Baseerat-e-Quran - Al-Ghaafir : 51
اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْهَادُۙ
اِنَّا : بیشک ہم لَنَنْصُرُ : ضرور مدد کرتے ہیں رُسُلَنَا : اپنے رسول (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيَوْمَ : اور جس دن يَقُوْمُ : کھڑے ہوں گے الْاَشْهَادُ : گواہی دینے والے
بیشک ہم اپنے رسولوں اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ہیں دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں اور اس دن بھی ( مدد کریں گے) جب گواہی دینے والے ( فرشتے) کھڑے ہوں گے۔
لغات القرآن آیت نمبر 51 تا 60 : یوم الاشھاد ( گواہی کا دن) معذرۃ ( معذرت ، شرمندگی) سوء الدار ( بد ترین گھر، برا ٹھکانہ) اور ثنا (ہم نے وارث بنا دیا ، ذمہ داری بنا دیا) داخرین ( داخر) ذلیل اور رسوا کرنے والے) تشریح : آیت نمبر 51 تا 60 :۔ اللہ کا دستور یہ ہے کہ وہ صبر کرنے والے پیغمبروں اور ان پر ایمان لانے والوں کی اس دنیا میں اور آخرت کے اس دن میں بھی مدد فرمائے گا جب فرشتے اللہ کے سامنے حاضر ہو کر لوگوں کے اعمال پر گواہی پیش کریں گے ۔ فرمایا کہ اللہ کا یہ سچا وعدہ ہے پورا ہو کر رہے گا ۔ نبی کریم ﷺ سے فرمایا جا رہا ہے کہ جس طرح ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت جیسی پر نور کتاب دی تھی جس کا مقصد بنی اسرائیل کی اخلاقی و اصلاحی تربیت تھی کہ وہ اللہ کے احکامات کی روشنی میں اپنی بےترتیب زندگی کی اصلاح و رہنمائی کرسکیں مگر قوم بنی اسرائیل نے اللہ کی اس نعمت کی ناقدری کی اور اپنی بےحسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ہر بات سے اختلاف شروع کردیا ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو نا فرمانیوں سے روکتے رہے اور ان کی بےحسی پر صبر کرتے رہے۔ تب اللہ نے اس قوم پر اپنا وعدہ پورا کردیا ۔ فرعون ، اس کی قوم اور اس کی سلطنت کو سمندر میں غرق کردیا اور قوم بنی اسرائیل کے صاحبان ایمان کو فرعون کے ظلم و ستم اور زیادتیوں سے نجات عطاء فرما دی ۔ نبی کریم ﷺ کے سامنے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور قوم بنی اسرائیل کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اے نبی ﷺ ! آپ بھی صبر اور برداشت سے کام لیجئے اور اسی کی تلقین اپنے صحابہ ؓ کو بھی کرتے رہیے وہ وقت دور نہیں ہے جب اللہ کا سچا وعدہ پورا ہو کررہے گا اور نافرمانوں کو ان کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا ۔ فرمایا گیا کہ اے نبی ﷺ ! اگر اس سچائی کے راستے میں کہیں بھی کوئی اونچ نیچ ہوجائے تو اس پر اللہ کی بارگاہ میں معافی مانگ لیجئے۔ صبح و شام اللہ کی حمد وثناء کیجئے وہ مہربان آپ پر اور اہل ایمان پر اپنی رحمتوں کو نازل کرے گا ۔ رہے وہ لوگ جو اپنے غرور وتکبر اور بڑائی کی تسکین کے لیے بےدلیل مخالفت اور جاہلانہ کج بحثیوں میں لگے رہتے ہیں ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے ۔ اللہ کے سچے پیغام کو ہر شخص تک پہنچاتے رہیے جو نافرمان ہیں ان کو یہ باتیں نہ دنیا میں فائدہ دیں گی اور نہ آخرت میں ان کے کام آئیں گی۔ آپ کو ہر جگہ اللہ کی پناہ حاصل ہے اسی سے پناہ کی درخواست کرتے رہیے وہ تو ہر ایک کو سنتا اور ہر شخص کے حال سے پوری طرح با خبر ہے۔ فرمایا کہ کفار کا یہ اعتراض کہ جب ہم مر کر خاک ہوجائیں گے اور ہمارے جسم کے تمام اعضاء کائنات میں بکھر جائیں گے تو ہم دوبارہ کیسے پیدا کئے جائیں گے ؟ فرمایا کہ ایسے لوگ ذرا بھی عقل اور سمجھ سے کام لیں تو وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ جس اللہ نے اتنی زبردست اور عظیم الشان کائنات کو بنایا ہے، زمین و آسمان کے نظام کو ترتیب و تخلیق کیا ہے جو کائنات کے ذرے ذرے کا مالک اور خالق ہے وہی اس نظام کائنات کو چلا رہا ہے اس کائنات کے مقابلے میں جسمانی طور پر تو انسان بہت چھوٹی سی مخلوق ہے اس کو دوبارہ پیدا کرنا مشکل کام ہے۔ فرمایا کہ جس طرح آنکھوں والا اور اندھابرابر نہیں ہو سکتے اسی طرح جو لوگ ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں وہ ان کفار کے برابر کیسے ہو سکتے ہیں جن کا بھیانک اور بد ترین انجام ہے ؟ اس سامنے کی حقیقت بہت جلد آنے والی ہے جس کے واقع ہونے میں کسی شک اور شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ اے لوگو ! مجھے ہی پکارو ، مجھ سے دعائیں کرو میں تمہاری دعاؤں کو سننے والا اور قبول کرنے والا ہوں لیکن وہ لوگ جو ہماری رحمت سے مایوس ہیں اور ہر سچائی کا انکار کرنے والے ہیں وہ قیامت کے دن نہایت ذلت و رسوائی کے ساتھ جہنم کی آگ میں اس طرح جھونک دیئے جائینگے کہ وہاں ان کا کوئی یارو مدد گار نہ ہوگا۔
Top