Tafseer-e-Mazhari - Al-Fath : 28
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ
هُوَ الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَرْسَلَ : بھیجا رَسُوْلَهٗ : اپنا رسول بِالْهُدٰى : ہدایت کے ساتھ وَدِيْنِ الْحَقِّ : اور دین حق لِيُظْهِرَهٗ : تاکہ اسے غالب کردے عَلَي الدِّيْنِ : دین پر كُلِّهٖ ۭ : تمام وَكَفٰى : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًا : گواہ
وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت (کی کتاب) اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے۔ اور حق ظاہر کرنے کے لئے خدا ہی کافی ہے
ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ وکفی باللہ شھیدًا وہ اللہ ایسا ہے کہ اس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام مذاہب پر غالب کر دے۔ اور اللہ کافی گواہ ہے۔ بیہقی وغیرہ نے بروایت مجاہد مذکورۂ بالا سبب نزول بیان کیا ہے۔ لَقَدْ صَدَقَ صدق ماضی کا صیغہ ہے ‘ لیکن مراد ہے مستقبل اور چونکہ آنے والا واقعہ یقینی تھا ‘ اسلئے بصیغۂ ماضی اس کا ذکر کیا (گویا ایسا ہو ہی چکا) ۔ جوہری نے لکھا ہے : صدق و کذب (سچائی اور جھوٹ) قول میں بھی ہوتا ہے اور فعل میں بھی۔ اگر کوئی خبر واقع کے مطابق ہو تو اس کو صدق کہا جاتا ہے ‘ ورنہ کذب کہا جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی فعل اگر واقع میں ہو تو اس کو صدق کہتے ہیں ‘ ورنہ کذب۔ ایک آیت میں آیا ہے : رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہِ وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے ہوئے وعدے کو پورا کردیا۔ آیت مذکورۂ بالا میں بھی صدق فعل ہی مراد ہے ‘ یعنی اللہ نے اپنے رسول ﷺ کے خواب کو پورا کردیا ‘ سچا کر دکھایا۔ اس صورت میں الرؤیا ۔ رسولہٗ سے بدل اشتمال ہوگا : سچ کر دکھایا خواب کو ‘ یعنی اپنے رسول کو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رسولہٗ اصل میں لِرَسُوْلِہٖ تھا ‘ لام حرف جر کو حذف کر کے رسولہٖ کو رسولہٗ کردیا۔ جوہری نے لکھا ہے کہ صدق کے کبھی دو مفعول آتے ہیں جیسے لَقَدْ صَدَقَکُمْ اللّٰہُ وَعْدَہٗ میں (کُمْ پہلا مفعول ہے اور وَعْدَہٗ دوسرا مفعول ہے) اس صورت میں رسولہٗ پہلا اور الرؤیا دوسرا مفعول ہوگا۔ بیضاوی نے لکھا ہے : آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو انکے خواب میں سچا کردیا۔ صاحب مدارک نے لکھا ہے : حرف جر کو حذف کرنے کے بعد مجرور کو مفعول بنا دیا گیا۔ بِالْحَقِّ گہری حکمت کے ساتھ۔ گہری حکمت یہ تھی کہ اس طرح مضبوط ‘ راسخ ایمان والوں کی کمزور ‘ متزلزل ایمان والوں سے تمییز ہوگئی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بالحق میں بِ قسم کیلئے ہو : قسم ہے حق کی۔ حق اللہ کا نام بھی ہے اور باطل کے مخالف کو بھی حق کہتے ہیں (اس جگہ دونوں معنی ہوسکتے ہیں) ۔ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَالخ ابن کیسان نے کہا : یہ رسول اللہ ﷺ کا قول تھا جس کو اللہ نے نقل کیا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنا خواب ان الفاظ میں بیان فرمایا تھا کہ تم لوگ کعبہ میں داخل ہوگئے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ خواب کے فرشتہ کا قول ہو جو اللہ نے نقل کردیا ہے۔ اِنْ اگرچہ شک کے موقع پر استعمال ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کو مکہ میں داخل ہونے کا یقن تھا ‘ شک نہ تھا ‘ لیکن اس جگہ بطور ادب اس لفظ کا استعمال کیا گیا ہے ‘ اسی ادب کو ملحوظ رکھنے کا دوسری آیت میں حکم دیا ہے اور فرمایا ہے : وَلاَ تَّقُوْلَنَّ لِشَیْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا اِلَّآ اَنْ یَّشَآء اللّٰہُ ۔ ابو عبیدہ نے کہا : اِنْ (اس جگہ) شرطیہ نہیں ہے بلکہ اِذْ (ظرف زمان) کے معنی میں بطور مجاز استعمال کیا گیا ہے (جس وقت اللہ چاہے گا) ۔ حسین بن فضل نے کہا : استثناء (یعنی اِنْ شرطیہ کا استعمال) اپنے اصلی معنی میں ہو (یعنی شک کیلئے ہی ہو) کیونکہ خواب کا فعل ظہور ایک سال بعد ہوا اور اسی سال کے اندر رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ تم میں سے ہر شخص انشاء اللہ مسجد حرام میں داخل ہوگا۔ مُحَلِّقِیْنَ رُءُوْسَکُمْ وَمُقَصِّرِیْنَ یعنی تم میں سے کچھ لوگ پورا سر منڈوائیں گے اور کچھ لوگ سر کے کچھ حصے کے بال چھوٹے کرائیں گے۔ لاَ تَخَافُوْنَ یہ اٰمِنِیْنَ کی تاکید ہے ‘ یا مستقل جملہ (بطور پیشین گوئی) ہے ‘ یعنی اس کے بعد تمہیں کبھی کچھ خوف نہ ہوگا۔ فَعَلِمَ یعنی اللہ تاخیر فتح کی مصلحت کو جانتا تھا ‘ تم نہیں جانتے تھے۔ فَتْحًا قَرِیْبًا یعنی فتح خیبر یا صلح حدیبیہ۔ دِیْنِ الْحَقِّ دین اسلام۔ عَلَی الدِّیْنَ کُلِّہٖ یعنی تمام مذاہب پر غالب کرنے کیلئے۔ جو مذہب (گذشتہ زمانہ میں) حق تھے (یعنی اللہ کی طرف سے آئے تھے) ان کو منسوخ کردینے کیلئے اور جو دین باطل تھے ‘ ان کے غلط ہونے کو دلائل وبراہین سے ثابت کرنے کیلئے ‘ یا کبھی نہ کبھی کسی زمانہ میں مسلمانوں کو ان پر غلبہ عطا کرنے کیلئے۔ وَکَفٰی باللّٰہِ شَھِیْدًا یعنی فتح مکہ کے وعدہ کے حق ہونے پر ‘ یا رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر اللہ کی شہادت کافی ہے۔ یہ مسجد حرام میں داخلہ کے وعدے کی تاکید ہے۔
Top