Baseerat-e-Quran - Al-Anbiyaa : 30
اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا١ؕ وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ١ؕ اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَ : نہیں دیکھا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْٓا : انہوں نے کفر کیا اَنَّ : کہ السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین كَانَتَا : دونوں تھے رَتْقًا : بند فَفَتَقْنٰهُمَا : پس ہم نے دونوں کو کھول دیا وَجَعَلْنَا : اور ہم نے کیا مِنَ الْمَآءِ : پانی سے كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے حَيٍّ : زندہ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ : کیا پس وہ ایمان نہیں لاتے ہو
کیا وہ کافر اس بات پر غور نہیں کرتے کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے ہم نے ان دونوں کو کھول دیا۔ (الگ الگ کردیا) اور پانی سے ہم نے ہر چیز کو زندہ کیا۔ کیا پھر بھی وہ ایمان نہ لائیں گے
لغات القرآن آیت نمبر 30 تا 33 رتق ایک دوسرے میں گھسے ہوئے۔ ملے ہوئے۔ فتقنا ہم نے الگ الگ کردیا۔ جدا کردیا۔ حی زندہ۔ رواسی (راسیۃ) بوجھ، جمی ہوئی چیزیں، بوجھل۔ ان تمید یہ کہ جھک پڑے، ایک طرف کو ڈھلک جائے۔ فجاج (فج) کھلے ہوئے پہاڑی درے۔ سقف چھت، سائبان۔ فلک گول چیز، گھومنا، مدار۔ یسبحون وہ تیرتے ہیں۔ بلا روک ٹوک راستے پر چلتے ہیں۔ تشریح : آیت نمبر 30 تا 33 وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی ذات ، اس کی قدرت کا ملہ اور آخرت کا انکار کرتے ہیں ان سے فرمایا جا رہا ہے اس اللہ نے انسان کے اس دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے ہی زمین و آسمان کو پیدا کر کے سارے اسباب مہیا کردیئے تھے پانی کو پیدا کیا تاکہ اس کے ذریعے ہر چیز کو زندگی مل جائے۔ بلند وبالا پہاڑوں کو زمین میں میخوں کی طرح گاڑ کر بھاری بوجھ رکھ دیئے تاکہ یہ زمین ادھر ادھر ڈھلک نہ جائے اور تو ازن برقرار رہے۔ آنے اور جانے کے راستے بنا دیئے تاکہ ایک دوسرے سے ملنے جلنے اور سامان لانے لے جانے میں سہولت حاصل رہے۔ آسمان کو ایک محفوظ چھت کی طرح بنا دیا تاکہ کائنات کے جراثیم اور نقصان دینے والی چیزیں دنیا والوں تک نہ پہنچ سکیں رات اور دن کا ایک ایسا نظام بنا دیا کہ کبھی رات ہے، کبھی دن ہے، کبھی کی راتیں بڑی اور کبھی کے دن بڑے۔ اس نظام سے ہر طرح کے موسم بنا دیئے تاکہ یکسانیت سے دل اچاٹ نہ ہوجائے۔ اسی طرح سورج، چاند اور ستاروں کو ایک مربوط اور لگے بندھے نظام میں جکڑ دیا۔ تاکہ وہ ایک دوسرے سے نہ ٹکرائیں اور ہر ایک اپنے دائرے میں گھومتا رہے۔ فرمایا گیا کہ اب یہ انسان کی عقل و فہم اور بصیرت پر ہے کہ وہ اس بات پر اچھی طرح غور اور فکر کر کے دیکھ لے کہ اتنے بڑے نظام کائنات کو پیدا کر کے اس کو چلانے والی کوئی ہستی ہے یا نہیں ؟ یقینا ہر شخص کے دل سے یہی صدا بلند ہوگی کہ ایک معمولی سی چیز بھی خود بخودپیدا ہو کر کام نہیں کرسکتی۔ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ہوتا ہے۔ یقینا اس کائنات کو بھی کسی نے بنا کر اس کا انتظام سنبھال رکھا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے۔ جو تنہا اس نظام کائنات کو چلا رہی ہے اور وہ اس کے چلانے اور سنبھالنے میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ” رتق اور فتق “ دو لفظوں میں کائنات کی ابتدا کی پوری تاریخ کو سمو دیا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس سے جب اس آیت کی تفصیل معلوم کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ پہلے آسمان بند تھا پانی نہ برساتا تھا اور اسی طرح زمین بھی بند تھی جو (بغیر پانی کے) نباتات نہ اگاتی تھی جب اللہ تعالیٰ نے زمین پر انسان کو آباد کیا تو آسمان کی بارش کھول دی اور اس طرح زمین کی نشو و نما کو بھی کھول دیا گیا (تفسیر ابن کثیر) حضرت ابن عباس کی اس تشریح اور تفسیر سے ابتدائے کائنات کی تفصیل معلوم ہوئی جس پر جمہور علما اور مفسرین کا اتفاق ہے۔ ہمارا موجودہ دور سائنسی معلومات اور تحقیقات کا دور ہے جس میں لوگوں کے پاس ایسے وسائل موجود ہیں۔ جن کے ذریعے اس کائنات کے پوشیدہ راز معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ موجودہ سائنس دانوں کا یہ خیال اور تحقیق ہے کہ یہ کائنات کھولتے ہوئے بیحد گرم پگھلے ہوئے دھاتوں کا ایک ایسا مجموعہ تھی جس کے اجزا ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ اچانک اس مادے میں ایک زبردست دھماکہ ہوا جس کو بگ بینگ (Big Gang) کہا جاتا ہے اس سے ابتدائی حصے کو الگ ہونے میں ایک سیکنڈکا ہزاروں حصہ لگا۔ یعنی اس قدر جلد ہوا کہ اس کے مادے کو الگ ہونے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگا اور اس کے نتیجے میں اس کائنات نے وجود اختیار کیا اور اس میں ہماری دنیا اور اس میں انسانی ضرورتوں کی ہر چیز پیدا ہوئی۔ اسی مقام پر قرآن کریم ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ اللہ جب کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کو وسائل ذرائع اور اسباب کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ اس کو ” کن “ (ہوجا) کہتا ہے اور وہ چیز ہوجاتی ہے یعنی جتنی دیر میں ان دو حرفوں ” کن “ کی ادائیگی کی جاتی ہے شاید اس میں بھی دیر لگتی ہے اس سے بھی پہلے وہ کام ہوجاتا ہے۔ ابھی آپ نے سائنسدانوں کی تحقیق سے اندازہ کرلیا ہوگا۔ کہ ایک شدید اور عظیم مادے کو پھٹنے اور دنیائیں بننے میں گھنٹے یا منٹ نہیں بلکہ ایک سیکنڈ کا ہزارواں حصہ لگا ہے جو اللہ کی قدرت کا ملہ کا اظہار ہے۔ بہرحال یہ تو علمی تحقیقات ہے جس کا سلسلہ قیامت تک چلتا ہی رہے گا اصل چیز یہ ہے کہ یہ دنیا خود بخود نہیں بن گئی ہے بلکہ اللہ رب العالمین نے ان تمام چیزوں کو پیدا فرمایا ہے آج دنیا اللہ کی قدرت کو ماننے پر مجبور ہے اور انسان جتنی بھی ترقی کرتا جائے گا۔ اس کو یہ ماننا ہی پڑے گا کہ اس کائنات کو اللہ نے پیدا کیا ہے وہی اس کا نگران ہے۔ اسی کا قانون چلتا ہے۔ ان آیات میں دوسری چیز جو انسانوں کے لئے عظیم نعمت ہے وہ پانی ہے۔ اگر پانی نہ ہوتا تو انسانی زندگی ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کی ہر چیز میں زندگی نہ ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے سورة نور میں بھی فرمایا کہ ” اللہ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ہے۔ “ موجودہ تحقیق کے مطابق ہماری اس زمین کے سوا کہیں کسی ستارے اور سیارے میں پانی موجود نہیں ہے انسان نے جب چاند پر قدم رکھا تو اس کو آکسیجن اور پانی اسی دنیا سے لے کر جاناپڑا کیونکہ چاند پر آکسیجن اور پانی کا وجود نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ نے پانی کو ایک بہت بڑی اور انمول نعمت بنایا ہے جو تمام جان داروں کے لئے ہے، یہ ان کی ضرورت ہے، جہاں انسان یا جان دار آباد نہیں ہے وہاں حیات کا یہ چشمہ بھی موجود نہیں ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے زمین کی سطح کو پائے دار بنانے اور بقا کے لئے پہاڑوں کی شکل میں بڑے بڑے وزن رکھ دیئے ہیں تاکہ اس دنیا کا تو ازن برقرار رہے اور یہ دنیا انسانوں کے وزن سے ادھر ادھر ڈھلک نہ جائے یہ پہاڑ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ اگر پہاڑ نہ ہوتے تو یہ زمین اپنا تو ازن کھو بیٹھتی اور ایک خیمہ تک اس پر نہ ٹکتا۔ موجودہ تحقیق یہ ہے کہ یہ پہاڑ زمین کے مرکز میں بھڑکتی ہوئی آگ کو بھی قابو میں رکھے ہوئے ہیں۔ اگر پہاڑ نہ ہوتے تو مسلسل اور متواتر نہ رکنے والے زلزلوں کا سامنا کرنا پڑتا اور زمین پر معمولی سی عمارت بنانا بھی مشکل ہوجاتا حالانکہ اسی زمین پر بڑے بڑے شہر آباد ہیں اور عظیم الشان بلڈنگیں بنی ہوئی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا۔ اگر چند منٹ تک زلزلہ آتا رہے تو عظیم الشان بلڈنگیں مٹی کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔ ان زلزلوں کو روکنے میں اللہ کی طرف سے پہاڑوں کو بھی بہت کچھ دخل ہے۔ دوسرے یہ کہ پہاڑ آنے والی نسلوں کے لئے ان کی زندگی کا سامان امانت کے طور پر اپنے اندر لئے ہوئے ہیں۔ آتش فشاں پہاڑ جب اپنے اندر موجود دھاتوں کو اگلتے ہیں تو یہ بھی انسانوں کے فائدے کی چیزیں بن جاتی ہیں۔ پہاڑوں سے (1) پہلا فائدہ تو ہے کہ یہ زمین میں بوجھ بنا کر رکھ دیئے گئے ہیں (2) دوسرا فائدہ یہ ہے کہ یہ پہاڑ زبردست زلزلوں کو کنٹرول میں رکھے ہوئے ہیں (3) تیسرا فائدہ یہ ہے کہ پہاڑوں کے اندر اللہ نے جو دھاتیں رکھ دی ہیں اگر وہ آتش فشاں پہاڑوں کے ذریعہ باہر نہ نکلتیں تو پہاڑوں کا آتش فشاں مادہ زمین کو پھاڑ کر رکھ دیتا اور انسانی زندگی تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نے پہاڑوں کو ہر اعتبار سے ایک تو ازن قائم کرنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ پانی اور پہاڑوں کی طرح ایک تیسری نعمت کا بھی اظہار فرمایا ہے اور وہ ہیں آنے جانے اور میل ملاپ کے راستے، اگر یہ راستے نہ ہوتے تو انسانوں کو ترقیات میں آگے بڑھنے کے موقعے نہ ملتے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا کس قدر دشوار ہوجاتا ہے۔ موجودہ دور میں اللہ نے انسانوں کو برو بحر اور فضاؤں پر کیسی عظمت عطا فرمائی ہے کہ اس نے ہواؤں میں فضاؤں میں سمندروں اور پہاڑوں میں ایسے ایسے راستے بنا دیئے ہیں جن سے وہ نہایت سہولت کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو آج کی ترقیات کا بہت کچھ دار و مدار ان ہی راستوں اور آمد و رفت پر ہے۔ اللہ نے فضاؤں کو سمندروں، پہاڑوں اور خشکی کے راستوں کو انسان کے لئے نعمت بنا دیا ہے۔ پانی، پہاڑ اور آنے جانے کے راستوں کے علاوہ آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا ہے۔ اصل میں ” السمائ “ کے معنی بلندی کے آتے ہیں یعنی جو ہمارے اوپر ہے اس میں بھی موجودہ تحقیق یہ ہے کہ اللہ نے ہماری دنیا پر ایک غلاف سا چڑھا دیا ہے۔ جس کو ” اوزون “ کہتے ہیں اس کا کام یہ ہے کہ کائنات سے آنے والے جراثیم اور ہزاروں قسم کے نقصان دینے والی چیزوں کو اس دنیا میں پہنچنے سے روکنے کا کام اس سے لیا گیا ہے۔ اس لئے اس کو صرف چھت نہیں فرمایا بلکہ ” محفوظ چھت “ کا نام دیا ہے۔ سورج کی شدید ترین تیز و تند گرمی کو روکنے کا بھی یہی ایک ذریعہ ہے۔ آج کے انسانوں نے اپنے کیمیکل وغیرہ سے اس محفوظ چھت (اوزون) کو شدید نقصان پہنچا دیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہا تو اس سے انسانوں کی صحت اور مفادات کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ” محفوظ چھت “ اللہ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے۔ اسی طرح رات اور دن کا آنا جانا۔ رات اور دن کے اوقات کا بدلتے رہنا بھی نعمت سے کم نہیں ہے کیونکہ اگر دن ہی دن ہوتا یا رات ہی رات ہوتی تو نہ لوگوں کو آرام ملتا اور نہ کام کاج ہوتا۔ اللہ نے اسک کا ایک ایسا نظام بنایا ہے کہ کبھی کی راتیں بڑی ہوتی ہیں کبھی کے دن، اس سے موسموں میں تغیر بھی آتا ہے اور اس سے سردی گرمی، بہار اور خزاں کے موسم بھی بنتے ہیں اور انسان کے لئے اکتا دینے والی یکسانیت پیدا نہیں ہوتی اور آخری جس نعمت کا ذکر فرمایا گیا ہے ۔ وہ ہے چاند، سورج، ستاروں اور سیاروں کا ایک دائرے میں چلنا۔ اگر یہ اپنی چال بھول جائیں تو یہ ساری کائنات آپس میں ٹکرا جائے۔ چونکہ اللہ نے اس کا نظام اپنے ہاتھ میں رکھا ہے تو کسی مجال نہیں ہے کہ وہ اپنی رفتار یا چال سے ایک قدم بھی آگے بڑھا سکے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان بنائے۔ پانی کے چشمے بہا دیئے، زمین پر پہاڑوں کے بوجھ رکھ دیئے۔ آسمان کو محفوظ چھت بنا دیا، رات اور دن کا نظام ائم فرمایا اور چاند سورج، ستاروں اور سیاروں کو اس طرح اپنے قابو میں رکھا ہوا ہے کہ ہر ایک اپنے محور اور مرکز کے گرد گھوم رہا ہے۔ یہ سب کچھ محض اللہ کی قدرت اور طاقت سے ہی ممکن ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اس نظام کائنات کو نہ چلا رہے ہوتے تو اس کائنات کا نظام ایک دن میں تباہ و برباد ہو کر رہ جاتا۔ ہمیں اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہمیں یہ اور اس قسم کی ہزاروں نعمتوں سے نوازا ہے۔ اللہ ہم سب کو شکر ادا کرنے اور حسن عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ کیونکہ جس طرح اللہ نے دنیا کی اس مختصر سی زندگی کے لئے ہر طرح کے اسباب کا نظام بنایا ہے اس نے قیامت کے دن اپنے نیک اور مومن بندوں کے لئے کیا کچھ تیار کر کے نہ رکھا ہوگا۔ یہ زندگی تو چند برسوں کے اندر محدود ہے جو ایک وقت پر آکر ختم ہوجائے گی لیکن آخرت کی زندگی کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس آخرت کی پوری طرح تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Top