Al-Qurtubi - Al-Maaida : 42
سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ١ؕ فَاِنْ جَآءُوْكَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ١ۚ وَ اِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ یَّضُرُّوْكَ شَیْئًا١ؕ وَ اِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ
سَمّٰعُوْنَ : جاسوسی کرنے والے لِلْكَذِبِ : جھوٹ کے لیے اَكّٰلُوْنَ : بڑے کھانے والے لِلسُّحْتِ : حرام فَاِنْ : پس اگر جَآءُوْكَ : آپ کے پاس آئیں فَاحْكُمْ : تو فیصلہ کردیں آپ بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اَوْ : یا اَعْرِضْ : منہ پھیر لیں عَنْهُمْ : ان سے وَاِنْ : اور اگر تُعْرِضْ : آپ منہ پھیر لیں عَنْهُمْ : ان سے فَلَنْ : تو ہرگز يَّضُرُّوْكَ : آپ کا نہ بگاڑ سکیں گے شَيْئًا : کچھ وَاِنْ : اور اگر حَكَمْتَ : آپ فیصلہ کریں فَاحْكُمْ : تو فیصلہ کریں بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان بِالْقِسْطِ : انصاف سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُقْسِطِيْنَ : انصاف کرنے والے
(یہ) جھوٹی باتیں بنانے کے لئے جاسوسی کرنے والے اور (رشوت کا) حرام مال کھانیوالے ہیں۔ اگر یہ تمہارے پاس (کوئی مقدمہ فیصل کرانے کو) آئیں تو تم ان میں فیصلہ کردینا یا اعراض کرنا اگر تم ان سے اعراض کرو گے تو وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اگر فیصلہ کرنا چاہو تو انصاف کا فیصلہ کرنا کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
آیت نمبر : 42۔ اس آیت میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” سمعون للکذب “ تاکید اور تفخیم کے لیے مکرر ذکر کیا۔ مسئلہ نمبر : (2) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” اکلون للسحت “۔ یعنی کثرت سے رشوت کھاتے ہیں، سحت کا لغوی معنی ہلاکت اور شدت ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” فیسحتکم بعذاب (طہ : 61) وہ تمہارا نام ونشان مٹا دے گا کسی عذاب سے، فرزدق نے کہا : وعض زمان یا بن مروان لم یدع من المال الا مسحیا او مجلف “۔ اس طرح روایت ہے۔ اومجلف “ مرفوع ہے معنی پر عطف کی بنا پر، کیونکہ لم یدع کا معنی ہے لم یبق حالق (مونڈنے والے) کو کہا جاتا ہے : اسحت یعنی اس نے اسے جڑ سے اکھیڑ دیا حرام مال کو سحت کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ نیکیوں کا صفایا کردیتا ہے اور انہی کلیۃ ختم کردیتا ہے فراء نے کہا : اس کی اصل کلب الجوع ہے کہا جاتا ہے : رجل مسحوت المعدۃ، یعنی جس کا معدہ ہی نہ وہ، گویا وہ رشوت لینے والا ہے اور حرص کی وجہ سے حرام کھانے والا ہے جو اسے دیا جاتا ہے اس شخص کی مانند ہے جو حرض کیوجہ معدہ ہی نہیں رکھتا، حرام کو سحت کہا جاتا ہے کیونکہ وہ انسان کی مروت کو ختم کردیتا ہے۔ میں کہتا ہوں : پہلا قول اولی ہے کیونکہ دین کے جانے کے ساتھ مروت بھی چلی جاتی ہے اس کی مروت نہیں جس کا دین نہیں حضرت ابن مسعود ؓ وغیرہ نے کہا السحت سے مراد شوت ہے (1) (تفسیر طبری، جلد 6، صفحہ 288) حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا حاکم کی رشوت سحت سے ہے نبی کریم ﷺ سے مروی ہے ہر وہ گوشت جو السحت سے پیدا ہوتا ہے آگ اس کی مستحق ہے صحابہ نے پوچھا : یا رسول اللہ ﷺ السحت کیا ہے ؟ فرمایا : فیصلہ میں رشوت لینا “ (2) (تفسیر طبری، جلد 6، صفحہ 288) حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے فرمایا : اسحت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کی کوئی حاجت پوری کرے، پھر وہ اسے ہدیہ دے تو وہ اسے قبول کرلے، ابن خویز منداد نے کہا : السحت یہ ہے کہ آدمی اپنے مرتبہ کی وجہ سے مال کھائے، یہ اس طرح ہے کہ سلطان کی بارگاہ میں مرتبہ ہو، پھر کوئی انسان اس سے حاجت طلب کرے تو وہ اس کی حاجت پوری نہ کرے، مگر رشوت لے کر، سلف صالحین کا کوئی اختلاف نہیں کہ کسی کے حق کو باطل کرنے کے لیے رشوت لینا جائز نہیں اس پر رشوت لینا سخت حرام ہے، امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : جب حاکم رشوت لے گا تو وہ اسی وقت معزول ہوجائے گا اگرچہ اسے معزول نہ بھی کیا جائے اور رشوت لینے کے بعد اس کا ہر فیصلہ باطل ہے۔ میں کہتا ہوں : اس میں اختلاف کرنا جائز نہیں ان شاء اللہ، کیونکہ رشوت لینا فسق ہے اور فاسق کا فیصلہ جائز نہیں ہے۔ واللہ اعلم، نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے پر اللہ کی لعنت ہے “۔ (3) (جامع ترمذی، کتاب الاحکام جلد 1، صفحہ 159، ایضا ابن ماجہ، حدیث 2303، ضیاء القرآن پبلیکیشنز) حضرت علی ؓ سے مروی ہے فرمایا : سحت سے مراد رشوت، کاہن کی کمائی اور فیصلہ پر مال لینا ہے۔ (4) (تفسیر طبری، جلد 6، صفحہ 289) وہب بن منبہ سے مروی ہے ان سے پوچھا گیا : کیا رشوت ہر چیز میں حرام ہے ؟ انہوں نے فرمایا : نہیں رشوت وہ ناپسندیدہ ہے جو تو اس لیے دے تاکہ تجھے وہ مل جائے تو تیری نہیں ہے یا تو اس حق کو دور کرنے کے لیے دے جو تجھ پر لازم ہے، لیکن جو رشوت تو اپنے دین، اپنے خون اور اپنے مال کو بچانے کے لیے دے وہ حرام نہیں، ابواللیث سمرقندی نے کہا : ہم اسی پر عمل کرتے ہیں کوئی حرج نہیں کہ آدمی اپنے نفس اور اپنے مال کی حفاظت کے لیے دے، اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے یہ مروی ہے وہ حبشہ میں تھے تو انہوں نے دو دینار رشوت دیئے اور فرمایا : گناہ رشوت لینے والے پر ہے نہ کہ دینے والے پر، مہدوی نے کہا : جس نے حجام (پچھنے لگانے والا) کی کمائی کے ساتھ سحت کا ذکر کیا اس کا مطلب ہے کہ رشوت لینے والے کی مروت کو ختم کردیتا ہے۔ میں کہتا ہوں : حجام (پچھنے لگانے والا) کی کمائی پاک ہے جس نے کوئی پاک چیز لی اس کی مروت ساقط نہیں ہوتی اور اس کا مرتبہ کم نہیں ہوتا، امام مالک (رح) نے حمید الطویل سے انہوں نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے پچھنے لگوائے اور ابو طیبہ نے آپ ﷺ کو پچھنے لگائے تھے، رسول اللہ ﷺ نے اسے ایک صاع کھجور دینے کا حکم دیا تھا اور اس کے مالکوں کو اس کے خراج میں کمی کرنے کی سفارش کی تھی۔ (1) (صحیح بخاری، کتاب البیوع، جلد 1، صفحہ 283) ابن عبد البر نے کہا : یہ دلیل ہے کہ پچھنے لگانے والے کی کمائی پاک ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے نہ ثمن بنایا، جعل (انعام) بنایا نہ کسی باطل چیز کا عوض بنایا، حضرت انس ؓ کی حدیث اس حدیث کے لیے ناسخ ہے جس میں نبی مکرم ﷺ نے خون کی کمائی کو حرام قرار دیا اور پچھنے لگانے والے کے اجارہ سے جو مکروہ فرمایا اس کے لیے بھی ناسخ ہے، بخاری ابو داؤد نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے پچھنے لگوائے اور پچھنے لگوانے والے کو اجرت دی، اگر یہ حرام ہوتی تو آپ اسے عطا نہ فرماتے۔ (2) (سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، جلد 2، صفحہ 130، ایضا حدیث 2969، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) السحت اور السحت دونوں لغتیں ہیں اور دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے، ابو عمرو، ابن کثیر اور کسائی نے دونوں ضموں کے ساتھ پڑھا ہے۔ باقی قراء نے صرف سین کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے، عباس بن فضل نے خارجہ بن مصعب سے انہوں نے نافع سے (آیت) ” اکالون للسحت “۔ سین کے فتحہ اور حال کے سکون کے ساتھ روایت کیا ہے، زجاج نے کہا : سحتہ کا معنی تھوڑا تھوڑا لے جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فان جآءوک فاحکم بینھم اواعرض عنھم “۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تخییر ہے یہ قشیری نے ذکر کیا ہے اس کا معنی گزر چکا ہے کہ وہ ایسے لوگ تھے جن سے معاہدہ تھا، ذمی نہیں تھے۔ نبی مکرم ﷺ جب مدینہ طیبہ آئے تو یہود کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، ہم پر کفار کے درمیان فیصلہ کرنا واجب نہیں جب کہ وہ ذمی نہ ہوں بلکہ فیصلہ کرنا جائز ہے اگر ہم چاہیں، رہے اہل ذمہ تو کیا ان کے درمیان فیصلہ کرنا واجب ہے جب وہ ہمارے پاس معاملہ لے آئیں ؟ اس میں امام شافعی (رح) کے دو قول ہیں : اگر تو کسی ذمی کا مسلمان سے جھگڑا ہے تو فیصلہ کرنا واجب ہے مہدوی نے کہا : علماء کا اجماع ہے کہ حاکم پر واجب ہے کہ وہ مسلمان ذمی کے درمیان فیصلہ کرے اور دو ذمیوں کا فیصلہ ہو تو اس میں اختلاف ہے، بعض نے فرمایا : آیت محکمہ ہے اور حاکم کو اختیار دیا گیا ہے، یہ نخعی اور شعبی وغیرہما سے مروی ہے (3) (معالم التنزیل، جلد 2، صفحہ 258) یہ امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) وغیرہما کا مذہب ہے، (4) (احکام القرآن للجصاص، جلد 2، صفحہ 436) مگر امام مالکرحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ زنا میں اہل کتاب پر حد قائم نہیں کی جائے گی، اگر مسلمان نے ذمیہ سے زنا کیا تو اسے حد لگائی جائے گی اور عورت پر حد نہ ہوگی، اگر دونوں زنا کرنے والے ذمی ہوں تو دونوں پر حد نہیں ہے، یہ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام محمد بن حسن کا مذہب ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) سے یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : انہیں کوڑے لگائیں جائیں گے اور انہیں رجم نہیں کیا جائے گا، امام شافعی (رح) امام ابو یوسف، اور ابو ثور رحمۃ اللہ علیہم وغیرہم نے کہا : ان دونوں پر حد ہوگی اگر وہ ہمارے فیصلہ پر راضی ہو کر آئیں۔ ابن خویز منداد نے کہا : جب وہ ایک دو سے پر تعدی کریں تو امام انہیں نہیں بلائے گا اور خصم کو امام کی مجلس میں حاضر نہیں کیا جائے گا مگر یہ کہ اس معاملہ کا تعلق ایسے مظالم سے ہو جن کی وجہ سے فساد پھیلتا ہو جیسے قتل ہے اور منازل کا چھیننا وغیرہ ہے، رہے قرض، طلاق اور باقی تمام معاملات تو ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا جائے گا مگر ان کی باہمی رضا مندی کے ساتھ قاضی کو اختیار ہے کہ وہ ان کا فیصلہ نہ کرے اور انہوں نے ان حکام کی طرف لوٹا دے، اگر وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا اسلام کے قانون کے مطابق فیصلہ کرے گا اور رہا مسلمانوں کے قانون پر انہیں مجبور کرنا جس کی وجہ سے انتشار پھیلتا ہو تو ہمارے اور ان کے معادہ کے فساد پر نہیں ہے بلکہ فساد کو ان سے اور دوسرے لوگوں سے دور کرنا واجب ہے، کیونکہ اس میں ان کے اموال اور خون کی حفاظت ہے، شاید ان کے دین میں اس کی اباحت ہو لیکن اس سے ہمارے درمیان انتشار پھیلتا ہو، اسی وجہ سے ہم نے انہیں سرعام شراب بیچنے سے منع کیا اور زنا اور دوسری برائیوں کے ظہار سے منع کیا تاکہ ان کے ذریعے مسلمانوں کے بیوقوف لوگ خراب نہ ہوں رہا وہ حکم ان کے دین کے متعلق ہے مثلا طلاق، زنا وغیرہ ان پر لازم نہیں کہ وہ ہمارے دین کی پیروی کریں ایسی صورت میں ان کے احکام کو نقصان دینا اور ان کی ملت کو تبدیل کرنا ہے، لیکن دیون اور معاملات اس طرح نہیں ہیں، کیونکہ ان میں مظالم اور قطع فساد کی وجہ ہے، واللہ اعلم۔ آیت میں ایک دوسرا قول بھی ہے وہ جو حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) اور نخعی سے مروی ہے کہ مذکورہ تخییر اس ارشاد سے منسوخ ہے : (آیت) ” وان احکم بینھم بما انزل اللہ “۔ حاکم پر واجب ہے کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے، یہ عطاء خراسانی، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہم اور ان کے اصحاب کا مذہب ہے عکرمہ (رح) سے مروی ہے فرمایا : (آیت) ” فان جآءوک فاحکم بینھم اواعرض عنھم “۔ کو دوسری آیت (آیت) ” وان احکم بینھم بما انزل اللہ “۔ نے منسوخ کردیا۔ مجاہد نے کہا : سورة المائدہ سے صرف دو آیتیں منسوخ ہیں، ایک یہ (آیت) ” فاحکم بینھم اواعرض عنھم “۔ اس کو (آیت) ” وان احکم بینھم بما انزل اللہ “۔ نے منسوخ کردیا اور دوسری یہ آیت (آیت) ” لا تحلوا شعآئر اللہ “۔ اس کو (آیت) ” فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم “۔ (توبہ : 5) نے منسوخ کردیا۔ زہری نے کہا : سنت گزر چکی ہے کہ اہل کتاب اپنے حقوق اور مواریث میں اپنے علماء کی طرف لوٹائے جائیں لیکن اگر وہ اللہ کے فیصلہ میں رغبت کرتے ہوئے آئیں تو ان کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ ہوگا، سمرقندی نے کہا : یہ قول امام ابوحنیفہ (رح) کے قول موافق ہے کہ ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا جائے گا جب تک وہ ہمارے فیصلہ پر راضی نہ ہوں۔ نحاس نے ” الناسخ والمنسوخ “ میں فرمایا اللہ تعالیٰ ارشاد : (آیت) ” فان جآءوک فاحکم بینھم اواعرض عنھم “۔ منسوخ ہے۔ کیونکہ نبی مکرم ﷺ مدینہ طیبہ آئے تو آغاز میں یہ حکم نازل ہوا۔ اس وقت مدینہ میں یہود بہت تھے، ان کی اصلاح اسی میں تھی کہ انہیں اپنے علماء کی طرف لوٹایا جائے جب اسلام طاقتور ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ” وان احکم بینھم بما انزل اللہ “۔ یہ حضرت ابن عباس، مجاہد، عکرمہ اور زہری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین و رحمۃ اللہ علیہم حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) اور سدی (رح) کا قول ہے، یہ امام شافعی (رح) کے قول سے صحیح یہی ہے انہوں نے کتاب الجزیۃ میں فرمایا : حاکم کو کوئی اختیار نہیں جب وہ اس کے پاس اپنا فیصلہ لے آئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” حتی یعطو الجزیۃ عن ید وھم صغرون “۔ (توبہ) یہاں تک کہ دین وہ جزیہ اپنے ہاتھ سے اس حال میں کہ وہ مغلوب ہوں۔ نحاس نے کہا : یہ احتجاجات میں صحیح ترین ہے، کیونکہ جب (آیت) ” وھم صغرون “ کے ارشاد کا یہ معنی ہو کہ ان پر مسلمان کے احکام جاری ہوں گے تو واجب ہے کہ انہیں ان کے احکام کی طرف نہ لوٹایا جائے اور یہ واجب ہے تو آیت منسوخ ہوئی، یہی امام ابو حنیفہ، امام زفر، امام ابو یوسف، اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ جب اہل کتاب امام کے پاس فیصلہ لے آئیں تو اسے ان سے اعراض کرنا جائز نہیں، مگر امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : عورت اور اس کا خاوند آئیں تو ان کے درمیان عدل سے فیصلہ کرے اگر صرف عورت آئے اور اس کا خاوند نہ ہو تو ان کا فیصلہ نہیں کرے گا۔ باقی علماء نے کہا : فیصلہ کیا جائے گا، پس اکثر علماء کا قول یہ ہے یہ آیت منسوخ ہے جب کہ اس کے ساتھ ساتھ حضرت ابن عباس ؓ کی توقیف اس میں ثابت ہے اگر حضرت ابن عباس ؓ سے حدیث مروی نہ ہوتی تو پھر ثابت ہوتا کہ یہ منسوخ ہے، کیونکہ علماء کا اجماع ہے کہ جب وہ امام کے پاس فیصلہ لے آئیں تو اس کے لیے ہے کہ وہ ان کے درمیان غور کرنے کے بعد ان کے درمیان غور کرے اگر وہ انکے درمیان کوئی صحیح فیصلہ کرنے والا پائے تو اس کے پاس بھیج دے ورنہ ان سے اعراض نہ کرے بعض علماء کے نزدیک وہ فرض کا تارک ہوگا اور ایسا کرنے والا ہوگا جو اس کے لیے حلال اور جائز نہیں تھا، نحاس نے کہا : جنہوں نے کہا : یہ آیت منسوخ ہے ان کا ایک دوسرا قول بھی ہے، بعض نے کہا : امام پر واجب ہے جب وہ اہل کتاب سے ایک کی حدود میں سے کسی حد کو جانے تو اسے قائم کرے اگرچہ وہ اس کے پاس فیصلہ نہ بھی لے آئیں، ان علماء نے (آیت) ” وان احکم بینھم بما انزل اللہ “۔ سے حجت پکڑی ہے کہ دو احتمال رکھتا ہے ایک یہ کہ آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں جب وہ آپ کے پاس فیصلہ لے آئیں، دوسرا احتمال یہ ہے کہ آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں، اگرچہ وہ آپ کے پاس فیصلہ نہ بھی لائیں جب کہ آپ ان سے مسئلہ خود جان لیں، انہوں نے کہا : ہم نے کتاب وسنت میں پایا ہے کہ ان پر حد قائم کی جائے گی اگرچہ وہ ہمارے پاس فیصلہ نہ بھی لائیں، کتاب اللہ میں ہے : (آیت) ” یایھا الذین امنوا کونوا قومین بالقسط شھدآء للہ “۔ (النسائ : 135) اے ایمان والو ! ہوجاؤ مضبوطی سے قائم رہنے والے انصاف پر گواہی دینے والے محض اللہ کے لیے۔ اور سنت میں حضرت براء بن عازب ؓ کی حدیث ہے فرمایا ؛ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک یہودی گزرا جس کو کوڑے لگائے گئے تھے اور منہ کالا کیا گیا تھا، آپ ﷺ نے پوچھا : ” کیا تمہارے ہاں زنا کرنے والے کی یہ حد ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں آپ ﷺ نے ان علماء میں سے ایک شخص کو بلایا فرمایا : ” میں تجھ سے اللہ کے واسطہ سے سوال کرتا ہوں “۔ کیا تم میں زنا کرنے والے کی یہی حد ہے “ اس نے کہا : نہیں (1) یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے۔ نحاص نے کہا : انہوں نے حجت پکڑی کہ نبی کریم ﷺ نے خود ان کا فیصلہ فرمایا وہ ان کے پاس فیصلہ نہیں لائے تھے، اس حدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے، اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ مالک عن نافع عن عبداللہ بن عمر کی حدیث میں ہے کہ یہود نبی مکرم ﷺ کے پاس آئے تھے، اس کو کہا جائے گا امام مالک (رح) کی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ جنہوں نے زنا کیا تھا وہ فیصلہ پر راضی ہوئے تھے جب کہ نبی مکرم ﷺ نے انہیں رجم کیا تھا، ابو عمر بن عبدالبر “ نے کہا : جنہوں نے حضرت ابراء کی حدیث سے حجت پکڑی ہے اگر وہ غور کرتے تو اس سے حجت نہ پکڑتے کیونکہ حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ” ان اوتیتم ھذا فخذوہ وان لم تؤتوہ فاحذروا “۔ کی تفسیر ہے اس نے کہا : اگر وہ تمہیں کوڑوں کا اور منہ کالا کرنے کا فتوی دیں تو اسے قبول کرلو اگر وہ رجم کا فیصلہ کریں تو اجتناب کرو، یہ دلیل ہے کہ انہوں نے نبی مکرم ﷺ کو حکم بنایا تھا، یہ حضرت ابن عمر کی حدیث میں واضح ہے اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت ابن عمر کی حدیث میں نہیں ہے کہ زانیوں نے رسول اللہ ﷺ کو حکم بنایا تھا اور وہ آپ کے فیصلے سے راضی نہیں ہوئے تھے، اسے کہا جائے گا کہ زانی کی حد، اللہ کے حقوق میں سے ہے حاکم پر تھا جوان کے درمیان فیصلہ کرتا تھا اور ان پر حدود کو قائم کرنا تھا اس نے رسول اللہ ﷺ کو حکم بنایا تھا۔ واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وان حکمت فاحکم بینھم بینھم بالقسط “۔ نسائی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : قریظہ اور نضیر دو قبائل تھے، نضیر، قریظہ سے زیادہ معزز تھا، جب قریظہ کا کوئی شخص بنی نضیر کا کوئی شخص قتل کردیتا تو اس کے بدلے اسے قتل کیا جاتا اور جب بنی نضیر کا کوئی شخص بنی قریظہ کے کسی شخص کو قتل کردیتا تو وہ سو وسق کھجور دیت دیتا جب رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوئے تو بنی نضیر کے ایک شخص نے بنو قریظہ کا ایک شخص قتل کردیا انہوں نے کہا : اپنا آدمی ہمیں دو تاکہ ہم اسے قتل کردیں انہوں نے کہا : ہمارے درمیان اور تمہارے نبی مکرم ﷺ موجود ہیں تو یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” وان حکمت فاحکم بینھم بینھم بالقسط “۔ یعنی نفس کے بدلے نفس ہوگا اور یہ نازل ہوا (1) (آیت) ” افحکم الجاھلیۃ یبغون “۔
Top