Baseerat-e-Quran - Al-Ahzaab : 14
وَ لَوْ دُخِلَتْ عَلَیْهِمْ مِّنْ اَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لَاٰتَوْهَا وَ مَا تَلَبَّثُوْا بِهَاۤ اِلَّا یَسِیْرًا
وَلَوْ : اور اگر دُخِلَتْ : داخل ہوجائیں عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنْ : سے اَقْطَارِهَا : اس (مدینہ) کے اطراف ثُمَّ : پھر سُئِلُوا : ان سے چاہا جائے الْفِتْنَةَ : فساد لَاٰتَوْهَا : تو وہ ضرور اسے دیں گے وَمَا تَلَبَّثُوْا : اور نہ دیر لگائیں گے بِهَآ : اس (گھر) میں اِلَّا : مگر (صرف) يَسِيْرًا : تھوڑی سی
اور اگر ان پر (مدینہ ) کے اطراف سے (دشمن) داخل ہوجاتا اور ان سے اس فتنہ میں پڑنے کے لئے کہا جاتا تو وہ اس میں کود پڑتے اور کچھ دیر نہ لگاتے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 14 تا 17 دخلت : داخل کردیا گیا۔ اقطار : کنارے۔ اطراف سئلوا : سوال کیا گیا ما تلبثوا : دیر نہ لگائیں گے لا یولون : وہ پیٹھ نہ پھیریں گے۔ لا تمتعون : تم فائدہ نہ اٹھا سکو گے یعصم : وہ بچاتا ہے لا یجدون : وہ نہ پائیں گے نصیر : مددگار تشریح آیت نمبر 14 تا 17 گذشتہ آیات سے غزوہ احزاب کے متعلق بیا کیا جارہا ہے اب ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جب منافقین نے کفار و مشرکین کو آندھی اور طوفان کی طرح آتے دیکھا تو وہ گھبرائے گئے اور میدان جنگ سے بھاگنے کے راستے اور بہانے تلاش کرنے لگے ۔ اس کے بر خلاف وہ اہل ایمان جو اللہ کی ذات پر مکلمل بھروسہ اور ایمان رکھتے تھے انہوں نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ اللہ ان کی ہر حال میں مدد فرمائے گا انہیں یقین تھا کہ اگر وہ اسلام دشمنوں کے مقابلے میں ڈٹے رہے اور اپنی جانوں کی بازی لگا دی تو اللہ انہیں دنیا اور آخرت میں سرخ رو فرمائے گا۔ انہیں معلوم تھا کہ اس وقت اس محاذ جنگ سے بھاگ جانا دنیا اور آخرت کی رسوائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے متعلق فرمایا کہ ان کا یہ حال ہے اگر کوئی ( اللہ و رسول کا ) دشمن مدینہ کے اطراف سے اندر داخل ہو کر کہنے لگے کہ تم اہل ایمان سے الگ ہو جائو اور ہمارے ساتھ مل کر لڑ و اور برپا کر دو تو یہ فرار کے راستے ڈھونڈنے والے ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوجائیں گے اور اہل ایمان سے لڑنے کے لئے نکل کھڑے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میدان جنگ سے بھاگنے کے بہانے تلاش کرنے والے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے جنگ احد کے موقع پر ندامت اور شرمندگی کے ساتھ اس بات کا پکا وعدہ کیا تھا کہ اب وہ میدان جنگ سے پیٹھ پھر کر نہ بھا گیں گے۔ اب ان کا وہ عہد معاہدہ کیا ہوا ؟ فرمایا کہ وعدے اور عہد کے خلاف کرنے والوں کو اس کا جواب تو دینا ہوگا اور اپنی عہد شکنی کی سزا کے لئے بھی تیار رہیں۔ نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ان لوگوں سے یہ تو پوچھئے کی یہ لوگ جس موت اور قتل کے خوف سے بھاگ پھر رہے ہیں کیا یہ لوگ ہمیشہ اسی دنیا میں رہیں گے ؟ ان کو موت نہ آئے گی ؟ یاد رکھیں جب موت آئے گی تو کیا وہ موت سے بچ سکیں گے ؟ ہرگز نہیں۔ اللہ کا پورا اختیار ہے کہ وہ اگر کسی کو فائدہ دینا چاہے تو اس سے کوئی نہیں روک سکتا اور اگر وہ اس کو کسی خسارے یا نقصان میں مبتلا کردے تو سوائے اللہ کی حمایت اور مدد کے اور کون اس کو بچا سکے گی۔
Top