Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 4
مِنْ قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ اَنْزَلَ الْفُرْقَانَ١ؕ۬ اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍ
مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے ھُدًى : ہدایت لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَاَنْزَلَ : اور اتارا الْفُرْقَانَ : فرقان اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْا : انکار کیا بِاٰيٰتِ : آیتوں سے اللّٰهِ : اللہ لَھُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب شَدِيْدٌ : سخت وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : زبردست ذُو انْتِقَامٍ : بدلہ لینے والا
اس کتاب سے پہلے لوگوں کی ہدایت کے واسطے نازل کیا تھا اور اسی نے حق و باطل میں امتیاز کرنے والی چیزیں نازل فرمائیں ۔ بیشک جو لوگ اللہ کی آیتوں کے منکر ہوئے ان کے لئے سخت عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا زبردست اور صاحب انتقام ہے2
2۔ اللہ تعالیٰ ایسا ہے اور اللہ تعالیٰ کی شان ایسی ہے کہ اس کے سوا کوئی دوسرا مستحق عبادت نہیں اور اس کے سوا کوئی دوسرا معبود بنانے کے قابل نہیں وہ زندہ ہے اس کو کبھی موت نہیں آئے گی وہ خود قائم رہنے والا اور تمام کائنات کا سنبھالنے والا ہے ۔ اسی نے اے پیغمبر ﷺ آپ پر یہ کتاب یعنی قرآن نازل کیا ہے جو حق و صداقت پر مشتمل اور ان کتب سماویہ کی جو اس قرآن سے پہلے نازل ہوئی تھیں ۔ تصدیق کرنے والا اور ان کو سچا کرنے والا اور اسی نے اے پیغمبر ﷺ اس قرآن سے پہلے لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے توریت اور انجیل کو نازل فرمایا تھا اور اسی نے فرقان یعنی حق و باطل میں فرق پیدا کرنے والی چیزیں نازل فرمائیں ۔ یقین جانو ! جو لوگ نشانات خداوندی اور آیات الٰہی کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں ان کو سخت سزا ملنے والی ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کمال قوت کا مالک اور محرموں سے بدلہ لینے والا ہے۔ ( تیسیر) الحی القیوم کو آیت الکرسی کی تفسیر میں بیان کرچکے ہیں ۔ حی وہ جو کبھی مرنے والا نہیں ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے ۔ قیوم خود قائم رہنے والا اور دوسروں کی حفاظت کرنے والا کائنات عالم کا سنھالنے والا اور ہر شئی کی تدبیر کرنے والا وغیرہ۔ حق کے معنی اصل تو مطابقت اور موافقت کے ہیں لیکن قرآن میں بہت سے معنی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ یہاں عدل ، صدق اور دلائل قطعیہ حقیقیہ کے معنی کئے گئے ہیں ۔ یعنی اس قرآن کے تمام احکام مبنی بر انصاف ہیں یا اس میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیں وہ مبنی بر صداقت ہیں یا اس کے تمام دلائل قطعی اور یقینی ہیں اور اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ کتاب اللہ کی جانب سے آئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ہے کیونکہ وہ ہمیشہ زندہ رہنے اور تمام کائنات عالم کو سنبھالنے والا ہے اور چونکہ یہ صفات اس کے علاو ہ کسی دوسرے میں نہیں ہیں اس لئے وہی مستحق عبادت بھی ہوسکتا ہے ۔ آیت کے پہلے ٹکڑے میں توحید کا دعویٰ ہے دوسرے حصہ میں اس کی دلیل ہے آگے نقل دلیل کا ذکر ہے کہ جس طرح قرآن توحید کا مدعی ہے اسی طرح دوسری کتب سم اور یہ میں بھی یہی مذکور ہے اور وہ کتابیں بھی ہماری جانب سے نازل کردہ ہیں وہ توریت ہو یا انجیل سب آسمانی کتابیں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی وحدانیت کی طرف دعوت دیتی ہیں تو جب نقلی دلیل سے بھی یہی ثابت ہے اور تمام آسمانی کتابوں نے بھی وہی بات کہی ہے جو قرآن کہتا ہے اس لئے قرآن کی اس بات کا انکار نہ کرو بلکہ شرک سے توبہ کر کے کتب سماویہ کی بتائی ہوئی توحید پر ایمان لائو ۔ قرآن کو تصدیق کرنے والا فرمایا یا تو اس لئے کہ اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور ان کو منزل من اللہ بتاتا ہے یا یہ مطلب ہے کہ قرآن چونکہ خود سابقہ کتبت سماویہ کی پیشین گوئی کے موافق ہے اس لئے ان کو سچا کرتا ہے کہ جیسا انہوں نے اپنے زمانے میں بتایا تھا ویسا ہی ہوا۔ حق و باطل میں فرق کرنے والی چیزیں دوسری کتب سماویہ ہیں یا معجزات ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فرقان سے زبور مراد ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خود قرآن مراد ہو اور قرآن کی عظمت شان کی وجہ سے اس کا مکرر ذکر فرمایا ہو۔ ( واللہ اعلم) دلائل عقلیہ اور نقلیہ کے بعد فرماتے ہیں کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے اس قدر صاف وصریح احکام کی خلاف ورزی کریں گے وہ سخت ترین سزا کے مستحق ہوں گے ۔ آخر میں فرمایا اللہ تعالیٰ کمال قوت اور بےپناہ طاقت کا مالک ہے مجرم اس کی گرفت سے بچ کر کہیں جا نہیں سکتا اور چونکہ وہ صاحب انتقام ہے اس لئے ہر مشرک سے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی مخلوق کو شریک کرتا ہے بدلہ لے گا یعنی بدلہ لے بھی سکتا ہے اور بدلہ لے گا بھی ۔ (تسہیل)
Top