Tafseer-e-Baghwi - Yunus : 16
قُلْ لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَیْكُمْ وَ لَاۤ اَدْرٰىكُمْ بِهٖ١ۖ٘ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
قُلْ : آپ کہہ دیں لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ : اگر چاہتا اللہ مَا تَلَوْتُهٗ : نہ پڑھتا میں اسے عَلَيْكُمْ : تم پر وَلَآ اَدْرٰىكُمْ : اور نہ خبر دیتا تمہیں بِهٖ : اس کی فَقَدْ لَبِثْتُ : تحقیق میں رہ چکا ہوں فِيْكُمْ : تم میں عُمُرًا : ایک عمر مِّنْ قَبْلِهٖ : اس سے پہلے اَفَلَا : سو کیا نہ تَعْقِلُوْنَ : عقل سے کام لیتے تم
(یہ بھی) کہہ دو کہ اگر خدا چاہتا تو (نہ تو) میں ہی یہ (کتاب) تم کو پڑھ کر سناتا اور نہ وہی تمہیں اس سے واقف کرتا۔ میں اس سے پہلے تم میں ایک عمر رہا ہوں (اور کبھی) ایک کلمہ بھی اس طرح کا نہیں کہا بھلا تم سمجھتے نہیں ؟
(16)” قل لو شاء اللہ ما تلوتہ علیکم “ یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو یہ قرآن مجھ پر نہ اتارتے ” ولا ادراکم بہ “ اور نہ تمہیں اس کی خبر دیتے بزی نے ابن کثیر رحمہما اللہ سے ” ولا دراکم بہ “ قصر کے ساتھ پڑھا ہے ، مراد یہ ہے کہ تم کو اس کا علم میرے تم پر پڑھنے کے بغیر نہ دینا ، اور ابن عباس ؓ نے اس کو ” ولا انذرتکم بہ “ پڑھا ہے۔ باب انداز سے ۔” فقدلبثت فیکم عمرا “ چالیس سال ” من قبلہ “ قرآن کے نازل ہونے سے پہلے اور میں تمہارے پاس اس عرصہ میں کچھ نہیں لایا ۔ ” فلا تعقلون “ کہ یہ میری طرف سے نہیں ہے۔ اور نبی کریم ﷺ ان میں وحی سے پہلے چالیس سال رہے، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ (علیہ السلام) کی طرف وحی کی۔ پھر مکہ میں وحی کے بعد تیرہ سال رہے ، پھر ہجرت کی اور مدینہ میں دس سال مقیم رہے اور تریسٹھ برس کی عمر میں دارفانی سے کوچ کر گئے اور انس ؓ نے روایت کیا ہے کہ وحی کے بعد مکہ میں دس سال اور مدینہ میں دس سال اور مدینہ میں دس سال مقیم رہے اور ساتھ برس کی عمر میں وفات پائی اور پہلا قول زیادہ مشہور اور ظاہر ہے۔
Top