Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 4
مِنْ قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ اَنْزَلَ الْفُرْقَانَ١ؕ۬ اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍ
مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے ھُدًى : ہدایت لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَاَنْزَلَ : اور اتارا الْفُرْقَانَ : فرقان اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْا : انکار کیا بِاٰيٰتِ : آیتوں سے اللّٰهِ : اللہ لَھُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب شَدِيْدٌ : سخت وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : زبردست ذُو انْتِقَامٍ : بدلہ لینے والا
(یعنی) لوگوں کی ہدایت کے لئے (تورات اور انجیل اتاری) اور پھر (قرآن جو حق اور باطل کو (الگ الگ کردینے والا (ہے) نازل کیا، جو لوگ خدا کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں ان کو سخت عذاب ہوگا، اور خدا زبردست (اور بدلہ) لینے والا ہے
4۔ (من قبل اس سے پہلے ) گویا کہ اس طرح یوں کہا (آیت)” وانزل التوراۃ والانجیل “۔ کیونکہ تورات اور انجیل ایک ہی مرتبہ نازل ہوئی اور قرآن کے متعلق ” نزل “ کے الفاظ استعمال کیے ۔ ” انزال “ کے معنی ہیں پورے مجموعہ کا اتارنا اور ” نزل “ کے معنی تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کرنا اور تنزیل کے معنی ٹکڑے ٹکڑے کرکے نازل کرنا ، بصریین نے کہا کہ تورات کی اصل ” یہ فوعلۃ “ کے وزن پر ہے مثل ” دوخلۃ وحوقلۃ “ پہلی واؤ کو تاء سے اور یاء مفتوحہ کو الف سے بدل دیا تورات بن گیا پھر اصل کتاب میں یاء کو لکھ دیا گیا ۔ کو فیین کے نزدیک تورات کا اصل ” تفعلۃ “ مثل ” توصیۃ “ اور ” توفیۃ “ کی طرح ہے ، اس کو الف سے بدل دیا لغت طی کی وجہ سے اور یہ لوگ ” جاریۃ “ کو جاراۃ بولتے ہیں اور ” ناصیۃ “ کو ناصاۃ کہتے ہیں اور ان کے قول کے مطابق یہ ” وری الذند “ کا لفظ ہے چقماق سے جب آگ نکلتی ہے تو اس وقت کہا جاتا ہے ” واوریتہ انا “ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ” افرایتم النار التی تورون “ اس کا نام تورات اس لیے ہے کہ اس میں نور و روشنی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان (آیت)” وضیاء وذکری للمتقین “۔ بعض حضرات نے کہا یہ تورات ہی ہے اس میں اسرار کو چھپاتے تھے ۔ اور انجیل افعیل کے وزن پر ہے نجل سے ہے بمعنی خروج اور ولد کو بھی نجل کہتے ہیں اس کے پیدا ہونے کی وجہ سے انجیل کو یہ نام اسی وجہ سے دیا گیا ۔ اور کہا جاتا ہے کہ نجل سے مشتق ہے اور بعض حضرات نے کہا کہ تورات عبرانی زبان کا لفظ ہے تور اور تور اس کا معنی یہ ہے کہ شریعت اور انجیل سریانی زبان کا لفظ ہے اور اس کا معنی اکلیل ہے جو ایک خاص قسم کی گھاس ہوتی ہے (ھدی للناس اس میں ہدایت ہے لوگوں کے لیے) ان لوگوں کے جو پیروی کرتے ہیں ہدایت ہے لوگوں کے لیے اور یہ مصدر ہے (وانزل الفرقان اور تمہارے لیے فرقان نازل ہوا) جو حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہوں ، امام سدی (رح) فرماتے ہیں کہ آیت میں تقدیم اور تاخیر ہے تقدیری عبارت یوں ہوگی (آیت)” وانزل التوراۃ والانجیل والفرقان ھدی للناس “۔۔۔۔۔۔۔ ان الذین کفروا بایات اللہ لھم عذاب شدید واللہ عزیز ذوانتقام “۔ (جن لوگوں نے اللہ کی نازل کردہ آیات کا انکار کیا ان کے لیے سخت عذاب ہے اور اللہ غالب انتقام لینے والا ہے)
Top