Mualim-ul-Irfan - Ar-Ra'd : 19
اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰى١ؕ اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِۙ
اَفَمَنْ : پس کیا جو يَّعْلَمُ : جانتا ہے اَنَّمَآ : کہ جو اُنْزِلَ : اتارا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف مِنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب الْحَقُّ : حق كَمَنْ : اس جیسا هُوَ : وہ اَعْمٰى : اندھا اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يَتَذَكَّرُ : سمجھتے ہیں اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
بھلا وہ شخص جو جانتا ہے کہ بیشک جو چیز اتاری گئی ہے آپ کی طرف آپ کے پروردگار کی جانب سے وہ حق ہے ، کیا وہ اس کی طرح ہوگا جو اندھا ہے ؟ بیشک نصیحت پکڑتے ہیں عقل مند لوگ ،
(ربط آیات) شرک کی تردید اور توحید کے بیان کے اس کے ماننے اور نہ ماننے والے ہر دو قسم کے لوگوں کا ذکر ہوا حق و باطل کی کشمکش کا ذکر فرمایا کہ ان دونوں میں ہمیشہ ٹکراؤ ہوتا رہتا ہے ، باطل کی مثال سیلاب کے پانی پر آنے والی جھاگ یا کسی دھات کو پگھلانے پر دھات کے پانی پر آنے والی جھاگ کی ہے ، ہر دو قسم کی جھاگ تھوڑی دیر کے لیے جوش مارتی ہے اور پھر ختم ہوجاتی ہے ، اور جو چیز کارآمد اور مفید ہوتی ہے ، وہ اس جھاگ کے نیچے تہ نشین ہوجاتی ہے ، دھات کی صورت میں اصل دھات کے زیورات مابرتن یا دیگر سامان تیار کرلیا جاتا ہے فرمایا نیکی اور بدی کی مثال بھی ایسی ہی ہے ، ان کا بھی آپس میں ٹکراؤ ہوتا رہتا ہے ، بعض اوقات برائی جوش میں مارتی ہے مگر بالآخر وہ مٹ جاتی ہے اور باقی حق ہی رہتا ہے ۔ اب آج کے درس میں قرآن پاک ، دین اور شریعت کو ماننے والوں اور اس کا انکار کرنے والوں کا انجام بیان کیا گیا ہے ، نیز قرآن پاک کی تعلیمات سے مستفید ہونے والوں کے اوصاف بھی بیان کیے گئے ہیں ۔ (عالم اور نابینا کی مثال) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” افمن یعلم انما انزل الیک من ربک الحق “۔ کیا وہ شخص جو جانتا ہے کہ آپ کے رب کی طرف سے نازل کردہ چیز برحق ہے (آیت) ” کمن ھو اعمی “۔ اس شخص کی طرح سے جو اندھا ہے کسی چیز کو جان لینا ہی کافی نہیں بلکہ اس پر ایمان لانا بھی ضروری ہے ، مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ علم رکھتا ہے کہ قرآن پاک برحق ہے مگر خود اس پر ایمان نہیں لاتا تو اس کا محض علم کچھ مفید نہیں ہوگا ۔ اس مقام پر علم سے مراد اعتقاد بھی ہے یعنی جس شخص کا عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ برحق کتاب ہے ، وہ قرآن پاک کے منکر کی طرح تو نہیں ہو سکتا جس کو اندھے سے تعبیر کیا گیا ہے مثلا (آیت) ” فاعلم انہ لا الہ الا اللہ “۔ خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں یعنی خدا تعالیٰ کے وحدہ لاشریک ہونے کا محض علم ہونا مفید نہیں کیونکہ یہ علم تو یہود ونصاری کو بھی تھا مگر وہ اس کو مانتے نہیں تھے ، لہذا ان کا صرف جاننا مفید نہیں ہے ، اور جس شخص کے پاس نہ تو علم ہے کہ قرآن پاک برحق ہے اور نہ وہ اس کی حقانیت پر اعتقاد رکھتا ہے ، اسے قرآن پاک کی غرض وغایت کا ہی علم ویقین نہیں ، وہ نابینا آدمی کی طرح ہے جسے کچھ نہیں آتا ایسا آدمی تو حق و باطل ، نور اور ظلمت ، صحیح اور غلط میں امتیاز ہی نہیں کرسکتا ، گویا ایماندار آدمی بینا کی طرح ہے اور مشرک ، کافر اور منافق نابینا کی طرح اور ان دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے ، فرمایا (آیت) ” انما یتذکر اولوالالباب “۔ بیشک صاحب عقل لوگ ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں ، بےعقل اور نادان لوگ نصیحت سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے ، ان کے متعلق تو سورة انفال میں موجود ہے ۔ (آیت) ” الصم البکم الذین لا یعقلون “۔ وہ بہرے اور گونگے ہیں جو عقل کو صحیح طور پر استعمال ہی نہیں کرتے ۔ (عقلمندوں کے اوصاف (1) ایفائے عہد) آگے اللہ تعالیٰ نے عقلمندوں کے اوصاف بھی بیان فرمائے ہیں کہ وہ کون لوگ ہیں (آیت) ” الذین یوفون بعھد اللہ “۔ جو اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں (آیت) ” ولا ینقضون المیثاق “ اور پختہ عہد و پیمان کو نہیں توڑتے ، جب کوئی شخص کلمہ توحید زبان سے ادا کرتا ہے ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “۔ تو وہ دو چیزوں کا عہد کرتا ہے ، ایک یہ کہ میں اللہ کی وحدانیت پر ہمیشہ قائم رہوں گا اور دوسری یہ کہ میں اس دین اور شریعت کا پابند رہوں گا جو اللہ نے خاتم النبین ﷺ پر نازل فرمائی ہے ، یہ تو توحید و رسالت کا عہد ہوگیا ، اور بعض فرماتے ہیں کہ اس عہد میں تمام قسم کے عہد آجاتے ہیں جو ایک انسان اپنے خالق کے ساتھ کرتا ہے یا ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ کرتا ہے ایک جماعت کا دوسری جماعت سے اور ایک سلطنت کا دوسری سلطنت سے عہد بشرطیکہ وہ خلاف شرع نہ ہو ، پورا کرنا لازمی ہوگا سورة مائدہ میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اے ایمان والو ! (آیت) ” اوفوا بالعقود “۔ عہد و پیمان کو پورا کرو ، سورة بنی اسرائیل میں ہے کہ لوگو ! عہد کو پورا کیا کرو ، کیونکہ (آیت) ” ان العھد کان مسئولا “۔ اس کے متعلق قیامت والے دن سوال کیا جائے گا ، میثاق کے متعلق مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ایک تو میثاق الست ہے جو اس جہان میں آنے سے پہلے اللہ نے تمام انسانوں کی روحوں سے لیا تھا ، اس کا ذکر سورة اعراف میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام ذریت آدم کو ان کی پشت سے نکالا اور فرمایا (آیت) ” الست بربکم “ بتلاؤ میں تمہارا رب ہوں یا نہیں ” قالوا بلی “ تو سب نے کہا کہ پروردگار ! کیوں نہیں ؟ تو ہی ہمارا رب ہے پھر اس پختہ عہد کی یاددہانی کے لیے اللہ نے انبیاء کو مبعوث فرمایا اور کتابیں نازل فرمائیں تاکہ کل قیامت کو یہ بہانہ نہ کرسکو کہ ہمیں یاد دلانے والا کوئی نہیں آیا تھا ، حالانکہ ہر نبی نے اپنی اپنی امت کو یہ عہد یاد دلایا ہے غرضیکہ میثاق الست اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی فطرت میں رکھ دیا ہے کیونکہ ہر شخص کی روح اس کا قرار کرچکی ہے اور یہی وہ عہد ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے نہ توڑنے کا حکم دیا ہے اگرچہ اس دنیا میں آکر عام آدمی اس عہد کو بھول جاتے ہیں تاہم ایسے سلیم الفطرت لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو روحانیت کے اعتبار سے بیدار ہوتے ہیں ، تابعین اور تابعین کے زمانے کے بعض حضرات کا بیان ملتا ہے جنہوں نے کہا کہ ہمیں تو وہ عہد بالکل تازہ بتازہ محسوس ہوتا ہے اور ہمیں یاد ہے کہ عالم ارواح میں ہم نے یہ عہد کیا تھا ۔ اسی لیے فرمایا کہ عقل مند آدمی وہ ہیں جو عہد کو پورا کرتے ہیں اور میثاق کو توڑتے نہیں خواہ وہ عہد الست ہو یا کوئی اور عہد ۔ آج کی دنیا میں بدعہدی عام ہوچکی ہے ، افراد ہوں یا جماعتیں یا حکومتیں وعدے کی پابندی نہ صرف ختم ہوچکی ہے بلکہ اس کے اعلانیہ اظہار کی بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا ، انگریزوں کے وزیر جنگ نے جنگ عظیم کے موقع پر برملا کہا تھا کہ ترکوں کے ساتھ عہد محض وقت گزارنے کے لیے کیا گیا تھا ، اس کو پورا کرنا مقصودنہ تھا ، آج بھی امریکہ ہو یا روس ، فرانس ہو یا جرمنی وہ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے عہد کو ٹالتے رہتے ہیں ، ہمارا پڑوسی ملک بھارت کشمیریوں سے کیے گئے عہد استصواب رائے کو نہایت ڈھٹائی کے ساتھ ٹالتا جا رہا ہے ، یہود ونصاری کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے کبھی عہد کو پورا نہیں کیا ، البتہ مسلمان جب تک ایک زندہ قوم تھی ، ان کو عروج حاصل تھا تو یہ عہد پر بھی قائم ہوتے تھے ، مگر جب سے انحطاط پذیر ہوئے ہیں ، ان کی حالت بھی دیگر اقوام کی طرح ہی ہوگئی ہے ، بہرحال عہد کی پاسداری کرنا سچے مسلمانوں اور عقلمندوں کا کام ہے ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے کہ ایک عقل معاد ہوتی ہے اور دوسری عقل معاش ، معاش کی عقل تو اس دنیا تک محودو ہے یہاں پر بڑے بڑے اہل عقل وہنر ، دانشور ‘ بیرسٹر اور پی ایچ ڈی حضرات موجود ہیں ، مگر عقل معاد سے خالیٰ ہیں (آیت) ” یعلمون ظاھرا من الحیوۃ الدنیا ، وھم عن الاخرۃ ھم غفلون “۔ (الروم) ان کا علم دنیا تک محدود ہے اور یہ آخرت سے غافل ہیں ، مگر یہاں پر تو آخرت کو سمجھنے والی عقل کی ضرورت ہے اور صحیح عقلمند وہی ہے جو آخرت کی منزل کو سمجھتا ہے اور جسے آخرت کا احساس ہوگا وہ عہد کی پابندی کرے گا اور اسے قطع نہیں کریگا۔ (2) (باہمی ملاپ) اللہ تعالیٰ نے عقلمندوں کی دوسری صفت یہ بیان فرمائی ہے (آیت) ” والذین یصلون ما امر اللہ بہ ان یوصل “۔ اور وہ لوگ جو ملاتے ہیں اس چیز کو جسے اللہ نے ملانے کا حکم دیا ہے سب سے پہلے اللہ نے ایمان اور نیکی کو ملانے کا حکم دیا ہے قرآن پاک میں جگہ جگہ موجود ہے (آیت) ” ان الذین امنوا وعملوا الصلحت “۔ یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال انجام دیے گویا نیکی ایمان کے ساتھ بالکل جڑ ہوئی ہے ، نہ تو نیکی کے بغیر ایمان کا کچھ فائدہ ہے اور نہ صرف نیکی کسی کام کی ہے ، ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ن کی کرے ، باہمی ملاپ میں قرابتداری اور صلہ رحمی بھی آتی ہے ، اللہ نے قرابتداروں کا حق ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور قطع رحمی سے منع فرمایا ہے ، اس کو حقوق اللہ اور حقوق العباد سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں کیونکہ صالح انسان وہی ہوگا جو اللہ کے حقوق کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق بھی ادا کرتا ہے ، جس طرح ایمان کے ساتھ نیکی کو ملانا ضروری ہے اسی طرح حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا ملانا بھی لازمی ہے ۔ قرابت داروں کے حقوق کے علاوہ ہر چھوٹے بڑے کا حق ہے ، اپنے پڑوسی کا حق ہے ، دوہم سفروں کا آپس میں حق قائم ہوتا ہے اس کی رعایت ضروری ہے اپنے پیر کا حق ہے ، استاد کا حق ہے ، افسر اور ماتحت کا حق ہے ، مالک اور مزدور کے درمیان حقوق کی تقسیم ہے اور امام اور مقتدی کا بھی آپس میں حق ہے تو عقلمند وہ لوگ ہیں جو ان تمام حقوق کو ملاتے ہیں اور ان میں اختلاف نہیں کرتے ۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے (آیت) ” انما المؤمنون اخوۃ “۔ (الحجرات) تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا وہ اخوت اور بھائی چارے کے جذبے کے ساتھ ہی رہیں مسلمان خواہ کسی ملک میں رہتا ہو اور کوئی زبان بولتا ہے ، وہ ہمارا بھائی ہے ، ہم سب ایمان کے رشتے میں پروئے ہیں ، کلمہ طیبہ ہی جامع ایمان ہے ۔ (3) ۔ (خشیت الہی) وعقلمندوں کی تیسری صفت اللہ نے یہ بیان فرمائی ہے (آیت) ” ویخشون ربھم “۔ وہ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ، مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ خشیت وہ چیز ہے جو علم کے ساتھ حاصل ہوتی ہے جب کوئی شخص اچھائی اور برائی میں امتیاز کرلیتا ہے اور پھر وہ برائی کے کام سے ڈر جاتا ہے تو یہی خشیت الہی ہے سورة فاطر میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے (آیت) ” انما یخشی اللہ من عبادہ العلموا “۔ علم والے لوگ ہی اللہ کا خوف رکھتے ہیں فرمایا (آیت) ” ویخافون سوء الحساب “۔ یہ وہی لوگ ہیں جو حساب کی خرابی سے ڈرتے ہیں ، وہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال سے خوف کھاتے ہیں کہ قیامت کے دن ان کا حساب آسان ہوجائے یہی سیدھے راستے پر چلنے والے لوگ ہیں ۔ (4) ۔ (صبر) اہل عقل وخرد کی چوتھی صفت اللہ نے یہ بیان فرمائی ہے (آیت) ” والذین صبروا ابتغآء وجہ ربھم “۔ اور وہ لوگ جنہوں نے صبر کیا اپنے رب کی خوشنودی کی تلاش کے لیے جنہوں نے دنیا کے مصائب وآلام جھیلنے اور ناگوار باتوں پر صبر کیا ، صبراطاعت پر بھی ہوتا ہے ، معصیت سے بچنے کے لیے بھی اور تکلیف کو برداشت کرنے پر بھی ، صبر ملت ابراہیمی کے اہم اصولوں میں سے ایک ہے ، قرآن پاک میں اس کی بہت سی تفصیلات موجود ہیں ، ارشاد باری تعالیٰ ہے (آیت) ” انما یوفی الصبرون اجرھم بغیر حساب “۔ (الزمر) صبر کرنے والوں کو بےحساب اجر ملے گا ، گرمی کے دنوں میں روزہ رکھنے صبر کی بات ہے صبر کے بغیر انسان گرمی اور سردی میں وضو نہیں کرسکتا ، نماز نہیں پڑھ سکتا ، حج وعمرہ ادا نہیں کرسکتا ، صبر نفس کو برائی سے روکتا ہے اور اطاعت پر آمادہ کرتا ہے تو فرمایا عقلمند لوگوں کی چوتھی صفت صبر ہے ۔ ایم مومن کا سب سے بڑا مقصد یہ ہوتا ہے کہ رضائے الہی حاصل ہوجائے ، ہمارے تمام نیک کاموں اور تمام عبادت کا مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے ، (آیت) ” ورضوان من اللہ اکبر “۔ (التوبۃ) اللہ تعالیٰ کی تھوڑی سی رضا بھی حاصل ہوجائے تو وہ ہر چیز سے بڑی ہوگی ہمارے بزرگ حاجی امداد اللہ (رح) مہاجر مکی فرماتے ہیں 1 (شمائم امدادیہ ص 72) ہیں کہ لوگ لمبی چوڑی دعائیں مانگتے ہیں ، مگر میری دعا بالکل مختصر ہوتی ہے ” اللہم انی اسئلک رضاک والجنۃ واعوذ بک من سخطک والنار “۔ اے اللہ میں تجھ سے تیری رضا کا طالب ہوں اور جنت کا سوال کرتا ہوں ، غرضیکہ جس کو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہوگئی ، اس کو سب کچھ مل گیا اور جو کوئی خدا کے غضب سے بچ گیا ، وہ تمام برائیوں سے بچ گیا ، اسی لیے فرمایا کہ عقلمند وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے صبر کیا ، صبر بہت بڑی حقیقت اور ملت ابراہیمی کا اہم اصول ہے ۔ (5) (اقامت صلوۃ) فرمایا عقلمندوں کی پانچویں صفت یہ ہے (آیت) ” واقاموا الصلوۃ “۔ کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں ، نماز بھی بہت بڑی حقیقت ہے ۔ حساب کتاب کے موقع پر سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا ، نماز ہی کے ذریعے انسان کا تعلق باللہ قائم رہتا ہے ، نماز مومن کی پہچان ہے ، مومن اور کافر کے درمیان نماز ہی خط امتیاز ہے ، نمازی ہونا بھی مومن اور اہل عقل کی صفت ہے ۔ (6) (انفاق فی سبیل اللہ) فرمایا ان کی چھٹی صفت یہ ہے (آیت) ” وانفقوا مما رزقنھم “۔ اہل عقل وہ ہیں جنہوں نے خرچ کیا اس چیز میں سے جو ہم نے انہیں روزی دی ہے ، انسان جو بھی خرچ کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی چیز سے ہی کرتا ہے کسی کی کوئی ذاتی ملکیت نہیں اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس نے اپنی محنت ، ہنر اور عقل سے کوئی چیز کمائی ہے تو وہ نادان ہے یہ تو سب حیلے ہیں ، یہ تو انسان کو اللہ کے حکم سے تصرف حاصل ہوا ہے ، تو عقلمند وہ ہیں جو خرچ کرتے ہیں مگر نیکی کے کاموں پر نہ کہ شیطانی راستوں پر ، انفاق فی سبیل اللہ میں کھیل تماشہ ، گانا بجانا ، شراب نوشی ، جوا ، بازی ، شرکیہ امور اور رسومات باطلہ نہیں آتیں یہ تو سب ناجائز مدات ہیں ہاں قابل خرچ وہ ہے جو خدا کی رضا کے لیے ہو اور اس میں تمام انفرادی اور اجتماعی حقوق بھی شامل ہوں جن پر خرچ کرنا عقلمندوں کی صفت ہے ۔ اور ان کے خرچ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ خرچ کرتے ہیں (آیت) ” سرا وعلانیۃ “۔ پوشیدہ طور پر بھی اور علی الاعلان بھی ، اگر پوشیدہ طور پر کوئی چیز مستحقین تک پہنچا دی جائے تو یہ بہت اچھی بات ہے کیونکہ اس میں ریاکاری نہیں ہوگی ، اور اگر کھلے طور پر خرچ کرنے سے دوسروں کو ترغیب دینا مقصود ہوتا ایسا کرنا بھی درست ہے تاہم زیادہ اجر پوشیدہ طور پر خرچ کرنے کا ہے ۔ (7) (برائی کا ازالہ نیکی سے) فرمایا ان کی ساتویں صفت یہ ہے (آیت) ” ویدرء ون بالحسنۃ السیئۃ “۔ کہ وہ برائی کو نیکی کے ذریعے دور کرتے ہیں اگر کوئی غلطی سرزد ہوگئی ہے تو اس کے جواب میں کوئی نیکی کا کام کرتے ہیں تاکہ برائی کا ازالہ ہوجائے حضور ﷺ نے حضرت ابوذر غفاری ؓ سے فرمایا تھا کہ غلطی کو نیکی کے ساتھ مٹاؤ ، جب نیکی کرو گے تو برائی خودبخود مٹ جائے گی ، اگر کوئی آدمی تمہارے ساتھ بداخلاقی سے پیش آتا ہے ، گالی دیتا ہے یا کوئی اذیت پہنچاتا ہے تو اس کے جواب میں تم بھی غلط کام نہ کرو بلکہ تم برائی کا جواب نیکی سے دو گے تو برائی ختم ہوجائے گی اور اگر ایک گولی کے جواب میں دو گولیاں چلیں ایک گالی کا جواب دو گالیوں سے ملے اور ایک گھونسے کی بجائے دو برسیں تو پھر برائی مٹے گی نہیں بلکہ مزید پھیلے گی ھاں البتہ بعض مواقع پر برائی اور ظلم کا بدلہ لینے کی بھی اجازت ہے اور بعض اوقات معاف کردینا بہتر ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ان کے محلات بیان کردیے ہیں ، تو فرمایا اہل عقل وہ ہیں جو برائی کا ازالہ نیکی سے کرتے ہیں ۔ (جنت میں گھر) فرمایا جن لوگوں میں مذکورہ سات اوصاف پائے جائیں گے (آیت) ” اولئک لھم عقبی الدار “۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت کا گھر ہے اور وہ گھر کیا ہے (آیت) ” جنت عدن “۔ وہ رہائش کے قابل باغات ہیں ، جنت کے کئی طبقات ہیں جیسے جنت الفردوس جنت النعیم اور جنت عدن وغیرہ ، تو جنت عدن وہ باغات ہیں ، جو صرف درختوں اور پودوں کے باغات ہی نہ ہوں بلکہ رہنے کے لیے ان میں محلات بھی موجود ہوں ۔ فرمایا (آیت) ” یدخلونھا “ مذکورہ صفات کے حاملین ان باغوں میں داخل ہوں گے ، اور وہ وہاں اکیلے نہیں ہوں گے بلکہ (آیت) ” ومن صلح من ابآئھم وازواجھم وذریتھم “۔ ان کے آباؤ واجدادا اور اولادوں میں سے نیک لوگ بھی ان کے ساتھ جنت عدن میں داخل ہوں گے ، ایک مومن کو یہ اعزاز حاصل ہوگا کہ ان کے متعلقین اگرچہ عمل میں ان سے کم تر ہوں گے مگر ان کی وجہ سے وہ بھی ان کے ساتھ جنت کے اعلی مقام میں ہوں گے ، جنت عدن کا مقیم جب اپنے اعزہ و اقارب کے متعلق اللہ کے حضور تشویش ظاہر کرے گا اور پوچھے گا کہ وہ کس درجے میں ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو بھی اسی کے ساتھ ملا دے گا ، تاکہ اس جنتی کو کوئی ذہنی کوفت بھی نہ ہو ، دوسری جگہ پر ہے (آیت) ” واتبعتھم ذریتھم بایمان “۔ (الطور) اگر ایمان اور نیکی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی اولادوں کو بھی ان کے ساتھ ملا دیگا ۔ (فرشتوں کا سلام) فرمایا (آیت) ” والملئکۃ یدخلون علیھم من کل باب “۔ اور ان پر ہر دروازے سے فرشتے داخل ہونگے مگر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر داخلہ نہیں مل سکتا کیونکہ بعض اوقات کوئی اپنے اہل و عیال میں مشغول ہوتا ہے تو ایسے میں مخل ہونا درست نہیں ہوتا ، فرشتے داخل ہو کر کہیں گے (آیت) ” سلم علیکم “۔ تم پر سلامتی ہو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے (آیت) ” بما صبرتم “۔ اس وجہ سے کہ تم نے اس دنیا میں صبر کیا (آیت) ” فنعم عقبی الدار “۔ آخرت کا گھر کیا ہی اچھا ہے جو صبر کی بدولت حاصل ہوا ، فرشتے مبارکباد دیں گے جس سے اہل ایمان کی خوشی میں اضافہ ہوگا ۔ یہ نیک لوگوں کا انجام بیان ہوا ، اب اگلی آیت میں برے لوگوں کا حال بیان ہوگا ۔
Top