Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Maaida : 42
سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ١ؕ فَاِنْ جَآءُوْكَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ١ۚ وَ اِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ یَّضُرُّوْكَ شَیْئًا١ؕ وَ اِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ
سَمّٰعُوْنَ
: جاسوسی کرنے والے
لِلْكَذِبِ
: جھوٹ کے لیے
اَكّٰلُوْنَ
: بڑے کھانے والے
لِلسُّحْتِ
: حرام
فَاِنْ
: پس اگر
جَآءُوْكَ
: آپ کے پاس آئیں
فَاحْكُمْ
: تو فیصلہ کردیں آپ
بَيْنَهُمْ
: ان کے درمیان
اَوْ
: یا
اَعْرِضْ
: منہ پھیر لیں
عَنْهُمْ
: ان سے
وَاِنْ
: اور اگر
تُعْرِضْ
: آپ منہ پھیر لیں
عَنْهُمْ
: ان سے
فَلَنْ
: تو ہرگز
يَّضُرُّوْكَ
: آپ کا نہ بگاڑ سکیں گے
شَيْئًا
: کچھ
وَاِنْ
: اور اگر
حَكَمْتَ
: آپ فیصلہ کریں
فَاحْكُمْ
: تو فیصلہ کریں
بَيْنَهُمْ
: ان کے درمیان
بِالْقِسْطِ
: انصاف سے
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
يُحِبُّ
: دوست رکھتا ہے
الْمُقْسِطِيْنَ
: انصاف کرنے والے
(یہ) جھوٹی باتیں بنانے کے لئے جاسوسی کرنے والے اور (رشوت کا) حرام مال کھانیوالے ہیں۔ اگر یہ تمہارے پاس (کوئی مقدمہ فیصل کرانے کو) آئیں تو تم ان میں فیصلہ کردینا یا اعراض کرنا اگر تم ان سے اعراض کرو گے تو وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اگر فیصلہ کرنا چاہو تو انصاف کا فیصلہ کرنا کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
آیت نمبر :
42
۔ اس آیت میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” سمعون للکذب “ تاکید اور تفخیم کے لیے مکرر ذکر کیا۔ مسئلہ نمبر : (
2
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” اکلون للسحت “۔ یعنی کثرت سے رشوت کھاتے ہیں، سحت کا لغوی معنی ہلاکت اور شدت ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” فیسحتکم بعذاب (طہ :
61
) وہ تمہارا نام ونشان مٹا دے گا کسی عذاب سے، فرزدق نے کہا : وعض زمان یا بن مروان لم یدع من المال الا مسحیا او مجلف “۔ اس طرح روایت ہے۔ اومجلف “ مرفوع ہے معنی پر عطف کی بنا پر، کیونکہ لم یدع کا معنی ہے لم یبق حالق (مونڈنے والے) کو کہا جاتا ہے : اسحت یعنی اس نے اسے جڑ سے اکھیڑ دیا حرام مال کو سحت کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ نیکیوں کا صفایا کردیتا ہے اور انہی کلیۃ ختم کردیتا ہے فراء نے کہا : اس کی اصل کلب الجوع ہے کہا جاتا ہے : رجل مسحوت المعدۃ، یعنی جس کا معدہ ہی نہ وہ، گویا وہ رشوت لینے والا ہے اور حرص کی وجہ سے حرام کھانے والا ہے جو اسے دیا جاتا ہے اس شخص کی مانند ہے جو حرض کیوجہ معدہ ہی نہیں رکھتا، حرام کو سحت کہا جاتا ہے کیونکہ وہ انسان کی مروت کو ختم کردیتا ہے۔ میں کہتا ہوں : پہلا قول اولی ہے کیونکہ دین کے جانے کے ساتھ مروت بھی چلی جاتی ہے اس کی مروت نہیں جس کا دین نہیں حضرت ابن مسعود ؓ وغیرہ نے کہا السحت سے مراد شوت ہے (
1
) (تفسیر طبری، جلد
6
، صفحہ
288
) حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا حاکم کی رشوت سحت سے ہے نبی کریم ﷺ سے مروی ہے ہر وہ گوشت جو السحت سے پیدا ہوتا ہے آگ اس کی مستحق ہے صحابہ نے پوچھا : یا رسول اللہ ﷺ السحت کیا ہے ؟ فرمایا : فیصلہ میں رشوت لینا “ (
