ چناچہ ابتدائے سورة میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بھی ایفائے عہد کی تلقین کی یایھا الذین امنوا اوفو بالعقود “ یعنی اے اہل ایمان اپنے عہد و پیمان کو پورا کرو۔ آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹے آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا تذکرہ فرمایا ہے جن میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کردیا تھا ‘ یہ بھی قاتل کی طرف سے عہد شکنی کی وجہ سے ہی ہوا تھا۔ ارشاد ہوتا ہے واتل علیھم نبا ابنی ادم بالحق اے پیغمبر ! (ﷺ) آپ ان کو آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا حال پڑھ کر سنا دیں حق کے ساتھ نبا کا معنی خبر ‘ حال یا واقعہ ہوتا ہے ۔ اور ابن آدم سے عام طور پر انسان مراد لیا جاتا ہے۔ کیونکہ ہر انسان آدم (علیہ السلام) کا ہی بیٹا ہے ۔ “ ہم حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ ‘ عبد اللہ بن عمر ؓ ‘ مجاہد و قتادہ وغیرہ ہم فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں مذکور دو بیٹوں سے حضرت آدم (علیہ السلام) کے صلبی بیٹے مراد ہیں ‘ ان دو بیٹوں یعنی ہابیل اور قابیل کا تذکرہ تورات میں بھی موجود ہے تاہم۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہے۔ دو بیٹوں کا واقعہ حضور ﷺ کی بعثت سے ہزاروں سال پہلے پیش کیا اور اس کا ٹھیک طور پر علم خیر وحی الٰہی کے نہیں ہو سکتا تھا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے وحی ہی کے ذریعے اپنے پیغمبر کو فرمایا کہ آپ بنی اسرائیل اور دوسرے لوگوں کو اس واقعہ کی ٹھیک ٹھیک تفصیلات سنادیں تاکہ ان کو علم ہو سکے کہ عہد شکنی کے کس قدر قبیح نتائج برمد ہوتے ہیں۔ پیدائش اور نکاح مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ سب کے جدا مجد حضرت آدم (علیہ السلام) کے ہاں ہر حمل سے دو جڑواں بچے پیدا ہوتے تھے جن میں ایک لڑکا ہوا اور دوسری لڑکی۔ چناچہ جب آدم (علیہ السلام) اپنی زندگی کے ایک ہزار برس مکمل کرکے اس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ ایک ہزار سے زیادہ اولاد یعنی لڑکے لڑکیاں پیچھے چھوڑ گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو ایسا ہی منظور تھا۔ نسل انسانی کی ابتداء تھی اور اسے پوری دنیا میں پھیلا نا مقصود تھا۔ لہٰذا حضرت آدم (علیہ السلام) کے ہاں کثرت سے بچے پیدا ہوئے۔ جب بچے جوان ہوتے اور ان کے نکاح کا مسئلہ پیدا ہوتا تو آپ کی شریعت کے مطابق ایک حمل کے لڑکے اور دوسرے حمل کی لڑکی کا آپس میں نکا ح کردیا جاتا اور اس طرح نسل انسانی در پھیلنے لگی۔ وجہ تنازعہ اور قربانی آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹے ہا بیل اور قابیل دو مختلف ۔۔۔ (حملوں) سے تھے مگر اتفاق کی بات کہ ہابیل کے ساتھ پیدا ہونیوالی لڑکی اچھی شکل و صورت کی نہ تھی جب کہ قابیل کی جڑواں بہن خوبصورت تھی اب اس وقت کی شریعت کے مطابق قابیل کا نکاح ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی کے ساتھ ہونا چاہیے تھا مگر وہ اسے پسند نہیں کرتا تھا اور اس کی بجائے اپنے ساتھ جنم لینے والی خوبرو لڑکی سے نکاح کا خواہشمند تھا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے انہیں سمجھا یا کہ ایسا کرنا درست نہیں ہے کیونکہ یہ حکم خدا وندی کی خلاف ورزی ہوگی ‘ مگر قابیل اپنی ضد پر مصررہا ادھر ہابیل بھی اسی لڑکی کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا تھا کیونکہ شریعت کے مطابق اس کے نکاح میں وہی آنی چاہیے تھی۔ آخر کار آدم (علیہ السلام) نے یہ تدبیر پیش کی کہ دونوں بھائی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نیاز قربانی پیش کریں اور جس بھائی کی قربانی قبول ہوجائے گی۔ اس کا موقف درست تسلیم کیا جائے گا۔ چناچہ دونوں بھائی اس تجویز پر رضا مند ہوگئے۔ ہا بیل کا پیشہ گلہ بانی تھا ‘ اس نے ریوڑپال رکھے تھے اور قابیل کا شتکاری کرتا تھا۔ چناچہ ہابیل نے اپنے جانوروں میں سے ایک اچھا اور عمدہ جانور منتخب کیا اور اسے اللہ کی راہ میں ذبح کردیا۔ دوسرے بھائی قابیل نے اپنے محلے کی پیداوار میں سے ردی مال قربانی کے لیے پیش کیا۔ جیسا کہ سورة آل عمران میں بیان ہوچکا ہے ‘ قربانی کی قبولیت کی نشانی یہ تھی کہ متعلقہ چیز کو ایک خاص مقام پر رکھ دیا جاتا تھا ‘ آسمان سے آگ نازل ہوتی تھی اور قبولیت کی صورت میں قربانی کی چیز کو جلاکر راکھ کردیتی تھی اسی طریقے کے مطابق دونوں بھائیوں نے اپنی اپنی قربانی اللہ کی بار گاہ میں پیش کی اس آیت کریمہ میں اسی چیز کو یہاں بیان کیا گیا ہے۔ اذ قربا قربانا جب دونوں نے قربانی پیش کی فتقبل من احد ھما تو ان میں سے ایک یعنی ہابیل کی قربانی قبول کرلی گئی۔ ولم یتقبل من الا خر اور دوسرے یعنی قابیل کی قربانی قبول نہ کی گئی۔ قابیل کا ارادہ قتل اس پر قابیل حسد کی آگ میں جل گیا اور اس نے غصے میں آکر دوسرے بھائی ہابیل سے کہا قال لا قتلنک میں تجھے مارڈالوں گا کیونکہ تو میری خواہش کے راستے میں حائل ہے۔ تیرا کام تمام کرکے ہی میں اپنے لیے راستہ صاف کرسکتا ہوں اس کے جواب میں ہا بیل نے کہا کہ بھائی ! طیش میں نہ آئو۔ قربانی کی قبولیت یا عدم قبولیت تو اس مالک الملک کے ہاتھ میں ہے جس کے حضور قربانی پیش کی جاتی ہے۔ اور اس کا قانون یہ ہے 173 قال ان ما یتقبل اللہ من المتقین کہ خدا تعالیٰ متقیوں کی قربانی قبول فرماتا ہے ۔ اگر تیری قربانی قبول نہیں ہوئی تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے تقویٰ کی صفت سے متصف کیا ہے اور میری قربانی قبول فرمائی ہے۔ اگر تجھ میں بھی یہ صفت پائی جاتی تو اللہ تعالیٰ تمہاری قربانی بھی قبول کرلیتا۔ حضرت ابو دردا ؓ بڑے اور اونچے درجے کے صحابی رسول ہیں۔ آپ حکیم الامت کہلاتے تھے ۔ ان کا قول ہے کہ بخدا اگر مجھے یقین ہو کہ میری یہ دور رکعت نماز قبول ہوگئی ہے تو یہ میرے لیے دنیا و ما فیہا سے زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ اس آیت کریمہ کی رو سے کہ ان ما یتقبل اللہ من المتقین میں سمجھو گا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے متقین کی صف میں شامل کرلیا ہے۔ ہابیل کی فراخدلی بہر حال ہابیل نے قابیل کی قتل کی دہمکی کے جواب میں ایک تو اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اس کی قربانی کی عدم قبولیت میں میرا کوئی قصور نہیں کیونکہ اللہ متقیوں کی قربانی قبول فرماتا ہے۔ اور دوسری بات یہ کی کہ اے بھائی ! لئن بسطت الی یدک لتقتلنی اگر دہمکی کے مطابق تو مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا ئیگا تو اس کے جواب میں مآ انا ببا سط یدی الیک لاقتلک میں تمہاری طرف ارادہ قتل سے اپنا ہاتھ نہیں بڑھائوں گا۔ کیونکہ انی اخاف اللہ رب العلمین میں اللہ رب العلمین سے ڈرتا ہوں کہ کہیں اس کی گرفت میں نہ آجائوں ‘ لہٰذا میں تیرے ساتھ کوئی زیادتی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں ۔ ہابیل کی طرف سے بھائی کے خلاف ہاتھ نہ اٹھانے کا عزم اس وجہ سے تھا۔ کہ اگر اپنے دفاع کے لیے بھی ہاتھ اٹھایا تو اسے جارحیت کا ہاتھ نہ سمجھا جائے۔ اور جب دو اشخاص ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں تو دونوں مجرم ہوتے ہیں خواہ ابتدا کسی طرف سے ہو۔ اسی لیے حضور ﷺ کا فرمان ہے صفحہ 174 پر قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا۔ حضور ! قاتل تو جہنمی ٹھہرا کہ وہ قتل ناحق کا مرتکب ہوا مگر مقتول کو کیسی سزا ؟ فرمایا انہ کان حریصا علی قتل صاحبہ وہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر حریص تھا ‘ یعنی ارادہ تو دونوں کا یہی تھا کہ ایک دوسرے کو قتل کردیں مگر ایک کا قتل ہوا اور دوسرا مقتول ‘ تاہم اپنے ارادہ کے اعتبار سے دونوں جہنمی ہیں۔ اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے ‘ کہ ان احکام کی روشنی میں کیا کسی مظلوم کو اپنے دفاع کا حق بھی حاصل نہیں ؟ تو بعض مفسرین کرم فرماتے ہیں۔ کہ مظلوم کے لیے اپنا دفاع نہ کرنا صرف حضرت آدم (علیہ السلام) کی شریعت میں جائز تھا ‘ ہماری شریعت میں ایسا حکم نہیں ہے۔ بلکہ یہاں تو حکم یہ ہے فاعتدوا علیہ بمثل ماعتدی علیکم “ (البقرہ) جو کوئی تم پر زیادتی کرے تم بھی اسی طرح جواب دو ۔ ہماری شریعت میں مظلوم کو بدلہ لینے کی اجازت ہے اور اگر صبر کیا جائے اور شہادت حاصل ہوجائے تو یہ مقام عزت ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے اپنے آخری دور میں نہ خود محاصرین پر ہاتھ اٹھایا اور نہ اپنی فوج کو ان کا مقابلہ کرنے کی اجازت دی یہ بہت اونچا درجہ ہے جسے حاصل ہوجائے۔ تاہم انتقام لینے کی رخصت ہے۔ گناہوں کا بار بہرحال ہا بیل نے عزمیت کا راستہ اختیار کیا اور کہا کہ اے میرے بھائی ! میں تیرے خلاف ہاتھ نہیں اٹھائوں گا۔ انی ارید ان تبوء باثمی واثمک میں چاہتا ہوں کہ تو میرا گناہ اور اپنا گناہ بھی لے کر لوٹے۔ یہاں اشکال پیدا ہوتا ہے ۔ کہ قاتل اپنے گناہ تو ساتھ لے جائیگا مگر مقتول کے گناہوں کا بوجھ کیسے اٹھائیگا جب کہ قرآن پاک کا عام ضابطہ یہ ہے۔ ولا تذر وزرۃ وزر اخری ۔۔۔۔ ابراہیمی کا بھی یہ اصول ہے کہ کسی ایک کے گناہ کا بوجھ دوسرا نہیں اٹھاتا۔ تو مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہاں باثمی کا مطلب ہابیل کے سارے گناہ نہیں بلکہ صرف اس کے قتل کا گناہ مراد ہے ‘ جسے قابیل اٹھا کرلے جائیگا۔ حضرت مولانا انور شاہ صاحب کشمیری (رح) فرماتے ہیں کہ ان الفاظ سے ایک لطیف مطلب بھی اخذ کیا جاسکتا ہے حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے السیف محاء الذنوب یعنی تلوار گناہوں کو ہٹا دیتی ہے۔ اسی لیے شہید کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں الا الذین سوائے قرض کے کہ وہ معاف نہیں ہوتا جب تک کہ قرض خواہ خود معاف نہ کرے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ہابیل کے کلام کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے۔ کہ مجھے قتل کرکے میرے گناہوں کے مٹانے کا بھی تو ہی سبب بنے گا۔ گویا میرے گناہ بھی لے جائیگا اور تیرے اپنے گناہ تو تیرے ساتھ ہی ہوں گا۔ گویا میرے گناہ بھی لے جائیگا اور تیرے اپنے گناہ تو تیرے ساتھ ہی ہوں گے۔ فرماتے ہیں اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مقتول سے تمام گناہ قاتل کے سر پر ڈال دیے جائیں گے۔ قاتل کا انجام فرما یا جب تو ایک قتل ناحق کا ارتکاب کر ہی بیٹھے گا فتکون من اصحب النار پس تو جہنمیوں میں سے ہوجائے گا۔ یعنی تیرے لیے دوزخ واجب کردی جائیگی۔ قتل چند اکبر الکبائر یعنی بڑے گناہوں میں سے ایک ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا ومن یقتل مئو منا متعمد فجزا ئو ہ جھنم خلدا فیھا “ (النسآء) جو کسی مومن کو عمدہ قتل کریگا۔ تو اس کی سزا دائمی جہنم ہے۔ اگر قتل کریگا۔ تو اس کی سزا دائمی جہنم ہے۔ اگر قتل کو حلال سمجھ کر کیا ہے۔ تو قاتل کا فر اور مرتد سمجھا جائے گا اور ہمیشہ دوزخ میں جلتا رہے گا۔ اور اگر حلال نہیں سمجھتا مگر قتل کا مرتکب ہوا ہے تو لمبے عرصے تک سزا پانے کے بعد ایمان کی بدولت رہائی حاصل کرے گا۔ فرمایا وذلک جزآء الظلمین ظلم کرنے والوں کی یہی جزا ہوا کرتی ہے۔ کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ بہرحال جب قابیل نے ہابیل کو قتل کرنے کا ارادہ کیا ‘ تو ہابیل نے اسے ہر چند سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسا کرنے سے تو قانون خداوندی کو توڑے گا جس کی بدولت تو خدا تعالیٰ کی ابدی گرفت میں مبتلا ہوگا۔
Top