Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 92
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ۬ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ
لَنْ تَنَالُوا : تم ہرگز نہ پہنچو گے الْبِرَّ : نیکی حَتّٰى : جب تک تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : اس سے جو تُحِبُّوْنَ : تم محبت رکھتے ہو وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کروگے مِنْ شَيْءٍ : سے (کوئی) چیز فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اس کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
ہرگز نہ پاؤ گے تم بھلائی کو یہاں تک کہ خرچ کرو اس چیز میں سے جس سے تم محبت کرتے ہو، اور جو بھی کوئی چیز خرچ کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کا جاننے والا ہے۔
(1) مالک واحمد وعبدی بن حمید، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ابو طلحہ انصاری ؓ مدینہ منورہ میں زیادہ کھجوروں والے تھے (یعنی ان کے کھجوروں کے باغ تھے) اور ان کے مالوں میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ مال ان کے نزدیک بیر حاء تھا اور یہ مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھے نبی اکرم ﷺ اس میں داخل ہو کر پانی پیتے تھے جس میں خوشبو تھی جب یہ آیت ” لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون وما تنفقوا من شیء فان اللہ بہ علیم “ نازل ہوئی ابو طلحہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون “ اور میرے مالوں میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ مال بیرحاء ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے لئے صدقہ ہے میں امید کرتا ہو اس کی نیکی کا اور اس کے ذخیرے کا اللہ کے نزدیک یا رسول اللہ جہاں آپ پسند فرمائیں اس کو خرچ کریں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا واہ واہ یہ تو بہت نفع دینے والا مال ہے یہ تو بہت نفع دینے والا مال ہے تحقیق میں نے سن لیا جو کچھ تو نے کہا میرا خیال ہے کہ تو اس کو اپنے (غریب) رشتہ داروں میں بانٹ دے ابو طلحہ ؓ نے فرمایا میں کرتا ہوں ایسا یا رسول اللہ ! پھر ابو طلحہ ؓ نے اپنے رشتہ داروں اور اپنے چچا کے بیٹوں میں تقسیم فرمادیا۔ ابو طلحہ ؓ کا باغ صدقہ کرنا (2) عبد بن حمید، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن جریر نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت ” لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون “ نازل ہوئی تو ابو طلحہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے ہمارے مالوں کا سوال کیا ہے آپ گواہ بن جائیے کہ میں نے اپنی زمین جو بیرحاء میں ہے اللہ تعالیٰ کے لیے (صدقہ) کردیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس زمین کو اپنے (غریب) رشتہ داروں کو دے دو چناچہ انہوں نے یہ زمین حسان بن ثابت اور ابی ابن کعب ؓ کو دے دی۔ (3) احمد، عبد بن حمید، ترمذی نے (اس کو صحیح کہا) ابن جریر وابن مردویہ نے لفظ آیت ” لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون “ اور ” من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا “ نازل ہوئی تو ابو طلحہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرا فلاں فلاں باغ صدقہ ہے اگر میں اس کی طاقت رکھتا کہ اس کو چھپا لوں تو میں یہ بات ظاہر نہ کرتا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے خاندان کے (غریب) لوگوں کو دے دو ۔ (4) عبد بن حمید اور البزار نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ مجھے اس آیت ” لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون “ نے حاضر کیا میں نے ان چیزوں کا ذکر کیا جو مجھے اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی تھیں۔ میں نے اپنی لونڈی مرجانہ رومی کے سوا اپنے نزدیک کسی چیز کو زیادہ محبوب نہیں پایا پھر میں نے کہا کہ یہ لونڈی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے آزاد ہے اگر میں کسی ایسی چیز کی طرف دوبارہ پلٹتا جس میں اللہ کی راہ میں دے دیا ہوتا تو پھر میں لونڈی سے نکاح کرتا بعد میں آپ نے حضرت نافع ؓ سے اس کا نکاح کردیا۔ (5) عبد بن حمید وابن جریر اور ابن المنذر نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے موسیٰ اشعری ؓ کو لکھا کہ ان کے لیے ایک باندی جلولاء کے قیدیوں میں سے خرید کر ان کی طرف بھیج دیں انہوں نے باندی خرید کر حضرت عمر کے پاس بھیج دی اور فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون “ پھر آپ نے (باندی) کو آزاد کردیا۔ (6) سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے محمد بن المنکدر (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت ” لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون “ نازل ہوئی تو زید بن حارثہ ؓ ایک گھوڑا لے کر آئے جس کو شبلہ کہا جاتا تھا اور ان کے نزدیک یہ مال سب سے زیادہ محبوب تھا عرض کیا یہ گھوڑا صدقہ ہے رسول اللہ ﷺ نے قبول فرمایا اور ان ہی کے بیٹے اسامہ کو دے دیا رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید ؓ کے چہرہ کی طرف دیکھا اور فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تجھ سے اس کو قبول فرما لیا ہے۔ زید بن حارثہ ؓ کا گھوڑا صدقہ کرنا (7) عبد الرزاق وابن جریر معمر کے طریق سے ایوب (رح) اور دوسرے روایتوں سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت ” لن تنالوا البر “ نازل ہوئی تو زید بن حارثہ ؓ ایک گھوڑا لے کر آئے جو ان کو محبوب تھا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ اللہ کے راستہ میں (صدقہ) ہے رسول اللہ ﷺ نے اس پر اسامہ بن زید ؓ کو سوار فرما دیا زید ؓ نے گویا اپنے دل میں کوئی اضطراب پایا جب نبی اکرم ﷺ نے زید کی اس کیفیت کو دیکھا تو فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اس کو قبول فرما لیا ہے۔ (8) عبد بن حمید نے ثابت بن حجاج (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ جب یہ آیات نازل ہوئی لفظ آیت ” لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون “ تو زید ؓ نے فرمایا اے اللہ آپ جانتے کہ میرے پاس کوئی مال نہیں جو مجھے زیادہ محبوب ہو میرے اس گھوڑے سے (لہٰذا) میں اس کو مسکینوں پر صدقہ کرتا ہوں اور وہ اسے لگاتار بیچتے رہے اور یہ ان کو بہت پسند تھا تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے دوبارہ خریدنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے خریدنے سے منع فرما دیا۔ (9) ابن جریر نے میمون بن مہران (رح) سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے ابوذر سے سوال کیا کہ کون سے اعمال افضل ہیں ؟ انہوں نے فرمایا نماز اسلام کا ستون اور جہاد عمل کا ستون ہے (یعنی سب سے بلند ہے) اور صدقہ عجیب چیز ہے اس آدمی نے کہا اے ابوذر ؓ ! تو نے ایک ایسی چیز کو چھوڑ دیا جو میرے دل میں یہ بڑا معتبر عمل ہے میں نے آپ کو اس کا ذکر کرتے ہوئے نہیں دیکھا ابوذر ؓ نے پوچھا وہ کون سا ہے ؟ تو اس آدمی نے کہا روزہ تو انہوں نے فرمایا (یہ عمل بھی) عبادت ہے لیکن افضل عمل نہیں ہے اور یہ آیت تلاوت فرمائی لفظ آیت ” لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون “ حضرت ابوذر ؓ کی وصیت (10) عبد بن حمید نے بنو سلیم کے ایک آدمی سے روایت کیا ہے کہ میں ابوذر ؓ سے ربذ میں ملا جہاں ان کا اونٹوں کا ریوڑ تھا اور ان کا ایک کمزور چرانے والا تھا میں نے عرض کیا اے ابوذر ؓ ! کیا میں آپ کا ساتھ نہ بن جاؤں میں آپ کے اونٹوں کی حفاظت کروں اور میں آپ سے بعض وہ چیز حاصل کروں گا جو آپ کے پاس ہے شاید کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کے ذریعہ نفع دے ابوذر ؓ نے فرمایا میرا ساتھی وہ ہے جو میری اطاعت کرے اگر تو میری اطاعت کرنے والا ہوگا تو میرا ساتھ ہوگا ورنہ نہیں میں نے عرض کیا وہ کیا چیز ہے کہ جس میں آپ مجھ سے اطاعت کا سوال کرتے ہیں ابوذر ؓ نے کہا اپنے مال میں سے جب کوئی مال لانے کا کہوں تو سب سے افضل مال تلاش کر کے لائے فرمایا میں (یعنی جیسے کہوں وہ افضل اور عمدہ مال لائے) پھر راوی نے کہا میں ان کے پاس ٹھہرا رہا جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا ان سے پانی کی حاجت کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا میرے پاس ایک اونٹ اونٹوں میں سے لے آ۔ میں نے اونٹ تلاش کیا سب سے اچھا اونٹ بڑا مطیع تھا میں نے اس کو پکڑنے کا ارادہ کیا پھر مجھے ان کی حاجت اس اونٹ کی طرف یاد آگئی تو میں نے اس کو چھوڑ دیا اور میں نے ایک اونٹنی کو پکڑا اس اونٹ کے بعد وہی سب سے اچھی تھی میں اس کو لے آیا انہوں نے اس سے نظر پھیرلی اور فرمایا اے بنو سلیم کے بھائی تو نے میری خیانت کی جب میں نے ان کی بات سمجھ لی اس بارے میں تو میں نے اس اونٹنی کا راستہ چھوڑ دیا اور میں اونٹ کی طرف واپس آیا میں نے پھر اسی اونٹ کو پکڑا اور اس کو لے آیا آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کیا دو و آدمی اپنے عمل کا ثواب کمانا چاہتے ہیں دو آدمیوں نے کہا ہم آپ نے فرمایا اسے لے جاؤ پھر اس کو رسی سے باندھ دو پھر اس کو ذبح کرو پھر آبادی کے گھر شمار کرو اور اس اونٹ کے گوشت کو ان کی تعداد کے مطابق بانٹ دو اور ابوذر ؓ نے فرمایا میں نہیں جانتا کہ تو میری وصیت کی حفاظت کرے گا تو اس پر غالب رہا یا تو بھول گیا تو میں تجھ کو معذور جانوں میں نے کہا میں آپ کی وصیت کو نہیں بھلا لیکن جب میں نے اونٹ تلاش کئے تو میں نے اسی اونٹ کو پایا جو ان میں افضل تھا میں نے اس کو پکڑ نے کا ارادہ کیا تو میں نے تمہاری حاجت کو یاد کرتے ہوئے اس کو چھوڑ دیا تو نے اس کو نہیں چھوڑا تھا مگر میری حاجت کے لیے ؟ بلاشبہ میری حاجت کا دن وہ ہے جس دن مجھے قبر میں رکھا جائے گا سو یہ دن میری حاجت کا ہوگا بلاشبہ مال میں تین شریک ہیں تقدیر اس بات کا انتظار نہیں کرتی اچھائی یا برائی کو لے جانے کا اور وارث انتظار کرتا ہے کہ تو کب مرے پورا پورا لیتا ہے اور تو مذمت کیا ہوا ہوتا ہے اور تیسرا تو خود اور اگر تو یہ چاہتا ہے کہ تو ان تینوں میں سے عاجز ترین نہ ہو پس تو ہرگز ایسا نہ ہوجا (کہ اللہ کے راستہ میں) بالکل ہی مال خرچ نہ کرے) کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون “ اور بیشک یہ مال ان مالوں میں سے ہے جو مجھ کو زیادہ محبوب ہیں پس میں اس بات کو محبوب رکھتا ہوں کہ میں اس کو اپنے لیے آگے بھیج دوں۔ (11) احمد نے حضرت عائش ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک گوہ لائی گئی آپ نے اس کو نہیں کھایا اور نہ اس سے منع فرمایا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہم اس کو مسکینوں کو کھلا دیں ؟ آپ نے فرمایا ان کو مت کھلاؤ ان چیزوں میں سے جن کو تم نہیں کھاتے ہو۔ (12) ابو نعیم نے حلیہ میں مجاہد کے طریق سے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت ” لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون “ نازل ہوئی تو انہوں نے ایک لونڈی کو بلایا اور اس کو آزاد کردیا۔ (13) احمد نے الزھد میں ابن المنذر ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نماز کی حالت میں قرآن پڑھتا (جب) اس آیت پر پہنچے لفظ آیت ” لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون “ تو اپنی ایک لونڈی کو آزاد کردیا نماز میں اشارہ کرتے ہوئے۔ (14) ابن المنذر نے نافع (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ شکر خرید کر اس کو صدقہ کردیتے تھے ہم نے آپ سے عرض کیا اگر اپ اس قیمت سے غلہ خرید لیتے تو ان کے لیے یہ زیادہ نفع مند ہوتا تو انہوں نے فرمایا میں اس بات کو جانتا ہوں جو تم لوگ کہتے ہو لیکن میں نے اللہ تعالیٰ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لفظ آیت ” لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون “ اور ابن عمر خود شکر پسند فرماتے تھے (اس لیے اپنی پسندیدہ چیز شکر کو صدقہ فرماتے تھے) ۔ (15) ابن المنذر وابن ابی حاتم نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” لن تنالوا البر “ سے جنت مراد ہے۔ (16) عبد بن حمید وابن جریر اور ابن المنذر نے قتادہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ ہرگز تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے یہاں تک کہ تم چاہتے ہو لفظ آیت ” وما تنفقوا من شیء فان اللہ بہ علیم “ (یعنی جو کچھ تم کسی چیز میں سے خرچ کرتے ہو گھٹیا بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس کو جانتے ہیں) وہ (اللہ تعالیٰ کے ہاں) محفوظ ہے اس کا بدل عطا فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ اس کو جاننے والے ہیں اور اس کی قدر دانی کرنے والے ہیں۔
Top