2
) (تفسیر طبری، جلد
6
، صفحہ
288
) حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے فرمایا : اسحت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کی کوئی حاجت پوری کرے، پھر وہ اسے ہدیہ دے تو وہ اسے قبول کرلے، ابن خویز منداد نے کہا : السحت یہ ہے کہ آدمی اپنے مرتبہ کی وجہ سے مال کھائے، یہ اس طرح ہے کہ سلطان کی بارگاہ میں مرتبہ ہو، پھر کوئی انسان اس سے حاجت طلب کرے تو وہ اس کی حاجت پوری نہ کرے، مگر رشوت لے کر، سلف صالحین کا کوئی اختلاف نہیں کہ کسی کے حق کو باطل کرنے کے لیے رشوت لینا جائز نہیں اس پر رشوت لینا سخت حرام ہے، امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : جب حاکم رشوت لے گا تو وہ اسی وقت معزول ہوجائے گا اگرچہ اسے معزول نہ بھی کیا جائے اور رشوت لینے کے بعد اس کا ہر فیصلہ باطل ہے۔ میں کہتا ہوں : اس میں اختلاف کرنا جائز نہیں ان شاء اللہ، کیونکہ رشوت لینا فسق ہے اور فاسق کا فیصلہ جائز نہیں ہے۔ واللہ اعلم، نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے پر اللہ کی لعنت ہے “۔ (
3
) (جامع ترمذی، کتاب الاحکام جلد
1
، صفحہ
159
، ایضا ابن ماجہ، حدیث
2303
، ضیاء القرآن پبلیکیشنز) حضرت علی ؓ سے مروی ہے فرمایا : سحت سے مراد رشوت، کاہن کی کمائی اور فیصلہ پر مال لینا ہے۔ (
4
) (تفسیر طبری، جلد
6
، صفحہ
289
) وہب بن منبہ سے مروی ہے ان سے پوچھا گیا : کیا رشوت ہر چیز میں حرام ہے ؟ انہوں نے فرمایا : نہیں رشوت وہ ناپسندیدہ ہے جو تو اس لیے دے تاکہ تجھے وہ مل جائے تو تیری نہیں ہے یا تو اس حق کو دور کرنے کے لیے دے جو تجھ پر لازم ہے، لیکن جو رشوت تو اپنے دین، اپنے خون اور اپنے مال کو بچانے کے لیے دے وہ حرام نہیں، ابواللیث سمرقندی نے کہا : ہم اسی پر عمل کرتے ہیں کوئی حرج نہیں کہ آدمی اپنے نفس اور اپنے مال کی حفاظت کے لیے دے، اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے یہ مروی ہے وہ حبشہ میں تھے تو انہوں نے دو دینار رشوت دیئے اور فرمایا : گناہ رشوت لینے والے پر ہے نہ کہ دینے والے پر، مہدوی نے کہا : جس نے حجام (پچھنے لگانے والا) کی کمائی کے ساتھ سحت کا ذکر کیا اس کا مطلب ہے کہ رشوت لینے والے کی مروت کو ختم کردیتا ہے۔ میں کہتا ہوں : حجام (پچھنے لگانے والا) کی کمائی پاک ہے جس نے کوئی پاک چیز لی اس کی مروت ساقط نہیں ہوتی اور اس کا مرتبہ کم نہیں ہوتا، امام مالک (رح) نے حمید الطویل سے انہوں نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے پچھنے لگوائے اور ابو طیبہ نے آپ ﷺ کو پچھنے لگائے تھے، رسول اللہ ﷺ نے اسے ایک صاع کھجور دینے کا حکم دیا تھا اور اس کے مالکوں کو اس کے خراج میں کمی کرنے کی سفارش کی تھی۔ (
1
) (صحیح بخاری، کتاب البیوع، جلد
1
، صفحہ
283
) ابن عبد البر نے کہا : یہ دلیل ہے کہ پچھنے لگانے والے کی کمائی پاک ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے نہ ثمن بنایا، جعل (انعام) بنایا نہ کسی باطل چیز کا عوض بنایا، حضرت انس ؓ کی حدیث اس حدیث کے لیے ناسخ ہے جس میں نبی مکرم ﷺ نے خون کی کمائی کو حرام قرار دیا اور پچھنے لگانے والے کے اجارہ سے جو مکروہ فرمایا اس کے لیے بھی ناسخ ہے، بخاری ابو داؤد نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے پچھنے لگوائے اور پچھنے لگوانے والے کو اجرت دی، اگر یہ حرام ہوتی تو آپ اسے عطا نہ فرماتے۔ (
