Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Anbiyaa : 30
اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا١ؕ وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ١ؕ اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ
اَوَ
: کیا
لَمْ يَرَ
: نہیں دیکھا
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
كَفَرُوْٓا
: انہوں نے کفر کیا
اَنَّ
: کہ
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَالْاَرْضَ
: اور زمین
كَانَتَا
: دونوں تھے
رَتْقًا
: بند
فَفَتَقْنٰهُمَا
: پس ہم نے دونوں کو کھول دیا
وَجَعَلْنَا
: اور ہم نے کیا
مِنَ الْمَآءِ
: پانی سے
كُلَّ شَيْءٍ
: ہر شے
حَيٍّ
: زندہ
اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ
: کیا پس وہ ایمان نہیں لاتے ہو
کیا نہیں غور کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے کہ بیشک آسمان اور زمین بند تھے ، پس ہم نے ان کو کھول دیا۔ اور بخشی ہم نے پانی سے ہر چیزکو حیات۔ کیا یہ یقین نہیں رکھتے
ربط آیات : ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کا ذکر کیا۔ پھر شرک کرنیوالوں کی تردید فرمائی اور توحید کے دلائل بیان کیے۔ انبیاء کے متعلق فرمایا کہ وہ سب اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے بیان کرنے پر متفق تھے۔ اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے وحدانیت کے حق میں بعض دلائل کی طرف اشارہ فرمایا ہے ، اور کفر کرنے والوں کا رد کیا ہے ۔ فرمایا ہے کہ اگر لوگ ان دلائل میں غوروفکر کریں تو اللہ کی وحدانیت آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے مگر یہ لوگ ایسا نہیں کرتے۔ رئویت کا مفہوم : ارشاد ہوتا ہے اولم یرالذین۔۔۔۔۔ کیا نہیں دیکھا ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کا شیوہ اختیار کیا۔ یہاں پر رئویت کا معنی غور وفکر کرنا اور جاننا ہے۔ یعنی کیا ان لوگوں نے اس بات میں غور وفکر نہیں کیا ؟ یا یہ کہ ان لوگوں کو معلوم نہیں ہوا ؟ رئویت آنکھ سے بھی ہوتی ہے اور دل سے بھی ۔ آنکھ کی رئویت یعنی بصارت دیکھنے کے معنی میں آتی ہے جب کہ دل کی رئویت یعنی بصیرت جاننے کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ ان اصطلاحات کا ذکر قرآن پاک میں کثرت سے ہوا ہے۔ جیسے سورة البقرہ میں ہے الم ترالی……………دیارھم (آیت 243) کیا نہیں دیکھا آپ نے ان لوگوں کو جو اپنے گھروں سے نکلے تھے۔ اس آیت کریمہ میں حضور ﷺ کی توجہ ہزاروں سال پہلے پیش آنے والے واقعہ کی طرف مبذول کرائی گئی ہے جب کہ کسی پہلی امت کے لوگ موت کے ڈر سے ہزاروں کی تعداد میں گھروں سے نکل کھڑے ہوئے۔ مگر وہ موت کو ٹال نہ سکے اور اللہ نے انہیں راستے میں ہی موت سے ہمکنار کردیا اور پھر عجیب و غریب طریقہ سے دوبارہ زندگی نصیب ہوئی۔ ظاہر ہے کہ اس وقت حضور ﷺ تو اس دنیا میں موجود نہیں تھے جب یہ واقعہ پیش آیا ، لہٰذا اس رئویت سے مراد رئویت قلبی اور جاننے کے معنوں میں آئی ہے۔ یعنی آپ نے نہیں جانا کہ لوگ اپنے گھروں سے نکل پڑے۔ اسی طرح کی دوسری مثال سورة بقرہ ہی کی آیت 258 میں ہے الم ترالی…………فی ربہ کیا آپ نے نہیں دیکھا یعنی نہیں معلوم کیا اس شخص کو جس نے ابراہیم علیہالسلام سے آپ کے رب کے بارے میں جھگڑا کیا اسی طرح سورة الفیل میں فرمایا الم ترکیف…………الفیل (1) کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ یہ واقعہ بھی حضور ﷺ کی پیدائش سے پہلے کا ہے لہٰذا یہاں بھی رئویت سے بصارت مراد نہیں بلکہ جاننا یا معلوم کرنا مراد ہے کہ ہم نے علم کے ذریعے آپ کو بتلا دیا ہے کہ فلاں فلاں واقعہ اس طرح پیش آیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو مزید وضاحت سورة یوسف میں فرمادی۔ سارا واقعہ بیان کرنے کے بعد فرمایا ذلک من……… …لدیھم (آیت 102) یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں ، کیونکہ آپ خود تو ان کے پاس اس وقت نہیں تھے۔ گویا یہ بات آپ کو بذریعہ علم معلوم ہوئی۔ بعض لوگ ایسی ہی آیات سے حضور ﷺ کو حاضر وناظر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا ، کیا آپ نے دیکھا ؟ اس کا مطلب ہے کہ آپ وہاں موجود تھے ، جبھی تو دیکھا ، مگر اللہ نے سورة یوسف کی مذکورہ آیت اور اس قسم کی بعض دوسری آیات میں اس مسئلہ کو حل فرمادیا ہے کہ ایسے واقعات آپ (علیہ السلام) نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھتے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کا علم آپ کو بذریعہ وحی عطا کیا تھا۔ فرمایا کیا ان لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ؟ اگر معلوم نہیں تو اب ہوجائے گا ان السموت ولارض کانتا وتقا ففتقنھما کہ بیشک آسمان اور زمین دونوں بند تھے پھر ہم نے دونوں کو کسول دیا۔ یہاں پر رتق اور فتق کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ یہ دونوں مصدر ہیں اور مفعول کے معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی پہلے آسمان اور زمین مرتوق یعنی بند تھے ، پھر مفتوح یعنی کھل گئے ، آسمان و زمین کی بندش اور کشادگی کے متعلق مفسرین کرام دو طرح سے تفسیر بیان کرتے ہیں۔ رائیس المفسرین حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ آسمانوں کی بندش کا مطلب یہ ہے کہ آسمان سے بارش کا نزول رک گیا تھا اور زمین کی بندش یہ ہے کہ زمین سے روئیدگی ختم ہوچکی تھی۔ نہ بارش ہوتی تھی اور نہ سبزہ پھل اور اناج پیدا ہوتے تھے۔ خشک سالی کی وجہ سی زمین کے چشمے بھی خشک ہوچکے تھے۔ ایسی صورت میں اگر نہریں بھی نہ ہوں ، اور کنوئیں کا پانی بھی خشک ہوجائے تو سخت مشکل پیش آتی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ خروج دجال کے زمانے میں بڑے قحط پڑیں گے۔ آسمان و زمین بند ہوجائیں گے اور سخت قسم کی خشک سالی ہوگی۔ اور فتق یعنی کھولنے سے مراد یہ ہے کہ پہلے تو آسمان اور زمین بند تھے پھر ہم نے ان کو کھول دیا یعنی آسمان سے بارش برسنے لگی اور زمین سے پھل ، غلہ اور سبزہ اگنے لگا۔ فرمایا کہ دیکھو اللہ تعالیٰ ایک حالت کو کس طریقے سے دوسری حالت میں بدل دیتا ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیل ہے جس کا لوگ ہر روز مشاہدہ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آسمان کی طرف سے بارش برسانا اور زمین سے چارہ ، سبزیاں اور غلہ اگانا اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت کاملہ کا شاہکار ہے۔ لہٰذا لوگوں کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لے آئیں ، مگر ان کافروں پر اس مشاہدہ قدرت کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ بعض دوسرے مفسرین کرام رتق اور رفتق کو دوسرے معانی پر محمول کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ رتق کا معنی اتصال ہوتا ہے۔ یعنی پہلے ارض وسماء آپس میں ملے ہوئے تھے ۔ تخلیق سے پہلے ان کا مادہ ایک ہی تھا ، پھر ففتقنھما ہم نے ان دونوں کو جدا جدا کردیا۔ گویا فتق کا معنی جدا جدا کردینا ہے۔ بعض دوسری سورتوں میں بھی ہے کہ زمین اور آسمان ابتداء میں ایک تاریک مادے کی شکل میں تھے۔ پھر زمین کو الگ اور آسمان کو الگ کردیا گیا اور ان کے طبقات بنادیئے گئے۔ بہرحال فرمایا کہ کیا کافر لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ قرآن پاک کی اطلاع کے مطابق ارض وسما ملے ہوئے تھے ، پھر اللہ نے ان کو الگ الگ کردیا۔ اور یہ کام صرف اللہ وحدہ لاشریک کا ہی ہوسکتا ہے۔ جب زمین وآسمان کا موجودہ نظام اپنی مدت پوری کرلے گا ، تو اللہ تعالیٰ پھر انہیں گڈمڈ کرکے پورے نظام کو درہم برہم کردیگا ، آسمان زمین اور ان میں موجود تمام آسمانی کرے ٹوٹ پھوٹ جائیں گے اور پورا نظام شمسی ختم ہوجائے گا۔ تو فرمایا کیا ہ کافرلوگ اس بات کو نہیں جانتے یا اس بات پر غور نہیں کرتے کہ ارض وسما پہلے ملے ہوئے تھے ، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو علیحدہ علیحدہ کردیا۔ زندگی بخش پانی : پھر فرمایا وجعلنا من الماء کل شیء حی افلا یومنون ہم نے پانی کے ذریعے ہر چیز کو زندگی بخشی۔ ظاہر ہے کہ تمام جانداروں بلکہ نباتات کی زندگی کا انحصار بھی پانی پر ہے۔ پانی کے بغیر نہ کوئی جاندار زیادہ دیر تک زندہ رہ سکتا ہے اور نہ درخت اور کھیتیاں۔ اللہ نے کچھ مخلوق ایسی بھی پیدا کی ہے جو ہمیشہ پانی میں رہتی ہے اور اگر وہ تھوڑی دیر کے لئے بھی پانی سے باہر آجائے تو زندہ نہیں رہ سکتی۔ مچھلیاں ، مینڈک ، مگرمچھ اور کیڑے مکوڑے اللہ کی کتنی ہی مخلوق ہے جو پانی کے اندر ہی پیدا ہوتی ہے ، وہیں زندگی گزارتی ہے اور پھر وہیں مرجاتی ہے۔ اس لئے فرمایا کہ ہم نے پانی کے ذریعے ہر چیز کو زندگی بخشی ، گویا پانی مبداء حیات ہے۔ پانی سے مراد نطفہ بھی ہوسکتا ہے۔ اللہ نے قطرہ آب سے انسان جیسی اشرف المخلوقات ہستی کو پیدا کیا ۔ اگرچہ فرشتوں کو نور سے اور جنات کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے مگر زمین کی اکثر مخلوق بشمول چرند ، پرند ، کیڑے مکوڑے سے اور ہر قسم کے حیوانات کو پانی کے ذریعے ہی حیات نصیب ہوتی ہے۔ ہر جاندار کے مادہ حیات میں پانی کی کثرت ہوتی ہے۔ انسانی زندگی کا انحصار دوران خون پر موقوف ہے اور جدید تحقیق کے مطابق خون میں اسی فیصد پانی اور باقی بیس فیصد دیگر اجزاء ہیں۔ تو اس لحاظ سے بھی کہاجاسکتا ہے کہ انسانی زندگی کا انحصار پانی پر ہے۔ اگر کسی جاندار کے جسم میں پانی کی کمی پیدا ہوجائے تو خون منجمند ہو کر رہ جاتا ہے اور انسان اور جانور ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ کیا یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح جانداروں اور نباتات کو پانی کے ذریعے زندگی بخشی ہے۔ یہ اس کی وحدانیت کی دلیل ہے۔ بوجھل پہاڑ : اللہ تعالیٰ نے یہ احسان بھی جتلایا وجعلنا فی الارض رواسی اور بنائے ہم نے زمین میں بوجھل پہاڑ۔ ان تمیدبھم تاکہ زمین ان کے ساتھ مضطرب نہ ہو۔ زمین کا اضطراب دو طرح سے ہو سکتا ہے۔ ایک یہ کہ زمین جمی رہے اور ڈولنے نہ پائے یعنی اس کا توازن برقرار رہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ سمندروں اور دریائوں میں چلنے والے جہازوں اور کشتیوں پر پتھر وغیرہ ڈال کر ان کو بوجہل بنادیا جاتا ہے تاکہ کشتی یا جہاز پانی کی تندوتیز لہروں میں ڈولنے نہ پائے ، زمین بھی دیگر کروں کی طرح ایک کرہ ہے جو فضا میں تیررہا ہے چونکہ یہ کسی دوسری چیز پر ٹکی ہوئی نہیں ہے اس لئے اس میں اضطراب پیدا ہونا قدرتی امر ہے۔ تو اس امکان کو ختم کرنے کے لئے الل نے اس پر بڑے بڑے پہاڑوں کی صورت میں بوجھ ڈال دیا ہے ، دنیا میں جتنے بھی بڑے بڑے پہاڑ ہیں وہ اسی مقصد کے لئے اللہ نے پیدا کیے ہیں۔ زمین کے اضطراب کا دوسرا معنی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) یہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم نے زمین میں بوجھل پہاڑ قائم کردیے ہیں تاکہ انسانی حیات میں اضطراب پیدا نہ ہو۔ اللہ نے پہاڑوں میں انسانی ضروریات کی بہت سی چیزیں مثلاً پتھر ، درخت ، چشمے ، اور قسم قسم کی مع دنیات پیدا کی ہیں جو انسان کی روزمرہ زندگی میں کام آتی ہیں۔ اگر پہاڑ نہ ہوتے تو یہ چیزیں بھی نہ ہوتیں اور اس طرح انسانی زندگی مضطرب رہتی۔ کشادہ راستے : فرمایا ا کی تو ہم نے زمین میں پہاڑ پیدا کیے۔ وجعلنا فیھا فجاجا سبلا اور پھر ان میں کشادہ راستے بھی بنائے۔ دنیا میں بڑے بڑے لمبے اور بڑے بڑے سر بفلک پہاڑ موجود ہیں۔ کوہ ہمالیہ کھٹمنڈو سے لے کر ایران تک تین ہزار میل لمبا ہے اور اس کی بلندترین چوٹی مونٹ ایورسٹ دنیا کی بلند ترین چوٹی ہے۔ اگر ایسے دشوار گزار پہاڑوں میں راستے یعنی درے نہ ہوتے تو ایک ملک کے لوگ دوسرے ملک میں نہ جاسکتے اور لوگ ایک ہی جگہ میں مسدود ہو کر رہ جاتے۔ ان دروں کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ آنا جانا ممکن ہوا ، باہمی میل جول اور تبادلہ اشیاء کا موقع میسر آیا۔ اسی لئے اللہ نے فرمایا کہ ہم نے درمیان میں کشادہ راستے بھی بنادیے لعلھم یھتدون تاکہ لوگ راہ پائیں اور آمدورفت کا سلسلہ جاری رہ سکے۔ یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی حکمت پر دلالت کرتی ہیں۔ ان میں غوروفکر کرنے سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت آسانی سے مجھ میں آسکتی ہے۔ محفوظ چھت : فرمایا نشانات قدرت میں سے ایک یہ بھی ہے وجعلنا السماء سقا محفوظا ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا۔ آسمان کو زمین کے اوپر ایک قبے کی شکل میں کھڑا کردیا۔ جس میں کوئی سوراخ نہیں۔ یہ بڑا مضبوط اور بڑا محفوظ ہے۔ اللہ نے سورة بقرہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے زمین کو بچھونا بنایا والسماء بناء اور آسمان کو چھت بنایا۔ بنادراصل قبے یا خیمے کے کھڑا کرنے کو کہتے ہیں ، جیسے حضور ﷺ نے فرمایا کہ اسلام کی پانچ بنائیں ہیں جن پر اسلام کی عمارت قائم ہے۔ سورة الشمس میں ہے والسماء وما بنھا قسم ہے آسمان کی اور اس کی بناوٹ کی۔ سورة قٓ میں فرمایا افلم …………………فروج (آیت 6) کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان کے سروں پر آسمان کو کس کیفیت کا بنایا ہے ، اور اس کو کیسی زینت بخشی ہے اور اس میں کوئی سوراخ تک نہیں ۔ سورة حٰمٓ سجدہ میں ہے وزینا………………وحفظا (آیت 12) ہم نے آسمان کو ستاروں سے زینت بخشی اور اس کو محفوظ رکھا۔ فرمایا ان تمام شواہد کے باوجود وھم عن ایتھا معرضون یہ لوگ اس کی نشانیوں سے اعراض کرنے ولے ہیں یعنی ان میں غوروفکر کرکے اللہ کی وحدانیت کو نہیں پہچانتے۔
Top