Maarif-ul-Quran - Yunus : 16
قُلْ لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَیْكُمْ وَ لَاۤ اَدْرٰىكُمْ بِهٖ١ۖ٘ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
قُلْ : آپ کہہ دیں لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ : اگر چاہتا اللہ مَا تَلَوْتُهٗ : نہ پڑھتا میں اسے عَلَيْكُمْ : تم پر وَلَآ اَدْرٰىكُمْ : اور نہ خبر دیتا تمہیں بِهٖ : اس کی فَقَدْ لَبِثْتُ : تحقیق میں رہ چکا ہوں فِيْكُمْ : تم میں عُمُرًا : ایک عمر مِّنْ قَبْلِهٖ : اس سے پہلے اَفَلَا : سو کیا نہ تَعْقِلُوْنَ : عقل سے کام لیتے تم
کہہ دے اگر اللہ چاہتا تو میں نہ پڑھتا اس کو تمہارے سامنے اور نہ وہ تم کو خبر کرتا اس کی کیونکہ میں رہ چکا ہوں تم میں ایک عمر اس سے پہلے، کیا پھر تم نہیں سوچتے،
اس کے بعد قرآن کے من جانب اللہ اور کلام الہٰی ہونے کو ایک واضح دلیل سے سمجھایا، (آیت) فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ ، یعنی تم ذرا یہ بھی تو سوچو کہ نزول قرآن سے پہلے میں نے تمہارے سامنے چالیس سال کی طویل مدت گزاری ہے، اس مدت میں تم نے کبھی مجھے شعر و سخن یا کوئی مقالہ لکھتے ہوئے نہیں سنا، اگر میں اپنی طرف سے ایسا کلام کہہ سکتا تو کچھ نہ کچھ اس چالیس سال کے عرصہ میں بھی کہا ہوتا، اس کے علاوہ اس چالیس سالہ طویل زندگی میں تم میرے چال چلن میں صدق و دیانت کا تجربہ کرچکے ہو کہ عمر بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا تو آج چالیس سال کے بعد آخر جھوٹ بولنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے، اس سے بدیہی طور پر ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ صادق امین ہیں، قرآن میں جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام اسی کی طرف سے آیا ہوا ہے۔

اہم فائدہ
قرآن کریم کی اس دلیل نے صرف قرآن کے کلام حق ہونے پر ہی مکمل ثبوت پیش نہیں کیا بلکہ عام معاملات میں کھرے کھو ٹے اور حق و باطل کی پہچان کا ایک اصول بھی بتادیا کہ کسی شخص کو کوئی عہدہ یا منصب سپرد کرنا ہو تو اس کی قابلیت اور صلاحیت کو جانچنے کا بہترین اصول یہ ہے کہ اس کی پچھلی زندگی کا جائزہ لیا جائے، اگر اس میں صدق و امانت داری موجود ہے تو آئندہ بھی اس کی توقع کی جاسکتی ہے، اور اگر پچھلی زندگی میں اس کی دیانت و امانت اور صدق و سچائی کی شہادت موجود نہیں تو آئندہ کے لئے محض اس کے کہنے اور دعوے کی وجہ سے اس پر اعتماد کرنا کوئی دانشمندی نہیں، آج عہدوں کی تقسیم اور ذمہ داریوں کی سپردگی میں جس قدر غلطیاں اور ان کی وجہ سے عظیم مفاسد پیدا ہو رہے ہیں ان سب کی اصلی وجہ اسی اصول فطرت کو چھوڑ کر رسمی چیزوں کے پیچھے پڑجانا ہے۔
Top