Tafseer-e-Haqqani - Al-Muminoon : 62
وَ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا وَ لَدَیْنَا كِتٰبٌ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
وَلَا نُكَلِّفُ : اور ہم تکلیف نہیں دیتے نَفْسًا : کسی کو اِلَّا : مگر وُسْعَهَا : اس کی طاقت کے مطابق وَلَدَيْنَا : اور ہمارے پاس كِتٰبٌ : ایک کتاب (رجسٹر) يَّنْطِقُ : وہ بتلاتا ہے بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک وَهُمْ : اور وہ (ان) لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے (ظلم نہ ہوگا)
اور ہم کسی پر بوجھ بھی نہیں ڈالتے مگر اس قدر کہ وہ اٹھا سکے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو سچ سچ کہہ دے گی اور ان پر کچھ بھی ظلم نہ ہوگا
اہل ایمان کے چند اوصاف حمیدہ ذکر کرکے فرمایا تھا کہ یہی لوگ نیکیوں میں سبقت کر رہے ہیں۔ اب مخالفوں کو رغبت دلاتا ہے کہ لانکلف نفسا الا وسعہا ہم کسی پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے یعنی احکام سخت پر مامور نہیں کرتے آسان اور سہل حکم دیا کرتے ہیں پھر اے کم بخت منکرو ! تم کیوں ان نیکیوں میں پیچھے رہے جاتے ہو ؟ اور یہ خیال کرنا کہ ان نیکیوں میں سعی کرنا بےفائدہ ہے ان کو آخرت میں کون یاد رکھے گا ؟ غلط خیال ہے کس لیے کہ ولدنیا کتاب ینطق بالحق وھم لایظلمون۔ ہمارے پاس ایک کتاب ہے اس میں یہ سب کچھ لکھا جاتا ہے ہر فرد و بشر کے اعمال کراماً کاتبین لکھا کرتے ہیں یہ کتاب ہر ایک بات ٹھیک ٹھیک بیان کر دے گی اور کسی کا کوئی عمل نہ رہ جائے گا ان پر ظلم نہ ہوگا۔ اسی کتاب کا آگے ذکر آچکا ہے ونخرج لہ یوم القیامۃ کتابا یلقاہ منشورا مگر اس سے دنیا کی کتابوں کی مانند کاغذوں پر لکھی ہوئی کتاب مراد نہیں بلکہ اور قسم کی کتاب یعنی یا وہ رحمت الٰہی واللہ اعلم۔ یہ باتیں سن کر بھی کفار نیکی کی طرف رغبت نہیں کرتے۔ بل قلوبہم فی غمرۃ من ھذا الخ بلکہ ان کے دل اس بات سے غفلت میں ہیں اور اس پر بھی بس نہیں بلکہ ولہم اعمال من دون ذلک اس کے سوا ان کے اور اعمال بھی ہیں جن کو وہ عمل میں لا رہے ہیں پھر یہ ستم گار اپنے اعمال بد میں یہاں تک گرفتار ہیں حتی اذا اخذنا مترفیہم بالعذاب الخ کہ جب ہم ان کے دولتمندوں کو جو دولت کے نشہ میں مغرور ہیں عذاب میں مبتلا کریں گے تو یجرؤں دہائی دینے لگیں گے۔ اس عذاب سے مراد موت کے وقت کا عذاب ہے۔ یہ عذاب سب کفار کے لیے مگر دولت مندوں کی تخصیص ان کے غرور وتکبر کی وجہ سے ہوئی۔ ملائکہ اس وقت کہیں گے اب کیوں دہائی دیتے فریاد کرتے ہو ‘ آج تم کو مدد الٰہی نہ پہنچے گی۔ قدکانت آیاتی الخ کیونکہ تمہارے سامنے میری آیتیں پڑھی جایا کرتی تھیں تم تکبر کی راہ سے ان کو چھوڑ کر قصہ کہانیوں میں مشغول ہوتے تھے۔ تسمیررات کو قصہ گوئی کرنا عرب کی عادت تھی کہ رات کو لوگ مجتمع ہو کر قصہ خوانی کیا کرتے تھے تہجرون ہجر بالکسر بمعنی جدائی ہجر بالفتح ہذیان و بالضم فحش کعبہ کے اردگرد بیٹھ کر قریش مکہ قصہ خوانی کرتے تھے اور آنحضرت اور قرآن کی ہجو حقارت بھی کیا کرتے تھے۔ اب فرماتا ہے کہ ان باتوں کا عمل میں لانا یا تو اس لیے تھا کہ قرآن مجید میں کوئی خوبی نہ تھی جو اس سے بھاگتے تھے۔ اس کے جواب میں فرماتا ہے افلم یدبروا القول کہ انہوں نے کیا قرآن اور نبی کے ارشاد میں غور نہ کیا تھا یعنی کرنا چاہیے تھا وہ نبی کے آنے کو اور ان کے نصائح کو ایک اوپری بات جانتے تھے۔ سو یہ بھی غلط کیونکہ ام جاء ھم کیا ان کے پاس رسول کوئی نئی بات لائے جو ان کے باپ دادا کے پاس پہلے انبیاء نہ لائے تھے ؟ تیسری بات یہ کہ وہ رسول سے واقف نہ تھے بلکہ خوب واقف تھے کہ قبل نبوت آپ کو سچا ‘ دیانتدار ‘ خدا ترس جانتے تھے پھر بعد نبوت جھوٹ بولنے سے کیا غرض تھی ؟ ام لم یعرفواء رسولہم۔ چوتھی بات یہ کہ باوجود اس خدا ترسی اور استبازی کے سینکڑوں تکلیفیں اٹھا کر دنیاوی فوائد پر لات مار کر قوم کو آنے والی مصیبتوں سے پر حذر کرنا ‘ توحید وراستبازی پھیلانا ‘ کسی دیوانہ آدمی کا کام نہیں۔ پھر کیا انہوں نے رسول کو دیوانہ سمجھا تھا ام یقولوں بہ جنۃ یہ کچھ نہیں تو یقین کرلینا چاہیے کہ جاء ھم بالحق رسول ان کے پاس دین حق لے کر آچکا تھا لیکن اکثر ھم للحق کارھون ان میں سے اکثر کو حق سے کراہت و نفرت ہے۔ اپنی کج طبعی اور تیرہ باطنی سے چاہتے ہیں کہ ان کی خواہش کے موافق دنیا میں رسول احکام جاری کیا کریں۔ ولو اتبع الحق اھواء ھم الخ اگر ایسا ہو تو آسمان اور زمین اور ان کے رہنے والے خراب ہوجاویں۔ ریل کا انجن اگر کسی نادان کے سپرد کیا جائوے تو گاڑیاں الٹ جاویں ‘ صدہا آدمی مرجاویں۔ پس ہم ان کو ان کے سمجھنے اور درست ہونے کی چیز ان کو دیتے ہیں۔ پر وہ اس سے اعراض کر رہے ہیں پھر ان کو یہ خیال کرنا چاہیے کہ اس وعظ و نصیحت سے رسول کچھ ان سے مزدوری مانگتا ہے ؟ کچھ نہیں بلکہ وہ اجر آخرت کا طالب ہے اور اللہ بہتر اجر دینے والا ہے اور اے محمد ! ﷺ تم ان کو سیدھے رستے کی طرف بلا رہے ہو وان الذین لایومنون بالاخرۃ عن الصراہ لناکبون آخرت پر یقین نہ لانے والے سیدھے رستے سے پھرے جا رہے ہیں افسوس ! ولقد اخذنا ھم بالعذاب میں مفسیرین کے کئی قول ہیں ایک یہ کہ آنحضرت ﷺ کی بددعا سے قریش مکہ پر سات برس کا ایسا سخت قحط پڑا کہ جس میں وہ چلا اٹھے۔ کتے اور مردار تک کھانے کی نوبت آگئی اور دہائی دینے لگے۔ جس کے جواب میں ان پر عتاب ہوتا ہے کہ اب دہائی دیتے ہو ہمارے رسول پر کیوں ایمان نہ لائے آخر کارھون تک عتاب ہے بعض کہتے ہیں کہ یہ آنے والے عذاب کی خبر ہے جو بوقت مرگ یا آخرت میں پیش آئے گا اور کفار اس وقت چلائیں گے دہائی دیں گے تب ان کے جواب میں یہ عتاب ہوگا۔ قوی تر یہی ہے کہ آنے والی مصیبت کی خبر دی جاتی ہے وہ قحط شدید اور واقعہ بدر تھا جس میں قریش چیخ اٹھے تھے اور ان کے حال پر یہ جواب باعتاب ناطق تھا اور آیندہ مرنے کے بعد اور پھر قیامت میں بھی عذاب شدید پیش آئے گا جہاں ان کی فریاد اور دھاڑنے پر یہی جواب عتاب دیا جائے گا۔ اس لیے فرماتا ہے اور جو ہم اس مصیبت سے جس میں ان کو مبتلا کیا کرتے ہیں نجات بھی دیں تو پھر اسی سرکشی میں اڑجاویں گے۔ عذاب دفع ہونے کے بعد سرکشی کرنا تو ان کے نزدیک معمولی بات ہے۔
Top