Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 14
وَ لَوْ دُخِلَتْ عَلَیْهِمْ مِّنْ اَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لَاٰتَوْهَا وَ مَا تَلَبَّثُوْا بِهَاۤ اِلَّا یَسِیْرًا
وَلَوْ : اور اگر دُخِلَتْ : داخل ہوجائیں عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنْ : سے اَقْطَارِهَا : اس (مدینہ) کے اطراف ثُمَّ : پھر سُئِلُوا : ان سے چاہا جائے الْفِتْنَةَ : فساد لَاٰتَوْهَا : تو وہ ضرور اسے دیں گے وَمَا تَلَبَّثُوْا : اور نہ دیر لگائیں گے بِهَآ : اس (گھر) میں اِلَّا : مگر (صرف) يَسِيْرًا : تھوڑی سی
اور اگر (فوجیں) اطراف مدینہ سے ان پر آ داخل ہوں پھر ان سے خانہ جنگی کے لئے کہا جائے تو (فوراً ) کرنے لگیں اور اس کے لئے بہت کم توقف کریں
آیت ولودخلت علیہم من افطارھا، ہا ضمیر سے مراد بیوت ہیں یا مدینہ ہے یعنی ان کی اطراف اور جوانب سے۔ واحد قطر ہے جس کا معنی جانب اور ناحیہ ہے۔ اسی طرح قتریہ بھی قطر میں ایک لغت ہے۔ آیت ثم سئلوا الفتنۃ لاتوھا تو وہ اس میں آپڑے۔ یہ نافع اور ابن کثیر کی قراءت قصر کے ساتھ ہے باقی قراء نے اسے جر کے ساتھ پڑ ھا ہے یعنی اپنی جانب سے وہ اسے دیتے۔ یہ ابو عبیدہ اور ابو حاتم کا پسندیدہ نقطہ نظر ہے۔ حدیث طیبہ میں ہے نبی کریم ﷺ کے صحابہ کو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کیا گیا اور ان سے شرک کا مطالبہ کیا گیا ہر کسی نے وہ بات مان لی جس کا اس سے مطالبہ کیا گیا مگر حضرت بلال۔ اس میں مد کی قراءت کی دلیل ہے۔ جس کا معنی عطا کرنا ہے قصر کی قراءت پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے : آیت ولقد کانوا عاھدوا اللہ من قبل لا یولون الادبار (الاحزاب : 15) یہ لا توھا میں ہمزہ کے مقصور ہونے پر دال ہے۔ فتنہ کی یہاں دو توجیہیں ہیں : (1) ان سے عصبیت کی وجہ سے سوال کیا جائے تو وہ اس میں جلدی کرتے ہیں ؛ یہ ضحاک کا قول ہے (2) ان سے یہ شرک کا مطالبہ کیا جائے تو وہ جلدی سے اسے قبول کرلیتے ہیں، یہ حضرت حسن بصری کا قول ہے (2) ۔ آیت وما تلبثو بھا وہ کفر کے بعد مدینہ طیبہ میں تھوڑا ہی ٹھہرتے یہاں تک کہ ہلاک ہوجاتے ؛ یہ سدی، قتیبی، حضرت حسن بصری اور فراء کا قول ہے (3) ۔ اکثر مفسرین نے کہا : فتنہ شرک سے تھوڑے ہی بچتے اور شرک کی دعوت کو بہت جلد قبول کرتے۔ یہ ان کی نیتوں کے ضعف اور نفاق کی زیادتی کی وجہ سے تھا۔ اگر دشمن کے لشکر ان کے ساتھ خلط ملط ہوجاتے تو وہ کفر کو ظاہر کردیتے۔
Top