Mazhar-ul-Quran - Al-Fath : 28
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ
هُوَ الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَرْسَلَ : بھیجا رَسُوْلَهٗ : اپنا رسول بِالْهُدٰى : ہدایت کے ساتھ وَدِيْنِ الْحَقِّ : اور دین حق لِيُظْهِرَهٗ : تاکہ اسے غالب کردے عَلَي الدِّيْنِ : دین پر كُلِّهٖ ۭ : تمام وَكَفٰى : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًا : گواہ
وہی ہے کہ جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کرے، اور اللہ کی شہادت (محمد کی رسالت پر) کافی ہے1 ۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان کے خصائص۔ (ف 1) اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی رسالت کو اپنی گواہی سے ثابت کیا، ان آیتوں میں محمد ﷺ کا نام بھی اللہ نے لوگوں کو بتلایا تاکہ معلوم ہوجائے کہ جن رسول کی رسالت کو اللہ نے اپنی گواہی سے ثابت کیا ہے ان کا نام محمد ﷺ ہے آگے اللہ نے اپنے رسول کے صحابیوں کے اوصاف بیان فرمائے کہ وہ آپس میں تو بڑی نرم دلی سے رہتے ہیں اور ایک دوسرے پر مہربانی و محبت کرنے والے ایسی کہ جیسی باپ بیٹے میں ہو، اور یہ محبت اس حد تک پہنچ گئی کہ جب ایک مومن دوسرے کو دیکھے تو فرط محبت سے مصافحہ ومعانقہ کرے اور جوش اسلام کے سبب سے منکر شریعت لوگوں کے ساتھ زور آوری سے پیش آتے ہیں جیسا کہ شیر شکار پر۔ اور صحابہ کا تشدد کفار کے ساتھ اس حد پر تھا کہ وہ لحاظ رکھتے تھے کہ ان کا بدن کسی کافر کے بدن سے نہ چھوجائے اور ان کے کپڑے سے کسی کافر کا کپڑانہ لگے ۔ مدارک) اور اللہ کی عبادت میں لگے رہتے اور کثرت سے نمازیں پڑھتے اور ان کی وہ عبادت عقبی کے اجر اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی نیت سے ہوتی ہے دنیا کے دکھاوے کا اس میں کچھ دخل نہیں ہوتا، کثرت عبادت سے ان کے چہروں پر نور برستا ہے اور یہ علامت وہ نور ہے جو روز قیامت ان کے چہروں سے تاباں ہوگا، اس سے پہچانے جائیں گے کہ انہوں نے دنیا میں اللہ کے لیے بہت سجدے کیے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان چہروں میں سجدہ کا مقام ماہ شب چہار دہم چودہویں چاند کی طرح چمکتا دمکتا ہوگا، عطاء کا قول ہے کہ شب کی دراز نمازوں سے ان کے چہروں پر نورنمایاں ہوتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ جو رات کی نماز کی کثرت کرتا ہے صبح کو اس کا چہرہ خوبصورت ہوجاتا ہے۔ حضور کی امت کے اوصاف کتب سابقہ میں۔ علاوہ قرآن کے ان لوگوں کے اوصاف تورات اور انجیل میں بھی بیان کیے گئے ہیں سورة اعراف میں گذرچکا ہے کہ جب موسیٰ کو تورات ملی اس میں موسیٰ نے بہت سے اوصاف امت محمدیہ کے لکھے ہوئے پائے متی اور لوقا کی انجیل میں اس کھیتی کی مثال کا اسی طرح ذکر ہے کہ جس طرح اس آیت میں ہے حاصل مطلب اس مثال کا یہ ہے کہ جس طرح کھیتی کے درخت شروع میں کمزور ہوتے ہیں پھر زور پکڑتے ہیں یہی مثال ابتدائے اسلام اور اس کی ترقی کی بیان فرمائی گئی کہ نبی ﷺ تنہا اٹھے پھر اللہ نے آپ کو آپ کے مخلصین اصحاب سے تقویت دی ۔ قتادہ نے کہا کہ نبی ﷺ کے اصحاب کی مثال انجیل میں یہ لکھی ہوئی ہے کہ ایک قوم کھیتی کی طرح پیدا ہوگی وہ نیکیوں کا حکم کریں گے بدیوں سے منع کریں گے کہا گیا ہے کہ کھیتی حضور ہیں اور اس کی شاخیں اصحاب اور مومنین ہیں فرمایا کہ یہ کافر اسلامی کھیتی کی یہ تازگی اور رونق و بہار شان و شوکت دیکھ کر تعجب کرتے ہیں کہ کتنی جلدی بڑھا اور کیسامضبوط ہوگیا اس لیے کافروں کو غیظ میں ڈالے اور اپنی شان دکھلاکران کے دلوں کو جلائے، بعض علماء نے یہ نکالا کہ صحابہ سے جلنے والا کافر ہے ، اللہ نے ان کو جو مسلمان ہوئے رسول قرآن کو سچے دل سے مانا، اور اعمال صالحہ خالصا اللہ کے لیے مغفرت ذنوب کا وعدہ قطعی کیا ہے اور اجرعظیم کا عہد کیا وہ ضرور وعدہ عہد کو پورا کرے گا۔
Top