Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 51
اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰى١ؕ اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِۙ
اَفَمَنْ : پس کیا جو يَّعْلَمُ : جانتا ہے اَنَّمَآ : کہ جو اُنْزِلَ : اتارا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف مِنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب الْحَقُّ : حق كَمَنْ : اس جیسا هُوَ : وہ اَعْمٰى : اندھا اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يَتَذَكَّرُ : سمجھتے ہیں اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
تو کیا جو جانتا ہے کہ جو کچھ تمہارے رب کی جانب سے اتار گیا ہے وہ حق ہے وہ اس کے مانند ہوجائے گا جو اندھا ہے۔ یاددہانی تو اہل عقل ہی حاصل کرتے ہیں
اَفَمَنْ يَّعْلَمُ اَنَّمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰى ۭ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ۔ پیغمبر ﷺ کو تسلی، منکرین کو تہدید : " اعمی " کا لفظ، جیسا کہ آیت 16 میں عقل و دل کے اندھوں کے لیے آیا ہے اسی طرح اس آیت میں بھی یہ عقل و دل کے اندھوں کے لیے وارد ہوا ہے۔ یہ آیت بطور التفات، پیغمبر ﷺ کی تسلی کے لیے بھی ہے اور مکذبین و منکرین کی تہدید و وعید کے لیے بھی۔ آنحضرت ﷺ کے لیے تسلی کا پہلو تو یہ ہے کہ تم قرآن کی شکل میں جو دعوت پیش کر رہے ہو اس کے بارے میں ہر ایک کا رویہ یکساں نہیں ہوگا۔ اس سے یاد دہانی وہی حاصل کریں گے جو اولو الالباب یعنی عقل و دل رکھنے والے ہیں۔ جن کے دل مردہ اور جن کی عقلیں اندھی ہوچکی ہیں وہ اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔ مطلب یہ کہ تم ان کے رویہ سے بلاوجہ بددل اور پریشان نہ ہو۔ اس آیت کا اسلوب خود بول رہا ہے کہ لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جن کے لیے پیغمبر اور قرآن کی ہر بات خود اپنے دل کی آواز ہوتی ہے۔ وہ پیغمبر کی بات اور قرآن کی آیات سن کر یوں محسوس کرتے ہیں کہ دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے ان کے لیے قرآن کی حیثیت ایک یاد دہانی کی ہوتی ہے۔ وہ ان پر کوئی چیز اوپر سے لادتا نہیں بلکہ خود ان کی اپنی فطرت کے مدفون خزانوں کو ابھار کر ان کی نگاہوں کے سامنے کردیتا ہے۔ منکرین و مکذبین کے لیے اس میں وعید یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس طرح کے اندھے لوگ ان لوگوں کے مانند ہوجائیں جن کے دل و دماغ روشن ہیں۔ لازم ہے کہ دونوں کا انجام ان کے اعمال کے اعتبار سے الگ الگ ہو۔
Top