Tafseer-e-Jalalain - Ar-Ra'd : 19
اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰى١ؕ اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِۙ
اَفَمَنْ : پس کیا جو يَّعْلَمُ : جانتا ہے اَنَّمَآ : کہ جو اُنْزِلَ : اتارا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف مِنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب الْحَقُّ : حق كَمَنْ : اس جیسا هُوَ : وہ اَعْمٰى : اندھا اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يَتَذَكَّرُ : سمجھتے ہیں اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
بھلا جو شخص یہ جانتا ہے کہ جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا حق ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو اندھا ہے ؟ اور سمجھتے تو وہی ہیں جو عقلمند ہیں۔
آیت نمبر 19 تا 26 ترجمہ : اور (آئندہ آیت) (حضرت) حمزہ اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی، کیا وہ شخص کہ جو یہ علم رکھتا ہو کہ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے جو اتارا گیا ہے وہ حق ہے اور اس پر ایمان بھی رکھتا ہے اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جو اندھا ہو، کہ نہ اس کو جانتا ہو اور نہ اس پر یقین رکھتا ہو، نہیں، نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہوتے ہیں، جو اللہ کے عہد (پیمان) کو پورا کرتے ہیں جو ان سے وقت لیا گیا تھا کہ جب وہ عالم ذر (یعنی چیونٹیوں) کی شکل میں تھے یا مطلقاً کسی عہد کو نہیں توڑتے، اور وہ ایمان یا فرائض کو ترک کرکے عہد کو توڑتے نہیں ہیں، اور جو اس کو جوڑتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور وہ (جس کا حکم دیا ہے) ایمان لانا ہے اور صلہ رحمی کرنا ہے وغیرہ وغیرہ، اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں یعنی اس کی وعید سے، اور برے حساب سے ڈرتے ہیں (اس جیسی آیت) سابق میں گذر چکی ہے، اور وہ اپنے رب کی رضا مندی کی طلب کیلئے نہ کہ دنیاوی کسی غرض کیلئے طاعت پر اور مصیبت پر اور معصیت سے باز رہنے پر صبر کرتے ہیں اور نمازوں کو برابر قائم رکھتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے طاعت میں ظاہر اور پوشیدہ طور پر خرچ کرتے ہیں، اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں مثلاً جہل کو بربادی سے اور تکلیف کو صبر سے یہی تو ہیں وہ جن کیلئے آخرت کا گھر ہے، یعنی دار آخرت میں اچھا انجام وہ جنت ہے جس میں وہ مقیم رہیں گے جہاں وہ خود بھی جائیں گے اور ان کے آباء اور ازواج اور اولاد میں سے جو ایمان لائے ہوں گے وہ بھی جائیں گے اگرچہ انہوں نے ان کے جیسا عمل نہ کیا ہو وہ بھی ان ہی کے درجوں میں ہوں گے اور یہ ان کے اکرام کے طور پر ہوگا، اور فرشتے ان کے پاس جنت کے پر دروازہ سے آئیں گے یا محفلوں کے ہر دروازہ سے آئیں گے، فرشتوں کا دخول اوّلی مبارکبادی کیلئے ہوگا وہ کہیں گے تمہارے اوپر سلامتی ہو یہ اجر وثواب تم کو اس صبر کے بدلے میں ہے کہ جو تم نے دنیا میں کیا، کیا ہی اچھا بدلہ ہے تمہارے لئے دار آخرت کا اور جو لوگ اللہ کے عہد کو اس کی پختگی کے بعد توڑتے ہیں اور جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے، اسے توڑتے ہیں، اور کفر و معاصی کے ذریعہ زمین میں فساد برپا کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے اوپر لعنت ہے (یعنی) اللہ کی رحمت سے دوری ہے، اور ان کیلئے براگھر ہے، یعنی آخرت میں ان کیلئے برا انجام ہے اور وہ جہنم ہے، اللہ جس کی روزی چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے اور جس کی چاہتا ہے گھٹا دیتا ہے اور اہل مکہ تو دنیوی زندگی میں اترا کر مست ہوگئے، یعنی اس پر جو ان کو دنیوی زندگی میں حاصل ہوا اور دنیوی زندگی آخرت کی زندگی کے مقابلہ میں نہایت حقیر پونجی ہے، اس سے استفادہ کرتا ہے اور (پھر) چھوڑ کر (دنیا سے) رخصت ہوجاتا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : اَفَمَنْ یَعْلَمُ ہمزہ فعل محذوف پر داخل ہے اور فاء عاطفہ ہے تقدیر عبارت یہ ہے أیَسْتوی المؤمن والکافر فمن یعلم الخ۔ قولہ : لا اس میں اشارہ ہے کہ استفہام انکاری بمعنی نفی ہے۔ قولہ : اُولٰئِکَ لَھُمْ عُقْبَی الدار یہ جملہ الذین صبروا مبتداء کی خبر ہے۔ قولہ : ھِیَ اس میں اشارہ ہے کہ جنّٰتُ عدنٍ مبتداء محذوف کی خبر ہے نہ کہ عُقْبَی الدار سے بدل جیسا کہ بعض لوگوں نے کہا ہے قولہ : یدخلوانَھا ھم۔ سوال : ھم مقدر ماننے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟ جواب : تاکہ مَنْ صَلحَ کا عطف یدخلونھا کی ضمیر پر درست ہوجائے، اسلئے کی ضمیر مرفوع متصل پر عطف کیلئے ضمیر منفصل کے ذریعہ تاکید لانا ضروری ہوتا ہے۔ قولہ : یقولون، یقولون کو مقدر مانا تاکہ کلام مربوط منظم ہوجائے۔ قولہ : بما نالوا فیھا، یعنی دنیوی زندگی تو ہر شخص کو حاصل ہے نفس زندگی پر اترانا مراد نہیں ہے بلکہ دنیاوی زندگی میں ان کو جو کچھ حاصل ہوا اس پر اترانا اور بےجا فخر کرنا مراد ہے۔ تفسیر و تشریح افمن یعلم۔۔۔ الخ یعنی ایک وہ شخص جو قرآن کی حقانیت اور صداقت پر یقین رکھتا ہو اور دوسرا اندھا ہو یعنی اسے قرآن کی صداقت میں شک ہو، کیا دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ استفہام انکار کیلئے ہے یعنی یہ اسی طرح برابر نہیں ہوسکتے جس طرح جھاگ پانی کے، اور سونا چاندی اور ان کا میل کچیل برابر نہیں ہوسکتے۔ اور جن کے پاس عقل سلیم اور قلب صحیح نہ ہو اور انہوں نے اپنے دلوں کو گناہوں کی کثافت سے آلودہ اور اپنی عقلوں کو خراب کرلیا ہو وہ اس قرآن سے نصیحت حاصل نہیں کرسکتے، الذین یؤمنون بعھد اللہ الخ یہ اہل دانش کی صفات بیان کی جارہی ہیں۔ سوال : اللہ کے عہد سے کیا مراد ہے۔ جواب : اللہ کے عہد سے مراد اس کے احکام (اوامرو نواہی) ہیں جنہیں وہ نجالاتے ہیں، یا وہ عہد ہے جو عہد الست کہلاتا ہے، اور عہد و پیمان میں وہ قول وقرار بھی داخل ہیں جنہیں لوگ آپس میں کرتے ہیں۔ اور اہل دانش کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ کسی سے بھی کئے گئے عہد و میثاق کی خلاف ورزی نہیں کرتے ان میں وہ عہد و پیمان بھی شامل ہیں جو اللہ سے کئے ہیں اور وہ بھی جو اللہ کے رسول کیلئے ہوں اور آپسی عہد و معاہدے بھی۔ والذین یصلون۔۔۔ الخ یعنی رشتوں اور قرابتوں کو توڑتے نہیں ہیں بلکہ ان کو جوڑتے اور قائم رکھتے ہیں مشہور تفسیر تو یہی ہے کہ رشتہ داری کے تعلقات کو قائم رکھتے ہیں اور ان کے تقاضوں پر عمل کرتے ہیں، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان کے ساتھ عمل صالح کرتے ہیں یا آنحضرت ﷺ اور قرآن پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ پچھلے انبیاء اور ان کی کتابوں پر ایمان کو ملا دیتے ہیں۔ (معارف) اللہ کی نافرمانیوں اور گناہوں سے بچتے ہیں تکلیفوں اور آزمائشوں پر صبر کرتے ہیں، اور حدود اللہ سے تجاوز کرکے من مانی زندگی بسر نہیں کرتے، اور جب خرچ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو اپنوں اور بیگانوں میں امتیاز کئے بغیر علانیہ اور پوشیدہ طور پر خرچ کرتے ہیں اور اگر کوئی انکے ساتھ برائی سے پیش آتا ہے وہ بھلائی سے پیش آتے ہیں یا عفو درگذر اور صبر جمیل سے کام لیتے ہیں یدخلونھا۔۔۔ (الآیۃ) یعنی اس طرح اللہ تعالیٰ قرابتداروں کو جمع کر دے گا تاکہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں حتی کے ادنی درجہ کے جنتی کو اعلی درجہ عطا فرما دے گا تاکہ وہ اپنے قرابتداروں کے ساتھ جمع ہوجائیں اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نیک رشتہ داروں کو جمع فرما دے گا اور جس کے پاس ایمان کو پونجی نہیں ہوگی وہ جنت میں نہیں جائیگا خواہ وہ جنتی کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔
Top