Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 14
وَ لَوْ دُخِلَتْ عَلَیْهِمْ مِّنْ اَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لَاٰتَوْهَا وَ مَا تَلَبَّثُوْا بِهَاۤ اِلَّا یَسِیْرًا
وَلَوْ : اور اگر دُخِلَتْ : داخل ہوجائیں عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنْ : سے اَقْطَارِهَا : اس (مدینہ) کے اطراف ثُمَّ : پھر سُئِلُوا : ان سے چاہا جائے الْفِتْنَةَ : فساد لَاٰتَوْهَا : تو وہ ضرور اسے دیں گے وَمَا تَلَبَّثُوْا : اور نہ دیر لگائیں گے بِهَآ : اس (گھر) میں اِلَّا : مگر (صرف) يَسِيْرًا : تھوڑی سی
اور (وہ وقت ان پر ایسا تھا کہ) اگر اس (مدینہ) کے اطرف سے (دشمن کی) فوجیں ان پر چڑھ آتیں اور ان کو فساد پھیلانے کا کہتیں تو یہ خود (مدینہ کے اندر) ایسا کر گزرتے اور ذرا توقف نہ کرتے
منافقین اور معاہد لوگوں کی حالت کا بیان کہ وہ بھاگ کر مخالفین سے ملنا چاہتے تھے 14) یہ لوگ جنہوں نے اس وقت گھروں کے خالی ہونے کے عذر وبہانے پیش کئے ، جن کے اندر کچھ تھا اور ان کی زبانیں کچھ کہہ رہی تھیں ، ان کی حالت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ اگر خدانخواستہ دشمن کا لشکر شہر میں داخل ہوجائے اور وہ ان لوگوں کو جو اس وقت عذر پیش کرکے یہاں سے نکلنا چاہتے ہیں انہیں مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کی دعوت دے دے تو یہ لوگ اس اسلام دشمنی کے باعث جو ان کے ولوں میں پوشیدہ ہے اس وقت ہتھیار سجا کر دشمن کے جھنڈے تلے جمع ہوجائیں گے پھر نہ انہیں بال بچوں کا خیال ستائے گا اور نہ ہی اپنے گھروں کی حفاظت کا فرض ان کو یاد رہے گا اور یہ تمام چیزوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اسلام کو مٹانے کے جوش میں کفار کے لشکر میں شریک ہونے میں ذرا بھی دیر نہیں کریں گے۔ غور کرو کہ اس آیت میں کفار اور منافقین کی ذہنیت کا کتنا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جارہا ہے اور ان کے انداز فکر اور طریق کار کی کتنی صحیح کھینچ کر رکھ دی گئی ہے کہ اس سے زیادہ سچی تصویر کھینچی ہی نہیں جاسکتی۔ فرمایا جارہا ہے کہ اے پیغمبر اسلام : آپ ﷺ کے پاس تو یہ لوگ بہانے پیش کر رہے ہیں لیکن اگر آپ ﷺ ان کو اجازت دے دیں اور دشمن کی طرف سے ان کو پیغام پہنچ جائے کہ آئو ہمارے ساتھ مل کر ان اہل اسلام کا کانٹا نکال دیا جائے تو یہ لوگ ان کی دعوت پر لبیک کہنے میں زیادہ سے زیادہ اتنی مہلت مانگیں گے کہ گھروں میں رکھے ہوئے ہتھیار وہ لے آئیں اور پوری طرح مسلح ہو کر اسلام کو اور اہل اسلام کو مٹانے کے لئے ان کے لشکر میں شریک ہوجائیں۔ زیر نظر آیت کے الفاظ { اقطارھا } اقطار کنارے قطر کی جمع ہے جس کے معنی جانب اور اطراف کے ہیں ” ہا “ ضمیر واحد مونث غائب ” اقطار “ مضاف ” ہا “ مضاف الیہ۔ { تلبثوا } انہوں نے توقف کیا ، وہ ٹھہرنے ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ { ماتلبثوا } نہ توقف کرتے ، نہ ٹھہرتے۔ { ولودخلت علیھم } اور اگر گھس آئے (کفار کے لشکر) ان پر { اقطارھا } نہ توقف کرتے ، نہ ٹھہرتے۔ { ثم سئلو الفتنۃ } پھر ان سے درخواست کی جاتی فتنہ انگیزی کی { لا توھا } البتہ اسے فوراً قبول کرلیتے { وما تلبثوا بھا الا یسیرا } اور وہ توقف نہ کرتے اس میں مگر بہت ہی کم۔ ” اور (وہ وقت ان ایسا تھا) کہ اگر اس (مدینہ) کے اطراف سے (دشمن کی ) فوجیں ان پر چڑھ آئیں اور ان کو فساد پھیلانے کا کہیں تو یہ خود (مدینہ کے اندر) ایسا کر گزرتے اور ذرا توقف نہ کرتے “۔
Top