Al-Qurtubi - Yunus : 16
قُلْ لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَیْكُمْ وَ لَاۤ اَدْرٰىكُمْ بِهٖ١ۖ٘ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
قُلْ : آپ کہہ دیں لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ : اگر چاہتا اللہ مَا تَلَوْتُهٗ : نہ پڑھتا میں اسے عَلَيْكُمْ : تم پر وَلَآ اَدْرٰىكُمْ : اور نہ خبر دیتا تمہیں بِهٖ : اس کی فَقَدْ لَبِثْتُ : تحقیق میں رہ چکا ہوں فِيْكُمْ : تم میں عُمُرًا : ایک عمر مِّنْ قَبْلِهٖ : اس سے پہلے اَفَلَا : سو کیا نہ تَعْقِلُوْنَ : عقل سے کام لیتے تم
(یہ بھی) کہہ دو کہ اگر خدا چاہتا تو (نہ تو) میں ہی یہ (کتاب) تم کو پڑھ کر سناتا اور نہ وہی تمہیں اس سے واقف کرتا۔ میں اس سے پہلے تم میں ایک عمر رہا ہوں (اور کبھی) ایک کلمہ بھی اس طرح کا نہیں کہا بھلا تم سمجھتے نہیں ؟
آیت نمبر : 16۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” قل لوشآء اللہ تلوتہ علیکم ولا ادرکم بہ “۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو وہ مجھے تمہاری طرف نہ بھیجتا اور (نہ) میں تم پر قرآن کریم پڑھتا اور نہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے بارے آگاہ کرتا اور نہ تمہیں خبر دیتا، کہا جاتا ہے : دریت الشیئ (میں نے کسی شی کو جان لیا) وادرائی اللہ بہ (اور اللہ نے مجھے اس کے بارے آگاہ کیا) ودریتہ ودریت بہ (میں نے اسے جان لیا اور مجھے اس کے بارے آگاہ کیا گیا) اور درایت میں دھوکہ اور فریب دینا کا معنی پایا جاتا ہے اور اسی سے ہے دریت الرجل، یعنی ختلتہ (میں نے اسے دھوکا دیا) اسی وجہ سے الداری مطلق اللہ تعالیٰ کے حق میں نہیں استعمال کیا جاسکتا اور یہ بھی کہ اس میں توفیق نہیں ہے۔ اور ابن کثیر نے ولا دراکم بہ لام اور ہمزہ کے درمیان بغیر الف کے اسے پڑھا ہے اور اس کا معنی ہے : اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو وہ تمہیں اس کے بارے آگاہ کردیتا بغیر اس کے کہ میں تم پر اس کی تلاوت کرتا پس یہ لام تاکید ہے جو افعل کے الف پر داخل ہے، حضرت ابن عباس ؓ اور حسن رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ولا ادراتکم بہ یاء کو الف سے تبدیل کرکے پڑھا ہے، اور یہ بنی عقیل کی لغت پر ہے، شاعر نے کہا ہے : لعمرک ما اخشی التصعلک مابقی، علی الارض قیسی یسوق الاباعرا (1) (تفسیر طبری، سورة ، جلد 11، صفحہ 113) اور دوسرے نے کہا ہے : الا اذنت اھل الیمامۃ طیء بحرب کناصات الاغر المشھر (2) (تفسیر طبری، سورة ، جلد 11، صفحہ 113) ابو حاتم نے کہا ہے : میں نے اصمعی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے عمر بن علاء سے پوچھا : کیا حسن کی قرات ولا ادراتکم بہ کی کوئی وجہ اور دلیل ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا : نہیں اور ابو عبید نے کہا ہے : حسن کی قرات ولا ادراتکم بہ کی سوائے غلط ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے، نحاس نے کہا ہے : ابو عبید کے قول کا معنی ہے : کوئی وجہ نہیں، اگر اللہ تعالیٰ چاہے غلط ہونے پر، کیونکہ کہا جاتا ہے : دریت ای علمت (میں نے جان لیا) اور ادریت غیری (میں نے اپنے غیر کو آگاہ کیا) اور کہا جاتا ہے : درات ای دفعت (میں نے دور کیا، میں نے دفاع کیا) پس دریت اور درآت کے درمیان غلطی واقع ہو رہی ہے، ابو حاتم نے کہا ہے : جو میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ حسن اس میں ولا ادریتکم بہ کا ارادہ رکھتے ہیں پس انہوں نے بنی حارث بن کعب کی لغت کے مطابق یا کو الف سے بدل دیا ہے (کیونکہ) وہ یا کو الف سے بدل دیتے ہیں جب اس کا ماقبل مفتوح ہو جیسا کہ (آیت) ” ان ھذن لسحرن “۔ (طہ : 63) مہدوی نے کہا ہے : جس نے ادراتکم پڑھا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمزہ کی اصل یا ہے پس اس کی اصل ادریتکم ہے پھر یاء کو الف سے بدل دیا گیا اگرچہ وہ ساکن ہے، جیسا کہ کہا : یایس یا اصل میں ییبس ہے۔ اور طائی اصل میں طیء ہے، پھر الف کو ہمزہ سے بدل دیا گیا ہے ان کی لغت کے مطابق جنہوں نے العالم میں العالم اور الحاتم اور الحاتم کہا ہے، نحاس نے کہا ہے۔ اور حسن سے ایک روایت ولا ادراتکم ہمزہ کے ساتھ بھی ہے اور ابو حاتم وغیرہ نے کلام کی ہے کہ وہ ہمزہ کے بغیر ہے، اور یہ بھی جائز ہے کہ وہ درات بمعنی دفعت سے ہو، یعنی میں تمہیں حکم نہ دیتا تھا کہ تم دور ہوجاؤ اور قرآن کے بدلے کفر کو چھوڑ دو ، قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فقد لبثت فیکم عمرا “۔ یہ ظرف ہے، یعنی زمانے کی ایک مقدار اور وہ چالیس برس ہے (یعنی میں تم میں اتنا عرصہ گزار چکا ہوں) (آیت) ” من قبلہ “۔ قرآن کریم سے پہلے۔ تم مجھے صدق اور امانت کے سبب پہچانتے ہو، نہ میں پڑھتا ہوں اور نہ لکھتا ہوں، پھر میں تمہارے معجزات لے کر آیا۔ (آیت) افلا تعقلون “۔ کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ یہ نہیں ہو سکتا مگر اللہ تعالیٰ کی جانب سے نہ کہ میری جانب سے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : (آیت) ” لبثت فیکم عمرا “۔ کا معنی ہے میں نے اپنی جوانی کی مدت تمہارے درمیان گزاری ہے میں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی۔ کیا تم اب مجھ سے یہ چاہتے ہو حالانکہ میں چالیس سال کی عمر کو پہنچ چکا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف کروں اور میں اس میں رد وبدل کروں جو وہ مجھ پر نازل فرماتا ہے، حضرت قتادہ (رح) نے کہا : آپ نے ان میں چالیس برس گزارے اور دو سال اس حال میں گزارے کہ انبیاء (علیہم السلام) کے خواب دیکھتے رہے، اور آپ ﷺ نے باسٹھ برس کی عمر میں وصال فرمایا :
Top