Tafseer-e-Majidi - Yunus : 16
قُلْ لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَیْكُمْ وَ لَاۤ اَدْرٰىكُمْ بِهٖ١ۖ٘ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
قُلْ : آپ کہہ دیں لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ : اگر چاہتا اللہ مَا تَلَوْتُهٗ : نہ پڑھتا میں اسے عَلَيْكُمْ : تم پر وَلَآ اَدْرٰىكُمْ : اور نہ خبر دیتا تمہیں بِهٖ : اس کی فَقَدْ لَبِثْتُ : تحقیق میں رہ چکا ہوں فِيْكُمْ : تم میں عُمُرًا : ایک عمر مِّنْ قَبْلِهٖ : اس سے پہلے اَفَلَا : سو کیا نہ تَعْقِلُوْنَ : عقل سے کام لیتے تم
آپ کہہ دیجیے کہ اگر اللہ کی مشیت (یہی) ہوتی تو میں نہ تم کو یہ (کلام) پڑھ کر سنا سکتا اور نہ (اللہ) تم کو اس کی اطلاع کرتا، اور پھر میں تو تمہارے در میان اس کے قبل بھی اتنے حصہ عمر تک رہ چکا ہوں کیا تم عقل سے کام (ہی) نہیں لیتے،30۔
30۔” روشن خیالان “ عرب کی اسی فرمایشی ترمیم کے جواب میں رسول اللہ ﷺ کے جواب کا خلاصہ حسب ذیل ہے :۔ (1) اپنی عمر کے 40۔ 50 سال تمہاری آنکھوں کے سامنے گزار چکا ہوں۔ میرے تدین، راستبازی، صداقت شعاری پر تم سب گواہ ہو کبھی کسی خفیف معاملہ میں بھی کذب وافتراء سے مجھے کام لیتے تم نے دیکھا یا سنا ہے ؟ پھر جب یہ نہیں، تو اتنے بڑے افتراء کی کہ اپنے کلام کو خدا کا کلام کہہ کر پکاروں، آخر مجھے جرأت ہو ہی کیونکر سکتی ہے ؟ تمہاری عقلیں اس احتمال ہی کو کیسے تسلیم کررہی ہیں ؟ (2) تمہارے درمیان اپنی عمر کا اتنا بڑا حصہ میں گزار چکا۔ میری ایک ایک خوبو سے تم واقف ہوچکے۔ میری بولی، میرے انداز کلام کو تم خوب اچھی طرح جان چکے، پہچان چکے، تمہیں قرآن میں اور میرے کلام میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ؟ میں چاہوں بھی تو قرآن جیسے ممتنع النظیر کلام پر کب قادر ہوسکتا ہوں ؟ اب تک میرا کوئی کلام اس ٹکر کا جب نہ ہوا، تو آج کیسے ہوا جارہا ہے ؟ قرآن کا یہ استدلال اپنے کلام الہی ہونے پر پورا وزن دار اس وقت بھی تھا۔ پھر جس وقت سے احادیث رسول مدون ہوگئیں اس وقت سے تو اس دلیل میں اور زیادہ جان پڑگئی ہے حدیثوں کے چھوٹے بڑے مجموعہ ایک دو نہیں، بیسیوں کی تعداد میں آج سے نہیں صدیوں سے شائع چلے رہے ہیں، کیا عقل کے اندھوں کو اتنانظر نہیں آتا کہ جو زبان بخاری، مسلم، ترمذی وغیرہ کی ہے وہ قرآن کی ہے یا ہوسکتی ہے ؟۔ زبان، انداز بیان اسلوب کلام، نوعیت تراکیب کا اتنا نمایاں وواضح فرق بھی کیا شام، مصر، فلسطین، عراق وغیرہ کے اہل زبان یہود اور نصرانیوں کو نہیں سجھائی دیتا ؟ (آیت) ” ادرکم “۔ میں ضمیر فاعلی حق تعالیٰ کی جانب ہے۔ اے لااعلمکم اللہ (قرطبی) بعض نے رسول کی طرف بھی سمجھی ہے۔ مقصد ومآل دونوں صورتوں کا ایک ہی ہے۔
Top