Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 62
وَ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا وَ لَدَیْنَا كِتٰبٌ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
وَلَا نُكَلِّفُ : اور ہم تکلیف نہیں دیتے نَفْسًا : کسی کو اِلَّا : مگر وُسْعَهَا : اس کی طاقت کے مطابق وَلَدَيْنَا : اور ہمارے پاس كِتٰبٌ : ایک کتاب (رجسٹر) يَّنْطِقُ : وہ بتلاتا ہے بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک وَهُمْ : اور وہ (ان) لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے (ظلم نہ ہوگا)
ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتے اور ہمارے پاس ایک رجسٹر ہے جو بالکل ٹھیک ٹھیک بتادے گا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا
وَلَانُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا وَلَدَیْنَا کِتٰبٌ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَھُمْ لَایُظْلَمُوْنَ ۔ (المومنون : 62) (ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتے اور ہمارے پاس ایک رجسٹر ہے جو بالکل ٹھیک ٹھیک بتادے گا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ ) احساسات کی تسکین اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کے بعض احساسات کی تسکین کا سامان ہے اور ساتھ ہی ساتھ کچھ کمزور طبیعتوں کی ڈھارس کا سامان بھی۔ مسلمان مخالفت وعناد کی جس صورتحال سے دوچار تھے اور جس میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا تھا اس میں کبھی کبھی بعض طبیعتوں میں یہ خیال پیدا ہونے لگتا تھا کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ایمان اپنی قیمت مانگتا ہے اور مخالفین کا رد عمل بھی غیر فطری نہیں۔ کوئی شخص بھی اپنے آبائی خیالات اور دل و دماغ میں بیٹھے ہوئے تصورات کو آسانی سے چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتا اور جب تبلیغ و دعوت کے زور سے ان خیالات میں اصلاح یا تبدیلی کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ صرف سادہ ردعمل پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اکثر اوقات طاقت کا استعمال کرتا ہے۔ لیکن جب یہ طاقت کا استعمال ظلم کی صورت اختیار کرجاتا ہے تو پھر ایمان کے راستے پر چلنے والوں کے دماغوں میں بعض دفعہ اندیشے تیرنے لگتے ہیں کہ ہم کب تک صبر و استقامت سے اس صورتحال کا مقابلہ کرسکیں گے اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ مخالفین کی طرف سے حالات کی یہ ابتری کیا رنگ لائے گی۔ چناچہ پیش نظر آیات کریمہ میں ایسے ہی احساسات کی تسکین کا سامان کیا گیا ہے۔ مخلص فداکاروں سے کہا گیا ہے کہ تم نے آج تک قربانی اور استقامت کی جو تاریخ رقم کی ہے وہ تمہاری دنیوی واخروی کامیابیوں کی ضمانت ہے۔ اللہ نے مومنوں سے فوزوفلاح کے جو وعدے کر رکھے ہیں تم انشاء اللہ ان سب سے نوازے جاؤ گے۔ رہا تمہارا یہ احساس کہ ممکن ہے آئندہ چل کر مخالفتیں اور اذیتیں اس طرح ناقابلِ برداشت ہوجائیں کہ تمہاری ہمت جواب دینے لگے تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ نے اپنے بندوں کی ہمتوں سے بڑھ کر کبھی ان پر بوجھ نہیں ڈالا۔ وہ اپنے بندوں کی ہمتوں کو جانتا ہے۔ وہ انسانی فطرت اور انسانی جذبوں اور صلاحیتوں کا خالق ہے اس لیے اس سے بڑھ کر ان کی حدود کا جاننے والا اور کون ہے ؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آیت کے پہلے جملے میں ان کی ہمتوں کا اعتراف بھی ہے اور حالات میں تبدیلی کا اشارہ بھی۔ اصحابِ ایمان میں سے وہ لوگ جو سابقون جیسی ہمت و عزیمت کے مالک نہیں ہوتے۔ وہ حالات کو دیکھ کر بعض دفعہ دل گرفتہ ہونے لگتے ہیں کہ ہم کب تک ان مخالفتوں کا سامنا کرسکیں گے۔ انھیں یہ کہا جارہا ہے کہ تمہیں جن مصائب کا سامنا ہے وہ تمہاری ہمتوں سے بڑھ کر نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا مکلف نہ بناتا اور دوسری بات یہ ہے کہ انفرادی کمزوریوں سے تو پروردگار بھی درگزر فرماتا ہے۔ لیکن مسلمانوں کی مشترک اور عمومی ہمتوں کے حوالے سے کوئی شخص جب کمزوری کا اظہار کرتا ہے تو اس سے یقینا یہ پوچھا جائے گا کہ آخر دوسرے مسلمان جن کے ایمان و استقامت کی تاریخ تم سے بھی دراز ہے وہ ان مصائب کو کیسے برداشت کرتے رہے ہیں ؟ اگر یہ صورتحال تکلیفِ مالا یطاق ہوتی تو وہ بھی ہمت ہار دیتے۔ لیکن انھوں نے آج تک ہمت نہیں ہاری۔ آیت کے دوسرے حصے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے راستے میں عزیمت و استقامت کی تاریخ رقم کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا ایک ایک عمل اور ایک ایک قربانی ایک کتاب یعنی نامہ عمل میں محفوظ کی جارہی ہے۔ اور اگر کہیں کسی نے کوئی کمزوری دکھائی ہے تو وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ قیامت کے دن اس نامہ عمل کی ایک ایک پرت کھلے گی اور ایک ایک سطر اور ایک ایک لفظ بولے گا اور شہادت دے گا اور اسی کے مطابق اجر وثواب سے ہر شخص کو نوازا جائے گا۔ اس دن اجر وثواب کی وسعت اور قدروقیمت کو دیکھ کر قربانیوں کے راستے پر چلنے والے تمنا کریں گے کاش ! ہماری کھالیں قینچیوں سے کاٹی گئی ہوتیں تو آج ہم ان کا بھی بیش ازبیش صلہ پاتے۔ اس نامہ عمل کی اگر صحیح کیفیت کو معلوم کرنا ہو تو سورة کہف کی اس آیت کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ وَوُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِھٰذَا الْکِتٰبِ لاَ یُغَادِرْ صَغِیْرَۃً وَّلاَ کَبِیْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰھَا ج وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا ط وَلاَ یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحْدًا۔ ” اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا پھر تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اس کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے۔ اور کہہ رہے ہوں گے کہ ہائے ہماری بدبختی یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی یا بڑی حرکت ایسی نہیں رہ گئی جو اس میں درج نہ ہو وہ جو کچھ انھوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم کرنے والانھیں ہے “۔ (الکہف : 49)
Top