Baseerat-e-Quran - Al-Muminoon : 62
وَ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا وَ لَدَیْنَا كِتٰبٌ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
وَلَا نُكَلِّفُ : اور ہم تکلیف نہیں دیتے نَفْسًا : کسی کو اِلَّا : مگر وُسْعَهَا : اس کی طاقت کے مطابق وَلَدَيْنَا : اور ہمارے پاس كِتٰبٌ : ایک کتاب (رجسٹر) يَّنْطِقُ : وہ بتلاتا ہے بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک وَهُمْ : اور وہ (ان) لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے (ظلم نہ ہوگا)
ہم کسی کو اس کی قوت برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور ہمارے پاس ایک کتاب ( لوگوں کا نامہ اعمال) ہے جو سچ سچ بتا دیتی ہے اور ان لوگوں پر ذرا بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔
لانکلف ‘ ہم بوجھ نہیں ڈالتے۔ ہم تکلیف نہیں دیتے (لدینا) ہمارے پاس ‘ (ینطق) بولتا ہے ‘(غمرۃ) بیخبر ی۔ غفلت۔ جہالت۔ سختی ‘(مترفی (مترفین) عیش پسند و خوشحال لوگ ‘ (یجئرون) وہ چیختے چلاتے ہیں ‘ (اعقاب (عقب) ایڑیاں ‘(تنکصون) تم الٹے پاؤں پھرجاتے ہو۔ (سامر) رات کو قصے گھڑ گھڑ کر سنانے والا ‘ (تھجرون) برے الفاظ سے یاد کرتے ہو ‘ لم یدبرو (غور نہیں کیا) (کارھون (ناپسند کرنے والے) ‘ خرج (معاوضہ ۔ بدلہ) ‘ لجوا (منہمک رہے۔ وہ اڑے رہے) مایتضرعون (وہ گڑ گراتے نہیں ہیں) ‘ مبلسون (حیران رہ جانے والے) تشریح : آیت نمبر 62 تا 77 : تمام انسانوں پر اللہ کا بہت بڑا کرم ہے کہ وہ کسی پر اتنا بوجھ نہیں ڈالتا جسے وہ اٹھا نہ سکیں وہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہیں کرتا ‘ بار بار آگاہ اور خبردار کرتا رہتا ہے ‘ نصیحت و عبرت کے کسی پہلو کو نہیں چھوڑتا جسے وہ سامنے نہ رکھ دیتا ہو مگر کفر و شرک ‘ شک و شبہ اور غفلت و لاپرواہی میں ڈوبے ہوئے عیش پرست اور خوش حال لوگ برے انجام سے آنکھیں بند کر کے مدہوشی میں زندگی گذارتے رہتے ہیں جب ان کے مسلسل گناہوں اور زیادتیوں کی وجہ سے ان پر عذاب الہی ٹوٹ پڑتا ہے تو وہ اس سے حیران و پریشان رہ جاتے ہیں۔ اور وہ سوچتے ہیں کہ وہ باتیں جنہیں ہم بہت معمولی سمجھ کر نظر انداز کردیا کرتے تھے کیا واقعی ان کی اتنی زبردست اہمیت تھی کہ ان کی وجہ سے زندگی کی بنیادیں تک ہل جائیں گی۔ اگر وہ عذاب کی شدت سے پہلے توبہ کرلیتے ہیں تو ان پر رحم کردیا جاتا ہے۔ مگر ان کی ناشکری اور بےقدری کا یہ عالم ہوتا ہے کہ جب ان پر عذاب کی سختی کم ہوجاتی ہے تو وہ پھر سے اپنی اسی روش زندگی پر آجاتے ہیں۔ صد ‘ ہٹ دھرمی اور غفلت و لاپرواہی کا مظاہرہ شروع کردیتے ہیں۔ گذرے ہوئے برے اعمال سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کے بجائے اسے وہ اپنی جدوجہد ‘ حسن تدبیر اور کوششوں کا نتیجہ قرار دینے لگتے ہیں۔ لیکن جب وہ گناہوں خطاؤں اور نافرمانیوں کی انتہاؤں پر پہنچنے کے باوجود اپنی غفلتوں سے باز نہیں آتے اور ایمان و عمل صالح میں میں کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کرتے تب اللہ تعالیٰ ان کو مضبوطی سے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ جس سے وہ رونے ‘ چلانے اور آہ وزاری کرنے لگتے ہیں۔ لیکن وقت گذرنے کے بعد ان کارونا ‘ چلانا ‘ فریاد کرنا بےکار ہوتا ہے۔ جس سے وہ رونے ‘ چلانے اور آہ وزاری کرنے لگتے ہیں ۔ لیکن وقت گذرنے کے بعد ان کا رونا ‘ چلانا ‘ فریاد کرنا بےکارہوتا ہے۔ فرمایا کہ یہ تو اس دنیا میں حال ہے آخرت میں جب یہ عیش پسند پہنچیں گے اور جہنم کی بھڑکتی آگ کو دیکھیں گے تو وہ اللہ کے سامنے روئیں گے ‘ گڑ گڑائیں گے اور ہر طرح کی فریاد کریں کے مگر اس وقت کا رونا ‘ چلانا ان کے کسی کا نہ آسکے گا اور آخرت میں ہر طرح کی خیر سے محروم رہیں گے۔ اس طرح وہ نہ صرف دنیا میں اللہ کا عذاب چکھیں گے بلکہ آخرت کے دائمی عذاب سے کس طرح چھٹکار انہ پاسکیں گے۔ جب نبی کریم ﷺ نے کفار مکہ مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر صحابہ کرام کو ہجرت کرنے کا حکم دیا اور بعد میں اللہ کے حکم سے آپ نے بھی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ اس وقت اللہ نے اپنے رسول کو نظر انداز کرنے کی سزا یہ دی کہ ان پر شدید قحط کو مسلط کردیا یہ قحط اس قدر بھیانک تھا کہ مکہ والے درختوں کے پتے اور مرد ار جانور تک کھانے پر مجبور ہوگئے۔ بعد میں جب حضرت ابوسفیان (جو اس وقت تک ایمان نہ لائے تھے ) نے مدینہ منور جاکر حضور اکرم ﷺ سے اس قحط کو دور کرنے کے لئے دعا کی درخواست کی تو اللہ نے اپنے نبی کی دعا کو قبول فرمایا اور مکہ والوں پر سے قحط ختم ہوا۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ کفار اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لے آتے مگر دلوں میں نرمی کے بجائے وہ اپنی سابقہ ہٹ دھرمی پر اور سخت ہوگئے اور نبی کریم ﷺ کو قصے کہانیاں سنانے والا قرار دے دیا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان کفار کو شدید تنبہہ کی ہے کہ اگر وہ اپنی ان حرکتوں اور کفر و شرک سے با زنہ آئے تو ان کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ و برباد ہو کر رہ جائیں گی۔ ان بنیادی باتوں کی طرف زیر مطالعہ ٓیات میں توجہ دلائی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ اللہ کسی شخص پر اس کی ہمت و طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ فرمایا کہ ہمارے پاس ایک ایسی کتاب (نامہ اعمال) ہے جو بالکل ٹھیک ٹھیک بولتی ہے اور کسی پر کسی طرح کا ظلم اور زیادتی نہ ہوگی۔ بلکہ ان کے دل ہی غفلتوں اور شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہ بہت ہی برے کاموں میں مبتلارہتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب ہم ان میں خوش حال اور عیش پسند لوگوں کو گرفت میں لے کر ان پر عذاب نازل کریں گے تو وہ چلانا ‘ چیخنا اور فریاد کرنا شروع کردیں گے۔ اللہ کی طرف سے کہا جائے گا گا کہ اب تم مت چلائو کیونکہ آج تمہاری کوئی مدد نہ کی جائے گی۔ زندگی بھر تمہارا یہ حال رہا کہ جب بھی میری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائی گئیں تو تم تکبر اور غرور سے الٹے پاؤں بھاگتے تھے اور کلام الہی کے متعلق نا مناسب باتیں کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم ان سچائیوں کو ماننے کے بجائے نبی کو کہا نیاں سنانے والوں کی طرح بےحقیقت سمجھتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں سے پوچھا ہے کہ (1) کیا ان کے پاس کوئی ایسی کتاب آگئی ہے جو انوکھی اور نئی ہے جو ان کے باپ دادا کے پاس ہیں آئی تھی ؟ (2) یا وہ اللہ کے رسول کو نہ پہچاننے کی وجہ سے ان کا انکار کرتے ہیں ؟ (3) کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ اس شخص پر جنون طاری ہے ؟ فرمایا کہ وہ نبی ﷺ تو اللہ کی طرف سے حق و صداقت کا پیغام لے کر آئے ہیں۔ لیکن ان میں سے اکثر لوگ وہ ہیں جنہیں سچی اور حق و صداقت سے بھر پور باتیں کڑوی لگتی ہیں۔ فرمایا کہ وہ یہ چاہتی ہیں کہ حق و صداقت کی جو بات بھی ہو وہ ان کی خواہشوں اور تمناؤں کے مطابق ہو۔ وہ جس طرح کرنا چاہیں اور جس بات کو جس طرح کہنا چاہیں وہی حق و صداقت کی آواز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ایسا ہوجائے تو زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے وہ سب کا سب تباہ و برباد ہو کر رہ جائے۔ کیونکہ یہ باطل پرست حق و صداقت کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نبی کی لائی ہوئی تعلیمات کو نظر انداز کر رہے ہیں اور عبرت و نصیحت کی کسی بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اور اس سے منہ پھیر پھیر کر چلتے ہیں اور اپنی بد نصیبی کو آواز دیتے ہیں۔ فرمایا کہ ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ اللہ کے یہ نبی محض اللہ کی رضا و خوشنودی کیلئے ہر سچی بات کو پہنچا رہے ہیں اس پر ان سے کوئی بدلہ یا معاوضہ کا مطالبہ نہیں کررہے ہیں۔ فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! آپ اسی طرح اللہ کے دین اور صراط مستقیم کی طرف بلاتے رہیے۔ وہ لوگ جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے وہ صراط مستقیم سے اس طرح ہٹتے جارہے ہیں کہ اگر ہم ان پر ان کے گناہوں کے باوجود رحم و کرم کی انتہا کردیں تو وہ اپنی گمراہی اور ضد میں اور زیادہ آگے بڑھتے چلے جائیں گے۔ فرمایا کہ جب وہ (کفار مکہ) عذاب میں مبتلا ہوئے (قحط پڑگیا تھا) تو انہوں نے کسی عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ نہیں کیا نہ وہ گڑ گڑائے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو ان پر اللہ کا بہت زیادہ کرم ہوتا۔ لیکن وہ اپنے برے اعمال میں لگے ہوئے ہیں۔ جب ان پر اللہ کے عذاب کا درازہ کھول دیا جائے گا تو وہ اچانک مایوس اور حیران و پریشان ہو کر رہ جائیں گے۔
Top