Tafheem-ul-Quran - Al-Fath : 28
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ
هُوَ الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَرْسَلَ : بھیجا رَسُوْلَهٗ : اپنا رسول بِالْهُدٰى : ہدایت کے ساتھ وَدِيْنِ الْحَقِّ : اور دین حق لِيُظْهِرَهٗ : تاکہ اسے غالب کردے عَلَي الدِّيْنِ : دین پر كُلِّهٖ ۭ : تمام وَكَفٰى : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًا : گواہ
وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجاہے تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کر دے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔51
سورة الْفَتْح 51 اس مقام پر یہ بات ارشاد فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ حدیبیہ میں جب معاہدہ صلح لکھا جانے لگا تھا اس وقت کفار مکہ نے حضور ﷺ کے اسم گرامی کے ساتھ رسول اللہ کے الفاظ لکھنے پر اعتراض کیا تھا اور ان کے اصرار پر حضور ﷺ نے خود معاہدے کی تحریر میں سے یہ الفاظ مٹا دیے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ہمارے رسول کا رسول ہونا تو ایک حقیقت ہے جس میں کسی کے ماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اس کو اگر کچھ لوگ نہیں مانتے تو نہ مانیں۔ اس کے حقیقت ہونے پر صرف ہماری شہادت کافی ہے۔ ان کے انکار کردینے سے یہ حقیقت بدل نہیں جائے گی، بلکہ ان کے علی الرَّغم اس ہدایت اور اس دین حق کو پوری جنس دین پر غلبہ حاصل ہو کر رہے گا جسے لے کر یہ رسول ہماری طرف سے آیا ہے، خواہ یہ منکرین سے روکنے کے لیے کتنا ہی زور مار کر دیکھ لیں۔ " پوری جنس دین " سے مراد زندگی کے وہ تمام نظام ہیں جو " دین " کی نوعیت رکھتے ہیں۔ اس کی مفصل تشریح ہم اس سے پہلے تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورة زمر، حاشیہ 3، اور تفسیر سورة شوری حاشیہ 20 میں کرچکے ہیں۔ یہاں جو بات اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں ارشاد فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ محمد ﷺ کی بعثت کا مقصد محض اس دین کی تبلیغ نہ تھا بلکہ اسے دین کی نوعیت رکھنے والے تمام نظامات زندگی پر غالب کردینا تھا۔ دوسرے الفاظ میں آپ یہ دین اس لیے نہیں لائے تھے کہ زندگی کے سارے شعبوں پر غلبہ تو ہو کسی دین باطل کا اور اس کی قہر مانی کے تحت یہ دین ان حدود کے اندر سکڑ کر رہے جن میں دین غالب اسے جینے کی اجازت دے دے۔ بلکہ اسے آپ اس لیے لائے تھے کہ زندگی کا غالب دین یہ ہو اور دوسرا کوئی دین اگر جیے بھی تو ان حدود کے اندر جیے جن میں یہ اسے جینے کی اجازت دے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہیم القران، جلد چہارم، تفسیر سورة زمر، حاشیہ 48
Top