Baseerat-e-Quran - Ar-Ra'd : 19
اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰى١ؕ اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِۙ
اَفَمَنْ : پس کیا جو يَّعْلَمُ : جانتا ہے اَنَّمَآ : کہ جو اُنْزِلَ : اتارا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف مِنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب الْحَقُّ : حق كَمَنْ : اس جیسا هُوَ : وہ اَعْمٰى : اندھا اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يَتَذَكَّرُ : سمجھتے ہیں اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
کیا پھر وہ شخص جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے وہ برحق ہے کیا ایسا شخص اس کے برابر ہو سکتا ہے جو (سچائی کو) دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا ہے (اندھا ہوتا ہے) ۔ حقیقت یہ ہے کہ نصیحت تو سمجھ دار لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں۔
لغات القرآن آیت نمبر 19 تا 26 افمن کیا پھر وہ شخص اعمی اندھا یتذکر دھیان دیتا ہے اولوالالباب عقل و فکر رکھنے والے یوفون پورا کرتے ہیں لا ینقضون وہ نہیں توڑتے ہیں المیثاق وہ پختہ عہد جس کو توڑا نہ جاسکے یصلون وہ ملاتے ہیں یخشون وہ ڈرتے ہیں یخشون وہ ڈرتے ہیں سوء الحساب بدترین حساب ابتغاء تلاش کرنا اقاموا انہوں نے قائم کیا انفقوا انہوں نے خرچ کیا سر چھپ کر علانیۃ کھلم کھلا یدرؤن وہ رد کرتے ہیں عقبی الدار آخرت کا گھر عدن راحت بھری جنت۔ رہنے کے باغات صلح درست کیا۔ اصلاح کرلی ازواج (زوج) ، بیویاں ، جوڑے ذریت (ذریتۃ) اولاد نعم بہترین یقطعون وہ کاٹتے ہیں ان یوصل یہ کہ وہ ملائیں یفسدون وہ فساد مچاتے ہیں۔ برباد کرتے ہیں یبسط وہ کھولتا ہے یقدر تنگ کردیتا ہے ۔ تشریح : آیت نمبر 19 تا 26 دنیا کا دستور یہ بن گیا ہے کہ جو شخص جتنی دولت اور دنیاوی مال و اسباب کمانے کی اہلیت رکھتا ہے اس کو معاشرہ میں انتہائی صاحب عقل و دانش سمجھ کر عزت کے مقام پر بٹھایا اجتا ہے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس کے ذرائع آمدنی کیسے ہیں۔ یہ مال و دولت اس کو جنت میں لے کر جائیں گے یا اس کہ جہنم کا ایندھن بنا دیں گے۔ اس کے برخلاف وہ شخص جو انتہائی پرہیزگاری کی زندگی گذار رہا ہے حرام سے بچ رہا ہے وہ اعمال سر انجام دے رہا ہے جو اس کو اور اس کے گھر والوں کو جنت کی ابدی راحتوں سے ہم کنار کردیں گے، لیکن اس کے پاس مال و دولت کی کمی ہے دنیا والے اس کو ناعاقبت اندیش اور بےوقوفی کے القاب سے یاد کرتے ہیں۔ قرآن کریم کی ان آیات میں اہل عقل و دانش اور بیوقوفوں کی تفصیل بتائی گئی ہے اللہ کے نزدیک کون عقل والا ہے اور کون بےعقل ہے ؟ فرمایا کہ وہ شخص جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے کلام نازل کیا گیا ہے وہ بالکل برحق اور سچ ہے لیکن اگر دوسرا وہ شخص جو ان سچائیوں سے آنکھیں بند کئے اندھوں کی طرح زندگی گذار رہا ہے اور اللہ کے کلام پر یقین بھی نہیں رکھتا ہے۔ اگر ان دونوں کا مقابلہ کیا جائے تو یہ دونوں برابر نہیں ہوس کتے۔ فرمایا کہ اہل عقل و دانش لوگ وہ ہیں : 1) جو اللہ سے کئے ہوئے ہر عہد اور وعدہ کو پورا کرتے ہیں۔ اللہ کے ان تمام احکامات کو دل و جان سے قبول کرلے اطاعت و فرماں برداری کرتے ہیں اور ہر اس چیز سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے اللہ کو پسند نہی ہے۔ وہ اللہ سے اور اس کے بندوں سے جو وعدہ کرتے ہیں اس پر پوری دیانت داری سے عمل کرتے ہیں۔ وہ ان منافقوں کی طرح نہیں ہوتے جو اپنے عہد و معاہدہ کا لحاظ نہی کرتے۔ کیونکہ منافق کی ایک علامت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ جب کسی سے وعدہ کرتا ہے تو اس کو پورا نہیں کرتا۔ اس لئے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ” وہ صاحب ایمان نہیں ہو سکتا جو اپنے وعدے کو پورا نہیں کرتا “ قرآن کریم میں بھی بیس سے زیادہ مقامات پر عہد شکنی کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ 2) دوسری صفت یہ ہے کہ وہ ہر ایک کے ساتھ بہترین سلوک اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کرتا ہے یعنی اس کے نزدیک دوسروں سے بھلائی کرنا ہی اس کا مزاج بن جاتا ہے خواہ وہ دوست ہو یا دشمن، کافر ہو یا مسلم دور کا رشتہ دار ہو یا قریب کا ہر ایک سے حسن سلوک کرتا ہے۔ 3) تیسری صفت یہ ہے کہ وہ ہر وقت اپنے پروردگار سے اور اس بات سے ڈرتا رہتا ہے کہ قیامت کے دن اس سے جب پوری زندگی کا حساب کتاب لیا جائے گا تو کہیں اس کا انجام خراب نہ ہوجائے۔ 4) چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ حق و صداقت کی زندگی کو اختیار کرتا ہے اور پھر راہ حق میں اس کو جو بھی تکلیفیں پہنچتی ہیں انہیں وہ اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے برداشت کرتا ہے اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ نہ وہ جذبات کی رو میں بہتا ہے اور نہ بڑے سے بڑا لالچ اس کے قدموں میں لرزش و لغزش پیدا کرتا ہے اس کا ہر کام صرف اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہوتا ہے۔ 5) پانچویں صفت یہ ہے کہ وہ نمازوں کو قائم کرتا ہے۔ اقامت صلوۃ یہ ہے کہ جس طرح رسول اللہ ﷺ نے اقامت صلوۃ کا طریقہ ارشاد فرمایا ہے جس پر آپ کے صحابہ کرام اور امت چلتی آئی ہے اسی طرز پر نمازوں کو قائم کرتا ہے اور تمام نمازوں کو نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتا ہے اور مسجدوں میں نماز با جماعت کا اہتمام کرتا ہے اور ہر نماز کو اس کے وقت کے اندر پابندی سے ادا کرتا ہے۔ 6) چھٹی صفت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو جو کچھ عطا فرما رکھا ہے اس کو وہ محض اپنے آپ اور اپنے بال بچوں کی حد تک محدود نہیں رکھتا بلکہ عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر بھی خرچ کرتا ہے۔ یہاں یہی ہے کہ اللہ نے جو مال و دولت عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کیا جائے تو اس کا بےانتہا ثواب ہے لیکن اس کو اسی حد تک محدود نہ سمجھا جائے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس انسان کو جو بھی صلاحیت اور ہنر عطا فرمایا ہے وہ اس کو ہر شخص تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسروں کی کسی طرح کی امداد و اعانت سے پیچھے نہیں رہتے۔ کھل کر یا چھپ کر جیسے ان سے بن پڑے وہ خرچ کرتے ہیں۔ 7) ساتویں صفت یہ ہے کہ اگر زندگی کے کسی مرحلے پر یا حق و صداقت کے راستے میں اس کیساتھ کوئی شخص بدسلوکی یا بےعزتی کرتا ہے تو وہ اس کا جواب کسی برائی سے نہیں دیتا بلکہ ہر برائی ظلم و ستم اور سختی کا بدلہ نیکیوں، معافی اور نرمی کے رویئے سے ادا کرتا ہے۔ فرمایا کہ جن لوگوں میں مذکورہ باتیں ہوں گی اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ اللہ تعالیٰ ان کو دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں، راحت و آرام اور سکون عطا فرمائے گا۔ وہ اس جنت کے مستحق بن جائیں گے جس میں راحتیں ہوں گی ایک نعمت یہ بھی ہوگی کہ والدین، اولاد اور بیویاں رشتہ دار سب اکٹھے ایک جگہ رہیں گے۔ ان کو عزت کا یہ مقام نصیب ہوگا۔ کہ ہر دروازے سے فرشتے ان کا استقلال سلام سے کریں گے اور کہیں گے کہ تمہارے اوپر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں کہ تم نے صبر اور برداشت سے کام لیا اس کے بدلے میں تمہیں وہ گھر دیا جا رہا ہے جس میں سلامتی، خوشی، مسرت اور دائمی راحت و آرام ہے۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جن کا مزاج یہ بن چکا تھا کہ انہوں نے اللہ سے جو بھی وعدے کئے تھے ان کو انہوں نے توڑ دیا تھا جن رشتوں کو ملانے کا حکم دیا تھا ان کو کاٹ دیا تھا اور زمین میں سوائے فساد ، تباہی اور برباد کے انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ فرشتے کہیں گے کہ ایسے لوگوں پر اللہ کی لعنت ہو اور ان کو بدترین ٹھکانا دیا جائے گا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ کوئی اس گمان میں نہ رہے کہ نیکی کا راستہ اختیار کرنے والوں کو تنگ حالی اور فقر و فاقہ ہی ملتا ہے۔ فرمایا تو اللہ کا نظام قدرت ہے کہ وہ کسی پر رزق کے دروازے کھول دیتا ہے، خوشحالیاں اس کے قدم چومتی ہیں لیکن بعض لوگ وہ ہوتے ہیں کہ ان پر حالات کی سختی ہوتی ہے۔ فرمایا کہ رزق کی کمی بیشی، تنگی اور فراخی یہ اللہ کے نظام کا حصہ ہے وہ جس طرح چاہتا ہے دنوں کو لوگوں کے درمیان گھماتا رہتا ہے کبھی کی راتیں بڑی اور کبھی کے دن بڑے ہوتے ہیں۔ کوئی چیز کسی ایک حال پر نہیں رہتی۔ لیکن ایک بات ہر شخص کے ذہن میں رہنی چاہئے کہ دنیا کی زندگی میں کتنی بھی راحتیں آرام و سکون اور دولت کی فراوانی مل جائے وہ بالآخر کسی موڑ پر ختم ہوجانے والی ہیں لیکن جنہوں نے آخرت کی دولت جمع کی ہے وہ کبھی نہ ختم ہونے والی دولت ہے۔ دنیا کی دولت تو صرف وقتی گذارہ کی چیز ہے دائمی زندگی اور اس کی راحتیں آخرت ہی میں نصیب ہوں گی۔
Top