Mufradat-ul-Quran - Al-Ahzaab : 14
وَ لَوْ دُخِلَتْ عَلَیْهِمْ مِّنْ اَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لَاٰتَوْهَا وَ مَا تَلَبَّثُوْا بِهَاۤ اِلَّا یَسِیْرًا
وَلَوْ : اور اگر دُخِلَتْ : داخل ہوجائیں عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنْ : سے اَقْطَارِهَا : اس (مدینہ) کے اطراف ثُمَّ : پھر سُئِلُوا : ان سے چاہا جائے الْفِتْنَةَ : فساد لَاٰتَوْهَا : تو وہ ضرور اسے دیں گے وَمَا تَلَبَّثُوْا : اور نہ دیر لگائیں گے بِهَآ : اس (گھر) میں اِلَّا : مگر (صرف) يَسِيْرًا : تھوڑی سی
اور اگر (فوجیں) اطراف مدینہ سے ان پر آ داخل ہوں پھر ان سے خانہ جنگی کے لئے کہا جائے تو (فوراً ) کرنے لگیں اور اس کے لئے بہت کم توقف کریں
وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْہِمْ مِّنْ اَقْطَارِہَا ثُمَّ سُىِٕلُوا الْفِتْنَۃَ لَاٰتَوْہَا وَمَا تَلَبَّثُوْا بِہَآ اِلَّا يَسِيْرًا۝ 14 دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ قطر القُطْرُ : الجانب، وجمعه : أَقْطَارٌ. قال تعالی: إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطارِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الرحمن/ 33] ، وقال : وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِمْ مِنْ أَقْطارِها [ الأحزاب/ 14] وقَطَرْتُهُ : ألقیته علی قُطْرِهِ ، وتَقَطَّرَ : وقع علی قُطْره، ومنه : قَطَرَ المطر، أي : سقط، وسمّي لذلک قَطْراً ، وتَقَاطَرَ القوم : جاؤوا أرسالا کالقطْر، ومنه قِطَارُ الإبل، وقیل : الإنفاض يُقَطِّرُ الجلب .. أي : إذا أنفض القوم فقلّ زادهم قطروا الإبل وجلبوها للبیع، والقَطِرَانُ : ما يَتَقَطَّرُ من الهناء . قال تعالی: سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم/ 50] ، وقرئ : ( من قِطْرٍ آنٍ ) أي : من نحاس مذاب قد أني حرّها، وقال : آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْراً [ الكهف/ 96] أي : نحاسا مذابا، وقال : وَمِنْ أَهْلِ الْكِتابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِقِنْطارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ [ آل عمران/ 75] وقوله : وَآتَيْتُمْ إِحْداهُنَّ قِنْطاراً [ النساء/ 20] والْقَنَاطِيرُ جمع القَنْطَرَةِ ، والقَنْطَرَةُ من المال : ما فيه عبور الحیاة تشبيها بالقنطرة، وذلک غير محدود القدر في نفسه، وإنما هو بحسب الإضافة کا لغنی، فربّ إنسان يستغني بالقلیل، وآخر لا يستغني بالکثير، ولما قلنا اختلفوا في حدّه فقیل : أربعون أوقيّة . وقال الحسن : ألف ومائتا دينار، وقیل : ملء مسک ثور ذهبا إلى غير ذلك، وذلک کا ختلافهم في حدّ الغنی، وقوله : وَالْقَناطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ [ آل عمران/ 14] أي : المجموعة قنطارا قنطارا، کقولک : دراهم مدرهمة، ودنانیر مدنّرة . ( ق ط ر ) القطر کے معنی جانب اور طرف کے ہیں اس کی جمع ا اقطار ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطارِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الرحمن/ 33] اگر تمہیں قدرت ہو کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِمْ مِنْ أَقْطارِها [ الأحزاب/ 14] اور اگر فوجیں اطراف مدینہ سے ان پر آ دخل ہوں ۔ قطرتہ کسی کو پہلو پر گر ادینا ۔ اسی سے قطر المطر کا محاورہ ہے جس کے معنی بارشبر سنے کے ہیں اور اسی وجہ سے بارش کو قطر کہا جاتا ہے ۔ تقا طر القوم لوگ بارش کے قطروں کی طرح پیہم آئے اسی سے اونٹوں کی قطار کہا جاتا ہے مثل مشہور ہے ۔ النقاض یقطر الجلب یعنی توشہ ختم ہوجائے تو عمدہ اونٹ بھی فروخت کے لئے منڈی میں لے جاتے ہیں ۔ القطران کے معنی پگهلی ہوئی رال یا گیند ھک کے ہیں قرآن پاک میں ہے سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم/ 50] ان کے کرتے گند ھک کے ہوں گے ۔ ایک قراءت میں قطرآ ن ہے جس کے معنی پگھلے ہوئے گرم تانبے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْراً [ الكهف/ 96]( اب ) میرے پاس تانبا لاؤ کہ اس پر پگھلا کر ڈال دوں یہاں قطرا کے معنی پگھلا ہوا تا نبا کے ہیں ۔ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] (ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ لبث لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] ، ( ل ب ث ) لبث بالمکان کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔ يسير واليَسِيرُ والمَيْسُورُ : السّهلُ ، قال تعالی: فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء/ 28] واليَسِيرُ يقال في الشیء القلیل، فعلی الأوّل يحمل قوله : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب/ 30] ، وقوله : إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج/ 70] . وعلی الثاني يحمل قوله : وَما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب/ 14] الیسیر والمیسور سہل اور آسان قرآن میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء/ 28] تو ان سے نر می سے بات کہدیا کرو ۔ اور کبھی یسیر کے معنی حقیر چیز بھی آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب/ 30] اس کو دونی سزا دی جائیگی اور یہ بات خدا کو آسان ہے میں لفظ یسیرا کے معنی آسان اور سہل کے ہیں اور آیت وما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب/ 14] اور اس کے لئے بہت کم توقف کریں میں اس کے معنی بہت کم عرصہ کے ہیں
Top