Tafseer-e-Baghwi - Al-Maaida : 90
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والو اِنَّمَا الْخَمْرُ : اس کے سوا نہیں کہ شراب وَالْمَيْسِرُ : اور جوا وَالْاَنْصَابُ : اور بت وَالْاَزْلَامُ : اور پانسے رِجْسٌ : ناپاک مِّنْ : سے عَمَلِ : کام الشَّيْطٰنِ : شیطان فَاجْتَنِبُوْهُ : سو ان سے بچو لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تُفْلِحُوْنَ : تم فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! شراب اور جوا اور بت اور پا سے (یہ سب) ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں۔ سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ۔
آیت نمبر 91, 90 تفسیر : (یایھا الذین امنوا انما الخمر والمیسر والا نصاب اے ایمان والو ! یہ جو ہے شراب اور جوا اور بت) یعنی بت۔ ان بتوں کو انصاب اس وجہ سے کہتے ہیں کہ مشرکین ان کو گاڑھتے تھے۔ اس کا مفرونصب ہے نون کے زبر اور صاد کے سکون کے ساتھ اور نصب نون کے پیش کے ساتھ خفیف اور ثقیل ( والا زلام اور پانسے) یعنی وہ تیر جس کے ذریعے تقسیم کرتے تھے ( رجس من عمل الشیطان سب گندے کام ہیں شیطان کے مزین کردہ ہیں ، فاجتنبوہ لعلکم تفلحون سوا ان سے بچتے رہو تاکہ تم نجات پائو) (انما یرید الشیطن ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمر والمیسر شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ ڈالے تم میں دشمنی اور بیر بذریعہ شراب اور جوئے کے) شراب میں دشمنی یہ ہے کہ شرابی لوگ جب نشہ میں ہوتے ہیں تو اول فول بکتے ہیں اور باہم جھگڑتے ہیں جیسا کہ ان انصاری ؓ نے کیا جنہوں نے اونٹ کے جبڑے سے سعد بن ابی وقاص ؓ کا سر پھاڑا تھا اور بہرحال جوئے میں دشمنی تو قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ آدمی گھر والوں اور مال پر جوا کھیلتا تھا پھر جب ہار جاتا تو نہ مال رہتا اور نہ گھر والے تو غمزدہ رہتا ( ویصد کم عن ذکر اللہ وعن الصلوٰۃ اور روکے تم کو اللہ کی یاد سے اور نماز سے ) اور یہ اس طرح کہ جو شخص شراب پینے اور جوا کھیلتے میں مشغول ہوتا ہے تو یہ اس کو اللہ کی یاد سے غافل کردیتی ہیں اور نماز میں تشویش اور غلطی ہوتی ہے جیسا کہ عبدالرحمن بن عوف ؓ کے مہمانوں نے کیا اور ایک آدمی آگے ہوا تاکہ مغرب کی نماز پڑھائے ، شراب پینے کے بعد تو سورة الکافرون پڑھی، لا کے بغیر صیغے پڑھے یعنی ” ابعد ماتعبدون …الخ “ ( فھل انتم منتھون سو اب بھی تم باز آئو گے ؟ ) یعنی باز آجائو لفظ سوال کے ہیں لیکن معنی حکم کا ہے جیسے اللہ کا فرمان ” فھل انتم شاکرون “ ہے۔
Top