Bayan-ul-Quran - Ar-Ra'd : 19
وَ السَّمَآءَ بَنَیْنٰهَا بِاَیْىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ
وَالسَّمَآءَ : اور آسمان بَنَيْنٰهَا : بنایا ہم نے اس کو بِاَيْىدٍ : اپنی قوت۔ ہاتھ سے وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ : اور بیشک ہم البتہ وسعت دینے والے ہیں
اور آسمان کو ہم نے بنایا اپنے ہاتھوں سے اور ہم (اس کو) توسیع دینے والے ہیں۔
آیت 47{ وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰہَا بِاَیْدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ۔ } ”اور آسمان کو ہم نے بنایا اپنے ہاتھوں سے اور ہم اس کو توسیع دینے والے ہیں۔“ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ کا ترجمہ عام طور پر ”ہم بڑی ہی وسعت رکھنے والے ہیں“ یا ”ہم بڑی قدرت والے ہیں“ کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن لغوی اعتبار سے اس کا یہ ترجمہ زیادہ مناسب اور زیادہ جامع ہے جو اوپر متن میں اختیار کیا گیا ہے۔ اَوْسَع یُوسِعُ باب افعال ہے ‘ جس کا مطلب ہے کشادہ کرنا ‘ وسعت دینا۔ وَسِعَ ثلاثی مجرد ہے ‘ جس سے اسم الفاعل وَاسِعٌ آتا ہے۔ چناچہ { وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ} کا مطلب ہے : اللہ بڑی وسعت سمائی والا ہے ‘ اس کے خزانے لامحدود ہیں۔ جبکہ مَوْسِع باب افعال سے اسم الفاعل ہے اور اس کے معنی ہوں گے : وسعت دینے والا۔ اس لحاظ سے یہاں { اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ } کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم اس کائنات کو مسلسل وسعت بخش رہے ہیں ‘ اسے وسیع سے وسیع تر کیے جا رہے ہیں۔ اور یہ وہی بات ہے جو آج ہمیں سائنس کی مدد سے معلوم ہوئی ہے۔ آج سے نصف صدی پہلے تک انسان کو یہ سب کچھ معلوم نہیں تھا مگر آج ہم جانتے ہیں کہ کائنات میں ہر گھڑی نئے نئے ستارے پیدا ہو رہے ہیں ‘ ہر آن نئی نئی کہکشائیں وجود میں آرہی ہیں اور یہ کائنات مسلسل پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ ”Expanding Universe“ کے اس تصور کو اقبالؔ نے اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا ہے : ؎ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دمادم صدائے کُنْ فَـیَکُوْن تو اللہ تعالیٰ کی شان کُنْ فَیَکُوْنکا ظہور مسلسل جاری ہے۔ اسی مفہوم کو سورة فاطر کی پہلی آیت میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : { یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآئُط } ”وہ اپنی تخلیق میں جو چاہتا ہے اضافہ کرتا رہتا ہے“۔ چناچہ وہ آسمانوں کو یعنی کائنات کو مسلسل وسعت دیے جا رہا ہے۔
Top