Fi-Zilal-al-Quran - Al-Ghaashiya : 28
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ
هُوَ الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَرْسَلَ : بھیجا رَسُوْلَهٗ : اپنا رسول بِالْهُدٰى : ہدایت کے ساتھ وَدِيْنِ الْحَقِّ : اور دین حق لِيُظْهِرَهٗ : تاکہ اسے غالب کردے عَلَي الدِّيْنِ : دین پر كُلِّهٖ ۭ : تمام وَكَفٰى : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًا : گواہ
وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول ﷺ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ اس کو پوری جنس دین پر غالب کر دے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔
یوں آپ ﷺ کا خواب سچا ہوئی۔ اللہ کا وعدہ پورا ہوا اور اگلے سال فتح مکہ بھی ہوگیا اور اللہ کا دین مکہ پر بھی غالب ہوگیا۔ اور اس کے بعد پورے جزیرہ العرب میں غالب ہوگیا اور اب آخری خوشخبری یوں پوری ہوئی : ھو الذی ارسل ۔۔۔۔۔ باللہ شھیدا (48 : 28) “ وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول ﷺ کو ہدایت اور دین حق کے سا تھ بھیجا ہے تا کہ اس کو پوری جنس دین پر غالب کر دے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے ”۔ دین اسلام صرف جزیرۃ العرب ہی میں غالب نہ ہوا بلکہ پوری دنیا میں غالب ہوا۔ اور یہ عمل صرف نصف صدی کے اندر اندر پورا ہوگیا۔ یہ دین کسریٰ کی پوری مملکت پر غالب ہوگیا اور قیصر کی مملکت کے بھی بڑے حصے کو فتح کرلیا۔ ہند اور چین میں بھی غالب ہوگیا ۔ پھر جنوبی ایشیاں اور ملایا میں غالب ہوا اور انڈونیشیا میں غالب ہوا اور یہی دنیا تھی جو اس دور میں آباد تھی۔ یعنی چھٹی صدی اور ساتویں صدی عیسوی میں۔ لیکن اللہ کا دین آج تک تمام ادیان پر غالب ہے۔ اگرچہ دنیا کے ان حصوں میں جہاں مسلمانوں کو سیاسی غلبہ حاصل تھا ، مسلمان پسپا ہوگئے۔ خصوصاً یورپ اور بحر ابیض کے جزائر سے۔ اور مسلمان مشرق و مغرب میں اٹھنے والی نئی قوتوں کے مقابلے میں پسپا ہوگئے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ دین حق یعنی دین اسلام بحیثیت دین آج بھی تمام ادیان پر غالب ہے۔ یہ دین اپنی ذات ، اپنی ماہیت اور اپنی ذاتی صلاحیتوں اور خوبیوں کی وجہ اپنے ماننے والوں کی مدافعت بغیر تلوار کے کرتا ہے اور بغیر کسی سیاسی قوت کی پشت پناہی کے یہ دن آگے بڑھ رہا ہے ۔ کیونکہ اس دین کی فطرت میں نوامیس فطرت کے ساتھ ہم رنگی ہے اور قوانین فطرت اس کائنات میں اللہ کے ودیعت کردہ حقیقی اصول ہیں۔ پھر اس دین میں عقل ، روح اور جسم سب کی ضروریات کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ انسانی تعمیر و ترقی ، سوسائٹی کی ضرورت ، فرد کی ضروریات سب کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔ ایک جھونپڑی کے باشندے اور ایک محل اور کوٹھی کے باشندے سب کی ضرورت کو اس دین میں پورا کیا گیا ہے۔ دوسرے مذاہب کے پیرو کار اگر اس دین پر تعصب سے پاک نظروں کے ساتھ غور کریں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ یہ بہت بڑی قوت والا دین ہے۔ اور یہ آج بھی انسانیت کی صحیح رہنمائی کرسکتا ہے اور اس ترقی یافتہ دور میں کسی بھی ترقی سوسائٹی کی ضروریات کو یہ دین نہایت ہی استقامت کے ساتھ پوری کرسکتا ہے۔ وکفی باللہ شھیدا (48 : 28) ” اور اس پر اللہ کی گواہی کافی ہے “۔ غرض بعث نبی کے بعد ایک صدی بھی نہ گزری تھی کہ اللہ کا یہ وعدہ سیاسی لحاظ سے سچا ثابت ہوگیا اور یہ دین تمام دنیا پر غالب ہوگیا اور اپنی ذات کے اعتبار سے یہ اب بھی تمام ادیان پر غالب ہے۔ بلکہ تمام دوسرے ادیان دنیا سے ختم ہوگئے اور یہی ایک دین ہے جو اپنی ذاتی صلاحیت کی وجہ سے قائم و دائم ہے اور اپنی عملیت کے لحاظ سے یہ ہر وقت قابل عمل ہے۔ آج صرف اس دین کے ماننے والے اس حقیقت کے ادراک سے محروم ہیں کہ یہ دین اسلام اپنی ذات کے اعتبار سے غالب ہے۔ جبکہ اس دین کے دشمن اس بات کو جانتے ہیں اور اس سے بہت ڈرتے ہیں اور اپنی سیاسی پالیسی میں دین اسلام کی اس خطرناکی کو پیش نظر رکھتے ہیں۔
Top