Ruh-ul-Quran - Ar-Ra'd : 19
اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰى١ؕ اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِۙ
اَفَمَنْ : پس کیا جو يَّعْلَمُ : جانتا ہے اَنَّمَآ : کہ جو اُنْزِلَ : اتارا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف مِنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب الْحَقُّ : حق كَمَنْ : اس جیسا هُوَ : وہ اَعْمٰى : اندھا اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يَتَذَكَّرُ : سمجھتے ہیں اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
(تو کیا جو شخص جانتا ہے کہ آپ پر جو کچھ نازل کیا گیا ہے آپ کے رب کی طرف سے وہ حق ہے۔ وہ اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جو اندھا ہے۔ نصیحت صرف عقلمند ہی قبول کرتے ہیں۔
اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ الْحَقُّ کَمَنْ ھُوَاَعْمٰی ط اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ ۔ (سورۃ الرعد : 19) (تو کیا جو شخص جانتا ہے کہ آپ پر جو کچھ نازل کیا گیا ہے آپ کے رب کی طرف سے وہ حق ہے۔ وہ اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جو اندھا ہے۔ نصیحت صرف عقلمند ہی قبول کرتے ہیں۔ ) آنحضرت ﷺ کو تسلی اور قریش مکہ کو تنبیہ اس آیت کریمہ میں نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں کو تسلی دی جارہی ہے۔ اور قریش مکہ کو آئینہ دکھانا مقصود ہے۔ قرآن کریم نے آنحضرت ﷺ کی تبلیغ و دعوت کے انداز کو اور کفار کی ہدایت کے لیے آپ ﷺ کی دلسوزی کو جس طرح بیان فرمایا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ لوگوں کی ہدایت کا کام محض ایک ذمہ داری سمجھ کر ادا نہیں فرما رہے تھے بلکہ لوگوں کی بھلائی اور ان کی زندگیوں میں خوش اطواری کا ورود اور آخرت کی فکر پیدا کرنے کی طلب آپ ﷺ پر اس طرح حاوی ہوگئی تھی کہ آپ ﷺ کی زندگی کے تمام معمولات اور آپ ﷺ کے تمام احساسات پر اس نے غلبہ پا لیا تھا، جو کافر ایمان لانے سے انکار کرتا تھا، آپ ﷺ کو چونکہ یقین تھا کہ اس کا انجام جہنم میں جلنا ہے تو آپ محسوس کرنے لگتے تھے کہ یہ شخص اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آگ کا ایک بڑا الائو ہے جو اس کا منتظر ہے اور یہ اپنی حماقت سے اس میں کود جانا چاہتا ہے۔ میں چونکہ اس کی تباہی اور بربادی دیکھ رہا ہوں اور میری اسے بچانے کی تمام کوششیں ناکام ہورہی ہیں تو آپ کی طبیعت پر ایک غیرمعمولی بار پڑتا تھا اور آپ کی روح زخمی ہونے لگتی تھی۔ اور آپ ﷺ کی بالکل وہی کیفیت ہوتی تھی جو ایک ہمدرد انسان کی آگ میں جلتے ہوئے آدمی کو دیکھ کر ہوتی ہے۔ مزید پریشانی کی بات یہ تھی کہ کبھی کبھی آپ ﷺ محسوس کرنے لگتے کہ قریش مکہ کا ہدایت قبول نہ کرنا اور خطرناک انجام کی طرف بڑھتے چلے جانا تبلیغ و دعوت میں شاید میری کسی کوتاہی کا نتیجہ ہے۔ اور میں شاید ان کو ہدایت دینے میں وہ محنت، وہ توجہ، وہ ہمدردی و غمگساری بروئے کار نہیں لاسکا جس کی انھیں ضرورت تھی۔ چناچہ وہ ذات خداوندی جو دلوں کے بھیدوں سے واقف ہے وہ آنحضرت ﷺ کے اس احساس کے پیش نظر جس نے آپ ﷺ کو مضمحل کرکے رکھ دیا تھا تسلی دینے کی ضرورت محسوس کرتی ہے اور جابجا قرآن پاک میں ہم اسی حوالے سے تسلی پر مشتمل آیات کو نازل ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ چناچہ پیش نظر آیت کریمہ میں بھی نہایت دلنواز انداز میں آپ ﷺ کو اطمینان دلایا جارہا ہے کہ قریش مکہ کا راہ راست نہ اختیار کرنا آپ ﷺ کی کسی کوتاہی کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کی بدنصیبی کا نتیجہ ہے۔ انھیں آپ ﷺ نے باقی انسانوں کی ہی طرح ہر ممکن طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن انھوں نے اپنے دل و دماغ میں جو بت سجا رکھے ہیں اور اپنے معمولات جن کاموں کی نذر کر رکھے ہیں اور اپنی ترجیحات جن حوالوں سے متعین کر رکھی ہیں اور اپنی خواہشات جن بداطواریوں کے تابع کر رکھی ہیں اس نے ان کے اندر ایک نئی شخصیت پیدا کردی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ان کی عقلیں مائوف ہوگئی ہیں، ان کے حواس نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ یہ کہنے کو بینا ہیں لیکن حقیقت میں اندھے ہیں۔ یہ دنیا کی ہر حقیقت کو دیکھتے ہیں لیکن آخرت کی حقیقت ان کی نگاہوں سے مخفی رہتی ہے۔ یہ حواس کی زندگی کو عقل کی زندگی سمجھتے ہیں اور آنکھ کی روشنی کو دل کی روشنی پر ترجیح دیتے ہیں۔ جس طرح آنکھ کا اندھا بار بار ٹھوکر کھا کے گرتا ہے اور اسے منزل تک پہنچنا کبھی نصیب نہیں ہوتا اسی طرح دل کا اندھا بھی حقائق کی شناخت سے ہمیشہ محروم رہتا ہے۔ وہ ہر چیز کے ظاہر کو جانتا ہے لیکن اس کے باطن تک اترنا اسے کبھی نصیب نہیں ہوتا۔ وہ حیوانی زندگی کا اسیر ہو کر انسانی زندگی سے بیخبر رہتا ہے۔ اس کا میدانِ عمل پیٹ کی ضرورتوں تک محصور ہوجاتا ہے۔ وہ انسانیت کی ضرورتوں کا شعور کبھی پیدا نہیں کرسکتا۔ اس لیے اقبال بار بار ترغیب دیتا ہے : دل کا نور کر خدا سے طلب آنکھ کا نور دل کا نور نہیں ان لوگوں کے دل چونکہ اندھے ہوچکے ہیں اور اپنی مسلسل بداعمالیوں سے ان کے دلوں کا نوربجھ چکا ہے۔ یہ سبب ہے جس کی وجہ سے آپ ﷺ کی دعوت ان کے دلوں تک نہیں اتررہی۔ وہ پیٹ کی ضرورتوں کو تو سمجھتے ہیں لیکن دل کی ضرورتوں کو سمجھنا ان کے بس کی بات نہیں۔ آپ ﷺ جو روشنی دکھانا چاہتے ہیں وہ اسے دیکھنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں۔ اس لیے آپ کی دعوت کو قبول نہ کرنا وہ سراسر ان کے بےصلاحیت ہونے کا نتیجہ ہے، آپ ﷺ کی دعوت میں کوئی کمی نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ مشرکین کو آئینہ دکھایا جارہا ہے کہ تم آنحضرت ﷺ کی دعوت کو رد کرکے یہ سمجھتے ہو کہ تم نے شاید کوئی کارنامہ انجام دیا ہے حالانکہ آنحضرت ﷺ کی دعوت انسانیت کی پکار ہے۔ انسانوں کی پیاسی روح کا جواب ہے۔ وہ تمہارے روشن مستقبل کی نوید ہے، وہ تمہاری فوزوفلاح کی ضمانت ہے۔ تم نے دن کی روشنی چھوڑ کر رات کی تاریکیوں کو پسند کیا۔ تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ تم کس طرح حوادث کو دعوت دے رہے ہو۔ تم چونکہ دانش نورانی کی دولت سے تہی دامن ہو اس لیے دانش برہانی ہی کو زندگی کی اساس اور زندگی کی رہنما سمجھتے ہو، تمہیں معلوم نہیں کہ علم و دانش انسان کا عظیم سرمایہ ہے۔ لیکن جب یہی دانش، دانشِ نورانی سے الگ ہوجاتی ہے تو پھر اس دانش کا کام اتباعِ ہَویٰ کے سواکچھ نہیں ہوتا۔ یہ ہوائے نفس کی وکیل بن کر انسانی اقدار کی تباہی کا باعث بن جاتی ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے اس کے بعد وضاحت سے بتایا کہ حقیقی عقلمند کون لوگ ہیں۔
Top