Dure-Mansoor - Al-Maaida : 42
سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ١ؕ فَاِنْ جَآءُوْكَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ١ۚ وَ اِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ یَّضُرُّوْكَ شَیْئًا١ؕ وَ اِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ
سَمّٰعُوْنَ : جاسوسی کرنے والے لِلْكَذِبِ : جھوٹ کے لیے اَكّٰلُوْنَ : بڑے کھانے والے لِلسُّحْتِ : حرام فَاِنْ : پس اگر جَآءُوْكَ : آپ کے پاس آئیں فَاحْكُمْ : تو فیصلہ کردیں آپ بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اَوْ : یا اَعْرِضْ : منہ پھیر لیں عَنْهُمْ : ان سے وَاِنْ : اور اگر تُعْرِضْ : آپ منہ پھیر لیں عَنْهُمْ : ان سے فَلَنْ : تو ہرگز يَّضُرُّوْكَ : آپ کا نہ بگاڑ سکیں گے شَيْئًا : کچھ وَاِنْ : اور اگر حَكَمْتَ : آپ فیصلہ کریں فَاحْكُمْ : تو فیصلہ کریں بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان بِالْقِسْطِ : انصاف سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُقْسِطِيْنَ : انصاف کرنے والے
یہ لوگ جھوٹ کو بہت زیادہ سننے والے ہیں، خوب حرام کمانے والے ہیں، سو اگر وہ آپ کے پاس آئیں تو ان کے درمیان فیصلہ فرما دیجئے یا اس نے اعراض فرما لیجئے، اور اگر آپ اعراض کریں تو یہ آپ کو کچھ بھی ضرر نہیں پہنچا سکتے اور اگر آپ فیصلہ دیں تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمالیجئے۔ بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
(1) امام ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت سمعون للکذب اکلون للسحت سے مراد ہے کہ انہوں نے فیصلہ کرنے میں رشوت لی اور ناحق فیصلہ کیا۔ (2) امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ فرمایا کہ لفظ آیت سمعون للکذب اکلون للسحت سے مراد ہے کہ یہ یہود کے احکام ہیں کہ وہ جھوٹ کو قبول کرتے اور رشوت لیتے تھے۔ (3) امام عبد الرزاق الفریابی، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن منذر اور ابو الشیخ نے ابن مسعود ؓ سے روایت فرمایا سحت سے مراد ہے دین میں رشوت لینا۔ سفیان نے فرمایا کہ فیصلہ کرنے میں رشوت لینا۔ (4) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا جو شخص کسی آدمی کی سفارش کرے تاکہ اس سے اس کا ظلم دور ہوجائے یا اس پر حق لوٹ آئے (یعنی اس کو حق مل جائے) پھر اس نے اس کو ہدیہ دیا اور اس نے اس کو قبول کرلیا تو یہ حرام کمائی ہے۔ کہا گیا اے عبد الرحمن کہ ہم فیصلہ کرنے میں رشوت لینے کو حرام کمائی شمار کرتے تھے۔ عبد اللہ نے فرمایا یہ کفر ہے (کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا) لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون (5) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، طبرانی اور بیہقی نے سنن میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ان سے حرام کمائی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اس سے مراد رشوت ہے۔ کہا گیا کہ فیصلہ کرنے میں (رشوت لینا مراد ہے) فرمایا وہ تو کفر ہے پھر (یہ آیت) پڑھی لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون۔ (6) امام عبد الرزاق، سعید بن منصور، ابن جریر، ابن منذر، ابوالشیخ اور بیہقی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ان سے سحت کے بارے میں پوچھا گیا کیا وہ فیصلہ کرنے میں رشوت لینا مراد ہے ؟ فرمایا نہیں لفظ آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الظلمون یعنی وہ لوگ فاسق ہیں لیکن سحت یہ ہے کہ کوئی آدمی ظلم کے خلاف تجھ سے مدد لے وہ تحفہ دے جسے تو قبول کرلے تو یہ سحت یعنی حرام کمائی ہے۔ (7) امام ابن منذر نے مسروق (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عمر بن خطاب ؓ سے عرض کیا۔ آپ بتائیے فیصلہ کرنے میں رشوت لینا سحت سے ہے۔ فرمایا نہیں لیکن وہ کفر ہے بلکہ سحت پر یہ ہے کہ ایک آدمی کی بادشاہ کے نزدیک قدرومنزلت ہو کسی آدمی کی بادشاہ کی طرف کوئی حاجت ہو۔ اور وہ اس کی حاجت کو پورا نہ کرے۔ جب تک اسے تحفہ نہ دیا جائے (یہ ہے سحت یعنی حرام کمائی) حکام کے لئے رشوت لینا حرام ہے (8) امام ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حکام کا رشوت لینا حرام ہے اور وہ سحت یعنی حرام کمائی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذکر فرمایا۔ (9) امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ گوشت جو حرام کمائی سے پیدا ہو۔ تو آگ اس کے لئے زیادہ لائق ہے۔ کہا گیا اے رسول اللہ ﷺ سحت کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا فیصلہ کرنے میں رشوت لینا۔ (10) امام عبد بن حمید نے زید بن ثابت ؓ سے روایت کی کہ سحت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اس سے مراد رشوت ہے۔ (11) امام عبد بن حمید نے علی ابن ابی طالب ؓ سے سحت کے بارے میں پوچھا گیا۔ آپ نے فرمایا اس سے مراد رشوت ہے۔ ان سے پھر کہا گیا کیا فیصلہ کرنے میں ؟ فرمایا وہ تو کفر ہے۔ (12) امام عبد بن حمید اور ابن جریر نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ حرام کمائی کے دو دروازے ہیں ان دونوں سے لوگ کھاتے ہیں۔ فیصلہ کرنے میں رشوت اور زانیہ عورت کی مہر۔ (13) امام ابو الشیخ نے علی ؓ سے روایت کیا کہ سحت کے آٹھ دروازے ہیں۔ سب سے برا سحت حاکم کی رشوت ہے۔ رنڈی عورت کی کمائی، نرکومادہ پر کروانے کی اجرت، مردار کی قیمت، شراب کی قیمت، کتے کی قیمت، پچھنے لگانے کی کمائی اور کاہن کی اجرت۔ (14) امام عبد الرزاق نے طریف (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضرت علی ؓ ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو ایک قوم کے درمیان اجر کا حساب لگا رہا تھا۔ اور دوسرے الفاظ میں ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان حصے تقسیم کر رہا تھا۔ تو علی ؓ نے اس سے فرمایا کہ بلاشبہ تو حرام کمائی کھا رہا ہے۔ شوقیہ کتے کی قیمت حرام ہے (15) امام فریابی اور ابن جریر نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ زانیہ عورت کا مہر سحت میں سے ہے اور کتے کی قیمت (حرام ہے) مگر شکاری کتے کی قیمت (حلال ہے) اور کوئی چیز فیصلہ کرنے میں لی جائے۔ (16) امام عبد الرزاق اور مردویہ نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا امراء کو دئیے جانے والے تحائف سحت ہیں۔ (17) امام ابن مردویہ اور دیلمی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چھ چیزیں حرام کمائی میں سے ہیں حاکم کا رشوت لینا اور یہ سب سے بڑی سحت ہے۔ کتے کی قیمت، نر کو مادہ پر کروانے کی اجرت، رنڈی عورت کا مہر، پچھنے لگوانے والوں کی کمائی اور کاہن کی اجرت۔ (18) امام عبد بن حمید نے طاؤس ؓ سے روایت کیا کہ عمال کو دیئے جانے والے تحائف سحت ہیں۔ (19) امام عبد بن حمید نے یحییٰ بن سعید ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے جب عبد اللہ بن رواحہ ؓ کو خیبر والوں کی طرف بھیجا۔ تو ان لوگوں نے ان کو ایک چادر ہدیہ میں دی۔ فرمایا یہ سحت ہے۔ (20) امام عبد الرزاق، حاکم اور بیہقی نے شعب الایمان میں عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے رشوت لینے اور رشوت دینے والے پر لعنت کی ہے۔ (21) امام احمد اور بیہقی نے ثوبان ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رشوت لینے والا اور رشوت دینے والے پر اور رائش پر لعنت کی ہے۔ رائش وہ آدمی ہے جو ان دونوں کے درمیان واسطہ بنتا ہے۔ (یعنی رشوت کا لین دین کرتا ہے) (22) امام حاکم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص دس آدمیوں کا والی بنا پھر اس نے ان کے درمیان اس طرح پر فیصلے کئے کہ انہوں نے ان کو پسند کیا یا ناپسند کیا تو وہ اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں گے۔ اگر اس نے انصاف کیا رشوت نہیں لی اور ان پر ظلم نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو (عذاب سے) آزاد کردیں گے اور اگر اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم کے علاوہ پر فیصلہ کیا، رشوت لی اور اس میں طرفداری کی تو اس کی بائیں ہاتھ کو داہنے ہاتھ کی طرف باندھ دیا جائیگا۔ پھر اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا اور وہ اس کی تہہ میں پانچ سو سال تک نہیں پہنچے گا۔ (23) امام ابن مردویہ نے عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عنقریب میرے بعد ایسے حکمران آئیں گے جو حلال کرلیں گے نیند کے ساتھ شراب کو، صدقہ کے ساتھ کمی کو اور ہدیہ کے ساتھ سحت کو اور موعظہ کے ساتھ قتل کو۔ اور وہ بےگناہ لوگوں کو قتل کریں گے تاکہ عام لوگ ان کے لئے مسخر ہوجائیں۔ اس طرح وہ بڑھ جائیں گے گناہ میں۔ (24) امام خطیب نے تاریخ میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا سحت (یعنی حرام کمائی) میں سے یہ ہے : پچھنے لگوانے والی کمائی، کتے کی قیمت، مینڈک کی قیمت، سور کی قیمت، شراب کی قیمت، مردار کی قیمت، خون کی قیمت، نرکومادہ پر کدوانے کی قیمت، نوحہ کرنے والی کی اجرت، گانے والی کی اجرت، کاہن کی اجرت، جادوگر کی اجرت، کھوجی کی اجرت، درندوں کی کھالوں کی قیمت، مردار کی کھالوں کی قیمت، لیکن جب ان کی دیاغت کرلی جائے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں اور مورتیاں اور تصویریں بنانے کی اجرت، اور شفارش کرنے پر بدلہ لینا اور غروہ کا انعام۔ (25) امام عبد بن حمید نے عبد اللہ بن شفیق (رح) سے روایت کیا کہ یہ روٹیاں جو معلم لے لیتے ہیں یہ بھی سحت یعنی حرام کمائی میں شامل ہیں۔ (26) امام ابن ابی حاتم، نحاس نے ناسخ میں، طبرانی، حاکم (انہوں نے اس کی تصحیح بھی کی ہے) ابن مردویہ اور بیہقی نے سنن میں ابن عباس ؓ سے روایت کی کہ دو آیتیں ہیں جو اس سورة یعنی مائدہ سے منسوخ کردی گئیں (جیسے) آیۃ القلائد ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول لفظ آیت فان جاءوک فاحکم بینھم او اعرض عنھم رسول اللہ ﷺ کو اختیار دیا گیا ہے۔ اگر چاہیں تو ان کے درمیان فیصلہ فرما دیں اگر چاہیں تو ان سے اعراض فرمالیں۔ اور ان کو ان کے احکام کی طرف پھیر دیں۔ اور (یہ آیت) نازل ہوئی لفظ آیت وان احکم بینھم بما انزل اللہ ولا تتبع اھواء ھم واحذرھم (المائدہ : آیت 49) پھر فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا کہ آپ ان کے درمیان فیصلہ فرمائیں ان احکام کے ساتھ جو ہماری کتاب میں ہیں۔ (27) ابو عبیدہ، امام ابن منذر اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت فان جاءوک فاحکم بینھم کے بارے میں فرمایا کہ اس کو اس (آیت) لفظ آیت وان احکم بینھم بما انزل اللہ نے منسوخ کردیا۔ (28) امام ابن اسحاق اور ابن جریر نے عکرمہ (رح) سے اس طرح روایت کیا ہے ابن شہاب (رح) سے روایت کی کہ یہ آیت جو سورة مائدہ میں ہے یعنی لفظ آیت فان جاءوک فاحکم بینھم رجم کے بارے میں ہے۔ (29) امام ابن اسحاق، ابن جریر، ابن منذر، طبرانی، ابوالشیخ، ابن مردویہ نے عکرمہ کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت جو سورة مائدہ میں ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت فاحکم بینھم او اعرض عنھم سے لے کر لفظ آیت المقسطین تک۔ یہ (یہودیوں کے قبیلہ) بنو نضیر اور بنو قریظہ کے دیت کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ اس وجہ سے کہ قبیلہ بنو نضیر اپنے مقتولین کے بارے میں پوری دیت کا مطالبہ کرتے تھے۔ کیونکہ وہ عزت اور مرتبہ میں بڑھے ہوئے تھے اور قبیلہ بنو قریظہ میں آدھی دیت کا مطالبہ کرتے تھے۔ یہ اپنا فیصلہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر آئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو حق بات پر آمادہ کیا اور سب کے لئے دیت کو برابر کردیا۔ (30) ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ، ابن مردویہ، حاکم (اور انہوں نے اس کو صحیح قرار دیا) اور بیہقی نے سنن میں ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ (یہودیوں کے دو قبیلے) بنو قریظہ اور نضیر تھے۔ نضیر والے عزت اور مرتبہ میں قریظہ سے بڑھے ہوئے تھے۔ جب بنو نضیر کا کوئی آدمی قریظہ کے کسی آدمی کو قتل کردیتا تو سو وسق کھجور ادا کی جاتی (دیت میں) اور جب بنو قریظہ کا کوئی آدمی بنو نضیر کے کسی آدمی کو قتل کردیتا تو اس کے بدلہ میں (قاتل کو) قتل کردیا جاتا۔ جب رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری ہوئی تو بنو نضیر کے آدمی نے بنو قریظہ کے ایک آدمی کو قتل کردیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم کو قاتل دے دو تاکہ ہم اس کو قتل کریں اور انہوں نے کہا ہمارے اور تمہارے درمیان نبی ﷺ فیصلہ فرمائیں گے۔ چناچہ وہ لوگ آپ کے پاس آئے تو (یہ آیت) نازل ہوئی لفظ آیت وان حکمت فاحکم بینھم بالقسط اور قسط سے مراد جان کے بدلے جان ہے پھر (یہ آیت نازل ہوئی) لفظ آیت افحکم الجاھلیۃ یبغون (المائدہ آیت 50) (31) امام ابو الشیخ نے سدی (رح) سے روایت کی ہے کہ انہوں نے لفظ آیت فان جاءوک فاحکم بینھم او اعرض عنھم کے بارے میں فرمایا جس دن یہ آیت نازل ہوئی تو آپ کے لئے سہولت تھی۔ اگر چاہیں تو فیصلہ فرمائیں اور اگر نہ چاہیں تو فیصلہ نہ فرمائیں۔ پھر فرمایا لفظ آیت وان تعرض عنھم فلن یضروک شیئا نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ یہ آیت نے لفظ آیت وان احکم بینھم بما انزل اللہ ولا تتبع اھواء ھم (المائدہ 49) یہود کے مابین قرآن کے مطابق فیصلہ (32) امام عبد بن حمید اور نحاس نے اپنی ناسخ میں شعبی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت فان جاءوک فاحکم بینھم او اعرض عنھم کے بارے میں فرمایا کہ اگر آپ چاہیں تو ان کے درمیان فیصلہ فرمائیں اور اگر نہ چاہیں تو فیصلہ نہ فرمائیں۔ (33) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے ابراہیم اور شعبی رحمۃ اللہ علیہا دونوں سے روایت کی ہے کہ جب اہل کتاب مسلمانوں کے حاکموں میں سے کسی حاکم کے پاس آئیں اگر چاہیں تو ان کے درمیان فیصلہ کردیں۔ اگر چاہیں تو ان سے اعراض کریں اور اگر ان کے درمیان فیصلہ کریں تو اس حکم کے ساتھ فیصلہ کریں جو اللہ تعالیٰ نے اتارا۔ (34) امام عبد الرزاق اور عبد بن حمید نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ اسے اختیار ہوگا (چاہے فیصلہ کرے، چاہے نہ کرے) (35) امام عبد بن حمید نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ذمی لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ لوگ (اپنا معاملہ) مسلمان حکام کے پاس لے جاتے ہیں تو فرمایا کہ ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ کریں۔ (36) امام ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ ذمی لوگ جب (اپنا معاملہ) مسلمانوں کے پاس لے جائیں تو مسلمانوں کے حکم کے مطابق ان کا فیصلہ کرے۔ (37) سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابو الشیخ اور بیہقی نے ابراہیم تمیمی (رح) سے روایت کی کہ انہوں نے فرمایا کہ لفظ آیت وان حکمت فاحکم بینھم بالقسط میں قسط کا معنی رجم ہے۔ (38) امام ابن ابی حاتم نے مالک (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ان اللہ یحب المقسطین کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے انصاف کرنے والے قول میں اور فعل میں۔ (39) امام عبد الرزاق نے زہری (رح) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا یہ طریقہ چلا آرہا ہے کہ حقوق اور ان کے میراث کے مسائل میں ان کے علماء کی طرف لوٹا دیئے جائیں۔ ہاں اگر وہ حد میں رغبت کرنے ہوئے آئیں تو اس بارے میں ان کے درمیان فیصلہ کردیں اور ان کے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق کردیں۔ اسی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ سے فرمایا لفظ آیت وان حکمت فاحکم بینھم القسط
Top