Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 6
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
إِنَّ : بیشک الَّذِينَ : جن لوگوں نے کَفَرُوا : کفر کیا سَوَاءٌ : برابر عَلَيْهِمْ : ان پر أَ أَنْذَرْتَهُمْ : خواہ آپ انہیں ڈرائیں أَمْ لَمْ : یا نہ تُنْذِرْهُمْ : ڈرائیں انہیں لَا يُؤْمِنُونَ : ایمان نہ لائیں گے
بیشک جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہے برابر ہے کہ آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں، وہ ایمان نہیں لائیں گے
کافروں کی گمراہی اور آخرت میں بدحالی۔ اہل ایمان کے اوصاف بیان فرمانے کے بعد ان آیات میں ان کافروں کا ذکر فرمایا ہے۔ جن کا اللہ کے علم میں خاتمہ کفر پر ہونا ہے اور جو لوگ حق واضح ہوتے ہوئے اور حق و باطل کو سمجھتے ہوئے کفر پر جمے ہوئے ہیں۔ اور انہوں نے طے کر رکھا ہے کہ ہمیں ہرگز کسی حالت میں اسلام قبول نہیں کرنا۔ اللہ جل شانہ نے ہر شخص کو فطرت ایمانیہ پر پیدا فرمایا پھر اس کے ماں باپ اس کو کفر پر ڈال دیتے ہیں اور وہ اپنے ماحول اور معاشرہ کی وجہ سے ایمانی استعداد کو کھو بیٹھتا ہے اور اپنے کو اس درجہ میں پہنچا دیتا ہے کہ کسی قیمت پر اسلام قبول کرنے کو تیار نہیں۔ جب انہوں نے اپنی شرارت اور عناد کی وجہ سے اپنی استعداد خود برباد کردی تو اپنی تباہی کا سبب وہ خود ہی بن گئے لیکن چونکہ اللہ بندوں کے تمام افعال کا خالق ہے اس لیے اس خلق افعال کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی جسے مہر لگانے سے تعبیر کیا گیا۔ یہ مسئلہ قدرے باریک ہے اس لیے اسی اجمال پر ہم اکتفا کرتے ہیں۔ جو لوگ کافر ہیں خواہ یہود و نصاریٰ ہوں خواہ ہندو و مشرک ہوں خواہ دوسری کسی قوم کے افراد ہوں اہل اسلام ان سے ملتے رہتے ہیں اور دلیل سے ان کو عاجز اور خاموش کردیتے ہیں اور ان میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جو قرآن اور اسلام کو حق جانتے ہیں پھر بھی نہ صرف یہ کہ خود اسلام قبول نہیں کرتے بلکہ دوسروں کو بھی اسلام قبول کرنے سے روکتے ہیں اور جو کوئی اسلام قبول کرلیتا ہے اس کو کفر میں واپس لانے کی کوشش کرتے ہیں اور اسلام کو حق جانتے ہوئے قومی یا مذہبی عصبیت کے باعث اسلام کے خلاف کتابیں لکھتے ہیں۔ ان کے احوال اوراقوال پر نظر کرو تو ان کا عناد اور ان کا حال معلوم کرنے کے بعد آیۃ (سَوَآءٌ عَلَیْھِمْ ءَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ ) کا مطلب بالکل واضح طور پر سمجھ میں آجاتا ہے۔
Top