Tafseer-e-Madani - Ar-Ra'd : 19
اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰى١ؕ اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِۙ
اَفَمَنْ : پس کیا جو يَّعْلَمُ : جانتا ہے اَنَّمَآ : کہ جو اُنْزِلَ : اتارا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف مِنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب الْحَقُّ : حق كَمَنْ : اس جیسا هُوَ : وہ اَعْمٰى : اندھا اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يَتَذَكَّرُ : سمجھتے ہیں اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
بھلا جو شخص یقین جانتا ہو کہ جو کچھ اتارا گیا آپ کی طرف (اے پیغمبر ! ) آپ کے رب کی جانب سے، وہ سراسر حق (اور صدق) ہے کیا وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو (اس حقیقت سے) اندھا ہو ؟ نصیحت تو بس وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقل خالص رکھتے ہیں،1
60۔ اللہ کے حکم سے اعراض و سرتابی باعث ہلاکت و تباہی۔ والعیاذ باللہ۔ سو اس سے واضح فرمادیا گیا کہ سو جن لوگوں نے اللہ کا حکم نہیں مانا۔ ایمان واطاعت کے ذریعے بلکہ انہوں نے اعراض وروکردانی سے کام لیا۔ والعیاذ باللہ۔ تو وہ بہرحال ناکام ونامراد ہیں اس دنیا میں بھی کہ یہاں پر ایسے لوگ سکون دل اور اطمینان قلب کی دولت سے محروم ہوں گے۔ اور آخرت میں ان کے لیے دوزخ کی دہکتی بھڑکتی آگ ہوگی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا۔ ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشۃ ضنکا ونحشرہ یوم القیامۃ اعمی، یعنی جس نے ذکر اور میری یاد سے منہ موڑا اس کے لیے بڑی تنگ گذران ہے الایۃ (طہ : 124) سو اللہ پاک کے حکم سے اعراض و سرتابی میں سراسر ہلاکت و تباہی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور یوں بندے کے بندہ ہونے کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کا بندہ بن کررہے اور ہمیشہ دل وجان سے اسی کے حضور جھکا رہے۔ 61۔ حیات دنیا کی عظمت و اہمیت کا ایک خاص پہلو : آخرت کے اس ہولناک عذاب سے بچنے کے لیے جس کی اس دنیا میں کوئی نظیر و مثال ممکن ہی نہیں ہوسکتی۔ اس سے بچاؤ کا سامان اسی دنیا میں کیا جاسکتا ہے پس ان منکروں کو وہاں پر روئے زمین کی تمام دولت اور اسی کے برابر اور دولت بھی اگر بالفرض مل جائے اور وہ اس کو دے بھی دیں تو بھی وہ ان سے قبول ہونے والی نہیں۔ کیونکہ وہ جہان " دارالجزاء " ہے " دارالعمل " نہیں۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حیات دنیا کی یہ فرصت عمل جو آج ہمیں حضرت حق، جل مجدہ۔ کے کرم اور اس کی عنایت سے ملی ہوئی ہے کتنی بڑی اور کس قدر عظیم الشان دولت ہے کہ یہاں تھوڑی سی محنت اور معمولی سی پونچی سے جو کمائی کی جاسکتی ہے وہ وہاں پر اتنی بڑی دولت خرچ کرکے بھی حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ پس کتنے زیاں کار ہیں وہ لوگ جو دنیاوی زندگی کی اس فرصت اور ایسی انمول دولت کو لایعنی کاموں اور بےکار مشاغل میں ضائع کرتے ہیں۔ فایاک نسال یاربنا التوفیق والسداد لماتحب وترضی من القول والعمل فی کل لحظۃ من لحظات ھذہ الحیوۃ الدنیویۃ۔ فانک انت الموفق لکل خیروسعادۃ وانت المستعان فی کل حین وان۔ بہرکیف اس ارشاد ربانی سے حیات دنیا کی اہمیت کا یہ خاص پہلو پوری طرح واضح ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ایک ایک لمحے کو اس کے صحیح مصرف میں لگائے اور اس سے پورا استفادہ کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین۔ 62۔ علم حق و ہدایت سے محروم انسان اندھا ہوتا ہے : چنانچہ ارشاد فرمایا گیا اور بطوراستفہام ارشاد فرمایا گیا کہ بھلا جو شخص یہ جانتا ہو کہ جو کچھ آپ کی طرف اتارا گیا آپ کے رب کی طرف سے وہ اس کی طرح ہوسکتا ہے جو کہ اندھا ہو ؟ اور استفہام ظاہر ہے کہ انکاری ہے۔ یعنی نہیں یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ جیسا کہ ظاہر وباہر ہے۔ تو پھر مومن اور کافر کیونکر باہم برابر ہوسکتے ہیں ؟ سو مومن جنت کی سدا بہار نعمتوں سے سرفراز ہونے والا ہے۔ اور کافر نے دوزخ کی آگ میں جلنا ہے۔ تو یہ دونوں برابر کس طرح ہوسکتے ہیں ؟ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا (لایستوی اصحاب النار واصحاب الجنۃ) الایۃ (الحشر : 20) کہ دوزخی اور جنتی آپس میں برابر نہیں ہوسکتے۔ سو اس ارشاد میں پیغمبر اور آپ کے سچے پیروکاروں کے لیے تسکین وتسلیہ کا سامان ہے کہ جو لوگ دعوت حق کو قبول نہیں کرتے تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں کہ اس دعوت کو وہی لوگ قبول کرتے ہیں کن کی عقلیں خالص ہیں اور نہ ان کے دل صاف اور پاکیزہ ہوتے ہیں۔ پس جو لوگ اس دعوت پر لبیک نہیں کہتے قصور خود ان کا اپنا ہے۔ نہ ان کی عقلیں خالص ہیں اور نہ ان کے دل پاکیزہ۔ سو اس میں تہدیدو وعید بھی ہے اور تبشیر و تذکیر بھی یعنی منکرین کے لئے تہدیدو وعید ہے۔ کہ تم لوگوں کو انکار حق کا خمیازہ بہرحال بھگتنا ہوگا، جبکہ اہل حق کے لیے بشارت و خوشخبری ہے کہ تم لوگ راہ حق اور نور حق سے سرفراز ہو۔ 63۔ اولو الالباب سے مقصودومراد ؟ : سو اولوالالباب سے مراد عقل خالص رکھنے والے لوگ ہیں۔ اور ان کی پہلی صفت اللہ کے عہد کو پورا کرنا ہے۔ اس میں اللہ پاک کی وحدانیت کا وہ بنیادی عہد بھی داخل ہے جو عالم ارواح میں ان سے لیا گیا تھا۔ اور جو ان کی فطرت و طبیعت میں پیوست ہے اور جس کی تجدید انہوں نے کلمہ شہادت کے اقرار کے ذریعے باختیارخود کی۔ اور اسی کی تذکیر و یاددہانی کے لیے حضرات انبیائے کرام کو مبعوث فرمایا گیا۔ نیز اس میں اللہ پاک کے جملہ اوامرونواہی اور سب احکام خداوندی بھی داخل ہیں کہ اہل ایمان اپنے ایمان و عقیدہ کی بناء پر ان سب کی بجاآوری کا عہد کرتے ہیں۔ (قرطبی، فتح القدیر، روح المعانی، اور مدارک وغیرہ) ۔ سو " اولو الالباب " کی ان خاص صفات کے ذکر سے ایک طرف تو ان خوش نصیب اور پاکیزہ لوگوں کو نمایاں اور معین فرما دیا گیا کہ وہ ایسے اور ایسے لوگ ہوتے ہیں۔ اور دوسری طرف اس سے دنیا کے سامنے آئینہ رکھ دیا گیا کہ اس میں ہر کوئی اپنا چہرہ دیکھ لے اور اپنے بارے میں خود فیصلہ کرلے کہ وہ کس گروہ میں ہے اور کہاں کھڑا ہے ؟ اور یہ کہ اس کو کیا کرنا چاہئے ؟ اور کس سے سمجھنا اور ڈرنا چاہئے ؟
Top