Tafseer-e-Madani - Al-Fath : 28
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ
هُوَ الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَرْسَلَ : بھیجا رَسُوْلَهٗ : اپنا رسول بِالْهُدٰى : ہدایت کے ساتھ وَدِيْنِ الْحَقِّ : اور دین حق لِيُظْهِرَهٗ : تاکہ اسے غالب کردے عَلَي الدِّيْنِ : دین پر كُلِّهٖ ۭ : تمام وَكَفٰى : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًا : گواہ
وہ (وحدہ لاشریک) وہی ہے جس نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت (کی دولت) اور دین حق (کی نعمت) کے ساتھ تاکہ وہ غالب کر دے اس (دین حق) کو تمام دینوں پر اور کافی ہے اللہ گواہی دینے کو (حق اور حقیقت کے لئے)1
[ 73] نعمت دین و ہدایت کی نوازش کا ذکر وبیان : سو اس سے نعمت دین اور محور حق سے سرفرازی کی نعمت کا ذکر وبیان فرمایا گیا ہے، اور اسی کے ضمن میں فتح مکہ کی بشارت سے بھی سرفراز فرمایا گیا ہے چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ جس کی لامحدود حکمت وقدرت اور بےانتہا علم و فضل کے کچھ مظاہر تم دیکھ اور سن چکے ہو، اسی نے اپنے پیغمبر کو ہدایت کاملہ اور دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، تاکہ تاقیام قیامت دنیا کے لئے راہ حق و ہدایت کو، تمام و کمال واضح کردیا جائے، سو اب نور ہدایت کاملہ اور دین حق وہی ہے جو اس نبیئِ برحق کے ذریعے دنیا کو عطا فرمایا گیا ہے، اس کے سوا اور کہیں سے بھی حق و ہدایت کی روشنی نہیں نل سکتی، پس جو لوگ اس دین اور اس پیغمبر پر ایمان لانے کے شرف سے محروم ہیں، وہ سراسر اندھیروں میں ہیں، خواہ وہ مادی ترقی کے اعتبار سے کتنے ہی آگے کیوں نہ نکل گئے ہوں، بہرکیف اس ارشاد میں فتح مکہ کی بشارت کو دوسرے الفاظ میں ذکر فرمایا گیا ہے اس لیے کہ اسی کی فتح پر پورے ملک کے اندر دین حق کے غلبے کا مدارو انحصار تھا۔ چناچہ اس فتح کے حاصل ہوجانے کے بعد وہ تمام ادیان جو وعرب میں موجود تھے سب کے سب اسلام کے آگے سرنگوں ہوگئے۔ اور تھوڑی ہی مدت کے اندر وہ وقت آگیا کہ جب نبی ﷺ نے صاف اور صریح طور پر یہ اعلان فرما دیا کہ اب اس ملک میں دو دین جمع نہیں ہوسکتے۔ یعنی اب اس میں دین حق اسلام ہی کا غلبہ اور اسی کی حکمرانی ہوگی کہ حق بہرحال یہی اور صرف یہی ہے اور غلبہ اسی کا حق اور اسی کا مقدر ہے۔ والحمدللّٰہ جل وعلا بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وھو العزیز الوھاب۔ [ 74] غلبہ دین حق ہی کی شان اور اسی کا مقدر ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ اللہ جس کی یہ اور یہ شانیں بیان ہوئیں اسی نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ وہ غالب کر دے اس کو تمام دینوں پر۔ چناچہ اس سے پہلے کے تمام ادیان منسوخ کر دئیے گئے، اور جہاں بھی کہیں کسی عقیدہ یا عمل کا فساد تھا، اسے واضح کردیا گیا اور اب قیامت تک یہی دین سربلند رہے گا، حجت و برھان کے لحاظ سے تو غلبہ ہے ہی اسی کے لئے، کہ دین حق بہرحال یہی اور صرف یہی ہے، مگر سیاسی اور ظاہری غلبہ بھی اسی کو نصیب ہوگا، جب کہ اس کے حاملین اور پیروکاروں [ مسلمانوں ] کے اندر وہ مطلوبہ صفات پائی جاتی ہوں گی، جن کا اس کام کیلئے پایا جانا ضروری ہے۔ چناچہ اس کا سب سے پہلا ظہور مکہ مکرمہ میں ہوا، جبکہ خود رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں صحابہء کرام علیہم الرحمۃ والرضوان۔ کی قدسی صفت جماعت کے ہاتھوں مکہ مکرمہ فتح ہوا اور اس مرکز توحید کو بتوں اور شرک کی نجاست سے پاک کردیا گیا، غلبہ و حق تمام و کمال واضح ہوگیا، اور حضور ﷺ نے صاف اور صریح طور پر ارشاد فرمایا کہ " لا یمحع فیہ دینان " یعنی اب اس میں دو دین جمع نہیں ہوسکیں گے بلکہ ہمیشہ دین حق اسلام ہی کا غلبہ رہے گا چناچہ آج تک یہی ہے کہ اس شبہ جزیرہ میں دین غالب اسلام ہی ہے اور انشاء اللہ قیامت تک ایسے ہی رہے گا اور اس کے بعد اس حقیقت کا ظہور خلافت راشدہ کے دور خیر و برکت میں ہوا۔ اور پھر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ایک اہم اور واضح حقیقت ہے۔ آج دنیا میں کوئی خطہ ایسا نہیں، جہاں اس دین حق کی برکتیں نہ پہنچی ہوئی ہوں، اور اس کا آوازہ بلند نہ ہو رہا ہو، اور آج جب کہ راقم آثم یہ سطور تحریر کر ریا ہے واشنگٹن امریکہ میں دس لاکھ کالے لوگوں نے اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہو کر اسلام کے حق میں امریکہ کی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ کیا ہے، جس کا غلغہ آج ساری دنیا میں پایا جاتا ہے۔ فالحمد للّٰہ رب العالمین۔ یہاں پر اس ارشاد ربانی میں جیسا کہ اوپر والے حاشیے میں قدرے تفصیل سے گزرا فتح مکہ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ دین حق کے غلبہ کیلئے یہ اہم اساس و بنیاد ہے، چناچہ فتح مکہ کے بعد پورے ملک پر یہی دین حق غالب ہو کر رہا اور باقی سب دین اس کے آگے سرنگوں ہوگئے، اور فوج در فوج اس دین حق کے ذخیرہء قدس میں داخل ہونے لگے۔ فالحمد للّٰہ الذی بیدہٖ زمام کل شیئ، فعلیہ نتوکل وبہ نستعین، وھو الھادی الی سواء السبیل، سبحانہ و تعالیٰ ، اللّٰہم وفقنا لما تحب وترضی، من القول والعمل، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وھو العزیز الوھاب ملہم الصدق والصواب، والھادی الی الحق والرشاد، جل جلالہٗ وعم نوالہٗ ، سبحانہٗ وتعالیٰ ۔ [ 75] اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی و وافی، سبحانہ وتعالیٰ جل وعلا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کافی ہے اللہ پاک گواہی دینے کے لئے، ایسا کافی کہ اس کے بعد کسی اور کی گواہی کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ اور وہ گواہی دے رہا ہے کہ حضرت محمد ﷺ اس کے سچے رسول ہیں، اور وہ دین جو ان پر نازل فرمایا گیا وہ دین حق ہے، اور اسی نے ظاہر اور غالب ہو کر رہنا ہے، تو اب اگر یہ کفار نہیں مانتے اور یہ صلح نامے پر " بسم اللّٰہ " اور " محمد رسول اللّٰہ " لکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں، جیسا کہ ان کے نمائندے سہیل بن عمرو نے اس موقع پر کیا تھا، تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ حق تو بہرحال حق ہی ہے اور اللہ پاک کی گواہی بہرحال کافی ہے، پس منکرین کے انکار اور کفر و تکذیب سے نہ تو پیغمبر کو دل برداشتہ ہونے کی ضرورت ہے، اور نہ مسلمانوں کو، سو اس میں اللہ کے رسول ﷺ مسلمانوں کے لئے تسلی بھی ہے، اور اس ضمن میں فتح مکہ کی بشارت بھی۔ فالحمدللّٰہ رب العالمین۔ بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ دین حق یہی دین اسلام ہے جس کو اب رسول ہدی لے کر مبعوث ہوئے ہیں اور ان غلبہ بہرحال اسی کا ہے۔ یہ قدرت کا اٹل اور واضح فیصلہ ہے جس کو نہ یہود و نصاریٰ میں سے کوئی بدل سکتا ہے اور نہ مشرکین عرب اس کا راستہ روک سکتے ہیں۔ اسی مضمون کو پ 10 سورة توبہ کی آیت نمبر 32 اور 33 میں بھی واضح طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے { یریدون ان یطفؤا نور اللّٰہ بافواھھم ویاتی اللّٰہ الآ ان یتیم نورہ ولوکرہ الکفرون۔ ھو الذی ارسل رسولہٗ بالھدی ودین الحق لیظھرہٗ علی الدین کلہٖ لا ولوکرہ المشرکون۔ } اللہ تعالیٰ اس کو ساری دنیا پر غالب فرمائے اور کفر و باطل کو، اور اس کے علمبرداروں کو اس کے زید نگیں فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین واکرم الاکرمین، فالحمدللہ الذی بیدہ زمام کل شی وعلیہ نتوکل وبہ نستعین، وھو الھادی الی سوء السبیل، اللہم وفقنا لما تحب وترضی من القول والعمل بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، سبحانہ و تعالیٰ ،
Top