Tafseer-e-Baghwi - Al-Fath : 28
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ
هُوَ الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَرْسَلَ : بھیجا رَسُوْلَهٗ : اپنا رسول بِالْهُدٰى : ہدایت کے ساتھ وَدِيْنِ الْحَقِّ : اور دین حق لِيُظْهِرَهٗ : تاکہ اسے غالب کردے عَلَي الدِّيْنِ : دین پر كُلِّهٖ ۭ : تمام وَكَفٰى : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًا : گواہ
بیشک خدا نے اپنے پیغمبر کو سچا (اور) صحیح خواب دکھایا کہ تم خدا نے چاہا تو مسجد حرام میں اپنے سر منڈوا کر اور اپنے بال کتروا کر امن وامان سے داخل ہو گے اور کسی طرح کا خوف نہ کرو گے جو بات تم نہیں جانتے تھے اس کو معلوم تھی تو اس نے اس سے پہلے ہی جلد فتح کرا دی
حدیبیہ کی طرف نکلنے سے پہلے آپ ﷺ کا خواب 27 ۔ ” لقد صدق اللہ رسولہ الرویا بالحق لتد خلن المسجد الحرام ان شاء اللہ امینن “ نبی کریم ﷺ نے حدیبیہ کی طرف نکلنے سے پہلے مدینہ میں خواب میں دیکھا کہ آپ (علیہ السلام) اور آپ کے صحابہ کرام ؓ حرم میں امن کے ساتھ داخل ہورہے ہیں اور اپنا سر منڈوا رہے ہیں اور بال چھوٹے کر ارہے ہیں تو آپ (علیہ السلام) نے اس کی خبر اپنے صحابہ کرام ؓ کو دی تو وہ خوش ہوگئے اور خواہش کی اس سال مکہ میں داخل ہوں۔ پھر جب وہ واپس لوٹے اور مکہ میں داخل نہ ہوسکے تو یہ بات ان پر گراں گزری تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی۔ مجمع بن حارثہ انصاری سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حدیبیہ میں حاضر ہوئے۔ پھر جب ہم اس سے واپس لوٹے تو ان میں سے بعض نے کہا لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کو وحی کی گئی تھی پس ہم نکلے ڈرتے ہوئے تو ہم نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی سواری پر ٹھہرے ہوئے پایا کراع الغمیم جگہ پر۔ پس جب لوگ جمع ہوگئے تو آپ ﷺ نے پڑھا ” انا فتحنا لک فتحا مبینا “ تو حضرت عمر ؓ نے کہا ، کیا یہ فتح ہے یارسول اللہ ؟ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ہاں اس ذات کی قسم میری جان جس کے قبضہ میں ہے۔ پس اس میں دلیل ہے کہ فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے اور خواب کی تعبیر آئندہ سال پوری ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’ لقد صدق اللہ رسولہ الرویا بالحق “ خبر دی کہ جو خواب آپ (علیہ السلام) نے دیکھا حدیبیہ نکلنے میں کہ آپ (علیہ السلام) اور آپ (علیہ السلام) کے صحابہ کرام ؓ مسجد حرام میں داخل ہورہے ہیں، وہ سچ اور حق ہے۔ اس کا قول ” لتدخلن “ یعنی اور فرمایا کہ تم ضرور داخل ہوگے اور ابن کیسان (رح) فرماتے ہیں کہ ” لتدخلن “ رسول اللہ ﷺ کا قول ہے جو آپ (علیہ السلام) نے اپنے خواب کو بیان کرتے ہوئے اپنے صحابہ کو ارشاد فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ آپ (علیہ السلام) نے یہ کہا تھا اور اللہ تعالیٰ نے آپ (علیہ السلام) کو مسجد حرام میں داخل ہونے کی خبر دی تھی ۔ اس کے بعد انشاء اللہ کہا ہے، اللہ تعالیٰ کے آداب کو اپنانے کی وجہ سے کیوں کہ آپ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے کہا ” ولا تقولن لشیء انی فاعل ذلک غدا الا ان یشاء اللہ “ اور ابو عبید (رح) فرماتے ہیں کہ ” ان “ اذ کے معنی میں ہے مجاز عبادت ہے اذشاء اللہ ۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ” ان کنتم مومنین “ ہے اور حسین بن فضل (رح) فرماتے ہیں کہ یہ جائز ہے کہ استثناء (ان شاء اللہ) دخول سے ہو۔ اس لئے کہ خواب اور اس کی تصدیق میں ایک سال کا وقفہ تھا اور اس ایک سال میں کئی لوگ مرگئے۔ پس آیت کا مجاز یہ ہے۔ ” لتد خلن المسجد الحرام کلکم ان شاء اللہ “ اور کہا گیا ہے کہ استثناء امر پر واقع ہے نہ کو دخول پر اس لئے کہ دخول میں تو کوئی شک نہیں ہے جیسے نبی کریم ﷺ قبرستان داخل ہوتے ہوئے فرماتے تھے ” وانا ان شاء اللہ بکم لا حقون “ پس استثناء لا الہ الا اللہ والوں کے ساتھ لاحق ہونے کی طرف لوٹ رہا ہے نہ کہ موت کی طرف۔ ” محلقین رئوسکم “ مکمل سر کو ” ومقصرین “ اس کے تھوڑے سے بال کاٹ کر۔ ” لا تخافون فعلم مالم تعلمرا “ کہ صلح اور دیر سے داخل ہونے میں ہی بہتری ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا قول ” ولولا رجال مومنون ونساء مومنات “ ہے۔ ” فجعل من دون ذلک “ تمہارے مسجدحرام میں داخل ہونے سے پہلے۔ ” فتحاقریبا “ اور یہ اکثر حضرات کے نزدیک صلح حدیبیہ ہے اور کہا گیا ہے کہ فتح خیبر ہے۔
Top