Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 4
مِنْ قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ اَنْزَلَ الْفُرْقَانَ١ؕ۬ اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍ
مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے ھُدًى : ہدایت لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَاَنْزَلَ : اور اتارا الْفُرْقَانَ : فرقان اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْا : انکار کیا بِاٰيٰتِ : آیتوں سے اللّٰهِ : اللہ لَھُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب شَدِيْدٌ : سخت وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : زبردست ذُو انْتِقَامٍ : بدلہ لینے والا
(یعنی) لوگوں کی ہدایت کے لیے پہلے (تورات اور انجیل اتاری) اور (پھر قرآن جو حق اور باطل کو) الگ الگ کر دینے والا (ہے) نازل کیا جو لوگ خدا کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ان کو سخت عذاب ہوگا اور خدا زبردست (اور) بدلہ لینے والا ہے
مِنْ قَبْلُ : قرآن کو نازل کرنے سے پہلے تاکہ لوگ قرآن کو ماننے کے لیے تیار ہوجائیں۔ ھُدًى لِّلنَّاسِ : سب لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر۔ بعض علماء کے نزدیک الناس سے مراد ہیں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ کی امتیں۔ مگر اس قول کی کوئی وجہ نہیں (بلکہ الناس سے سب لوگ ہی مراد ہیں) کیونکہ تمام آسمانی کتابیں تمام انسانوں کو توحید الٰہی، تصدیق جمیع انبیاء اور مبدء و معاد پر ایمان لانے کی دعوت دے رہی ہیں۔ اللہ کے احکام و نواہی پر پابند رہنے کی ہدایت کر رہی ہیں اور تورات و انجیل و زبور نے محمد رسول اللہ کی بعثت کی اطلاع دی ہے۔ ایک شبہ قرآن مجید کے احکام سے گذشتہ آسمانی کتابوں کے بعض اعمال فرعیہ منسوخ ہوگئے ایسی حالت میں ان سب کو ہدایت کے لیے بھیجنے کا کیا معنی ؟ ازالہ اگر بعض اوقات میں سابق کتب کے بعض فرعی احکام منسوخ ہوگئے تو اس سے ان کتابوں کا سراسر ہدایت ہونا منسوخ نہیں ہوگیا جس طرح قرآن مجید کے بعض احکام دوسرے احکام سے منسوخ ہوگئے بات یہ ہے کہ نسخ کا معنی (یہ نہیں ہے کہ منسوخ حکم غلط تھا بلکہ مطلب) یہ ہے کہ منسوخ حکم ایک مقرر مدت کے لیے تھا اب نہیں رہا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ گذشتہ انبیاء کی شریعتیں ہمارے لیے لازم نہیں لیکن آیت مذکورہ اس قول کے خلاف ہمارے لیے شہادت دے رہی ہے۔ کہ (باستثناء بعض احکام منسوخہ) باقی احکام سابقہ ہمارے لیے بھی ضروری ہیں۔ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ : اور اس نے (حق و باطل میں) تفریق کردینے والی تمام آسمانی کتابیں نازل کیں۔ الفرقان میں لام استغراقی ہے اور توریت و انجیل و قرآن کے علاوہ جو آسمانی کتابیں ہیں ان سب کو یہ لفظ شامل ہے۔ یا الفرقان سے مراد بھی قرآن مجید ہے مدح اور اظہار عظمت وشرف کے لیے دوبارہ قرآن کا ذکر فرمایا کیونکہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ تو سب ہی کتابیں ہیں لیکن قرآن کی عبارت بھی معجزہ ہونے کی وجہ سے حق و باطل کے درمیان فرق قائم کرنے والی ہے۔ دوبارہ انزل کو ذکر کرنے کی دو وجوہ ہیں : (1) معطوف علیہ کا ذکر ذرا دور ہوگیا اس لیے اگر دوبارہ انزل کو ذکر نہ کیا جاتا تو ممکن تھا کہ کوئی الفرقان کو ہدًی پر معطوف سمجھ لیتا جو غلط تھا۔ (2) تکرار انزل سے اس طرف اشارہ ہے کہ قرآن مجید کا نزول دوبارہ ہوا ایک بار شب قدر میں (پورا قرآن) آسمان دنیا پر نازل ہوا پھر دوسری بار ٹکڑے ٹکڑے ضرورت کے موافق اس زمین پر اتارا گیا۔ سَدِی کا قول ہے کہ عبارت میں کچھ تقدیم و تاخیر ہے۔ اصل عبارت اس طرح تھی : و انزل التورات والانجیل من قبل والفرقان ھدی . اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ : جن لوگوں نے اللہ کی اتاری ہوئی آیات کا انکار کیا خواہ وہ کسی آسمانی کتاب کی ہوں ان کے لیے اس کفر کی وجہ سے عذاب شدید ہے۔ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ : اور اللہ غالب ہے عذاب دینے سے اس کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ذُو انْتِقَامٍ : انتقام والا ہے کوئی انتقام لینے والا اس (اللہ عزوجل) جیسا انتقام نہیں لے سکتا۔ نمقمۃ سزا اس سے فعل نقم آتا ہے۔ گذشتہ آیات میں اوّل اثبات توحید کیا پھر رسول کی سچائی کی طرف اشارہ کیا کہ قرآن مجید دوسری آسمانی کتابوں کے مطابق ہے اور (عبارت کے لحاظ) سے طاقت بشریہ سے خارج بھی ہے۔ آخر میں اس آیت میں انکار کرنے والوں کو عذاب کی تنبیہ فرما دی۔
Top