2
) (سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، جلد
2
، صفحہ
130
، ایضا حدیث
2969
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) السحت اور السحت دونوں لغتیں ہیں اور دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے، ابو عمرو، ابن کثیر اور کسائی نے دونوں ضموں کے ساتھ پڑھا ہے۔ باقی قراء نے صرف سین کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے، عباس بن فضل نے خارجہ بن مصعب سے انہوں نے نافع سے (آیت) ” اکالون للسحت “۔ سین کے فتحہ اور حال کے سکون کے ساتھ روایت کیا ہے، زجاج نے کہا : سحتہ کا معنی تھوڑا تھوڑا لے جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فان جآءوک فاحکم بینھم اواعرض عنھم “۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تخییر ہے یہ قشیری نے ذکر کیا ہے اس کا معنی گزر چکا ہے کہ وہ ایسے لوگ تھے جن سے معاہدہ تھا، ذمی نہیں تھے۔ نبی مکرم ﷺ جب مدینہ طیبہ آئے تو یہود کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، ہم پر کفار کے درمیان فیصلہ کرنا واجب نہیں جب کہ وہ ذمی نہ ہوں بلکہ فیصلہ کرنا جائز ہے اگر ہم چاہیں، رہے اہل ذمہ تو کیا ان کے درمیان فیصلہ کرنا واجب ہے جب وہ ہمارے پاس معاملہ لے آئیں ؟ اس میں امام شافعی (رح) کے دو قول ہیں : اگر تو کسی ذمی کا مسلمان سے جھگڑا ہے تو فیصلہ کرنا واجب ہے مہدوی نے کہا : علماء کا اجماع ہے کہ حاکم پر واجب ہے کہ وہ مسلمان ذمی کے درمیان فیصلہ کرے اور دو ذمیوں کا فیصلہ ہو تو اس میں اختلاف ہے، بعض نے فرمایا : آیت محکمہ ہے اور حاکم کو اختیار دیا گیا ہے، یہ نخعی اور شعبی وغیرہما سے مروی ہے (
3
) (معالم التنزیل، جلد
2
، صفحہ
258
) یہ امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) وغیرہما کا مذہب ہے، (
4
) (احکام القرآن للجصاص، جلد
2
، صفحہ
436
) مگر امام مالکرحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ زنا میں اہل کتاب پر حد قائم نہیں کی جائے گی، اگر مسلمان نے ذمیہ سے زنا کیا تو اسے حد لگائی جائے گی اور عورت پر حد نہ ہوگی، اگر دونوں زنا کرنے والے ذمی ہوں تو دونوں پر حد نہیں ہے، یہ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام محمد بن حسن کا مذہب ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) سے یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : انہیں کوڑے لگائیں جائیں گے اور انہیں رجم نہیں کیا جائے گا، امام شافعی (رح) امام ابو یوسف، اور ابو ثور رحمۃ اللہ علیہم وغیرہم نے کہا : ان دونوں پر حد ہوگی اگر وہ ہمارے فیصلہ پر راضی ہو کر آئیں۔ ابن خویز منداد نے کہا : جب وہ ایک دو سے پر تعدی کریں تو امام انہیں نہیں بلائے گا اور خصم کو امام کی مجلس میں حاضر نہیں کیا جائے گا مگر یہ کہ اس معاملہ کا تعلق ایسے مظالم سے ہو جن کی وجہ سے فساد پھیلتا ہو جیسے قتل ہے اور منازل کا چھیننا وغیرہ ہے، رہے قرض، طلاق اور باقی تمام معاملات تو ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا جائے گا مگر ان کی باہمی رضا مندی کے ساتھ قاضی کو اختیار ہے کہ وہ ان کا فیصلہ نہ کرے اور انہوں نے ان حکام کی طرف لوٹا دے، اگر وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا اسلام کے قانون کے مطابق فیصلہ کرے گا اور رہا مسلمانوں کے قانون پر انہیں مجبور کرنا جس کی وجہ سے انتشار پھیلتا ہو تو ہمارے اور ان کے معادہ کے فساد پر نہیں ہے بلکہ فساد کو ان سے اور دوسرے لوگوں سے دور کرنا واجب ہے، کیونکہ اس میں ان کے اموال اور خون کی حفاظت ہے، شاید ان کے دین میں اس کی اباحت ہو لیکن اس سے ہمارے درمیان انتشار پھیلتا ہو، اسی وجہ سے ہم نے انہیں سرعام شراب بیچنے سے منع کیا اور زنا اور دوسری برائیوں کے ظہار سے منع کیا تاکہ ان کے ذریعے مسلمانوں کے بیوقوف لوگ خراب نہ ہوں رہا وہ حکم ان کے دین کے متعلق ہے مثلا طلاق، زنا وغیرہ ان پر لازم نہیں کہ وہ ہمارے دین کی پیروی کریں ایسی صورت میں ان کے احکام کو نقصان دینا اور ان کی ملت کو تبدیل کرنا ہے، لیکن دیون اور معاملات اس طرح نہیں ہیں، کیونکہ ان میں مظالم اور قطع فساد کی وجہ ہے، واللہ اعلم۔ آیت میں ایک دوسرا قول بھی ہے وہ جو حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) اور نخعی سے مروی ہے کہ مذکورہ تخییر اس ارشاد سے منسوخ ہے : (آیت) ” وان احکم بینھم بما انزل اللہ “۔ حاکم پر واجب ہے کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے، یہ عطاء خراسانی، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہم اور ان کے اصحاب کا مذہب ہے عکرمہ (رح) سے مروی ہے فرمایا : (آیت) ” فان جآءوک فاحکم بینھم اواعرض عنھم “۔ کو دوسری آیت (آیت) ” وان احکم بینھم بما انزل اللہ “۔ نے منسوخ کردیا۔ مجاہد نے کہا : سورة المائدہ سے صرف دو آیتیں منسوخ ہیں، ایک یہ (آیت) ” فاحکم بینھم اواعرض عنھم “۔ اس کو (آیت) ” وان احکم بینھم بما انزل اللہ “۔ نے منسوخ کردیا اور دوسری یہ آیت (آیت) ” لا تحلوا شعآئر اللہ “۔ اس کو (آیت) ” فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم “۔ (توبہ :
5
) نے منسوخ کردیا۔ زہری نے کہا : سنت گزر چکی ہے کہ اہل کتاب اپنے حقوق اور مواریث میں اپنے علماء کی طرف لوٹائے جائیں لیکن اگر وہ اللہ کے فیصلہ میں رغبت کرتے ہوئے آئیں تو ان کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ ہوگا، سمرقندی نے کہا : یہ قول امام ابوحنیفہ (رح) کے قول موافق ہے کہ ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا جائے گا جب تک وہ ہمارے فیصلہ پر راضی نہ ہوں۔ نحاس نے ” الناسخ والمنسوخ “ میں فرمایا اللہ تعالیٰ ارشاد : (آیت) ” فان جآءوک فاحکم بینھم اواعرض عنھم “۔ منسوخ ہے۔ کیونکہ نبی مکرم ﷺ مدینہ طیبہ آئے تو آغاز میں یہ حکم نازل ہوا۔ اس وقت مدینہ میں یہود بہت تھے، ان کی اصلاح اسی میں تھی کہ انہیں اپنے علماء کی طرف لوٹایا جائے جب اسلام طاقتور ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ” وان احکم بینھم بما انزل اللہ “۔ یہ حضرت ابن عباس، مجاہد، عکرمہ اور زہری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین و رحمۃ اللہ علیہم حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) اور سدی (رح) کا قول ہے، یہ امام شافعی (رح) کے قول سے صحیح یہی ہے انہوں نے کتاب الجزیۃ میں فرمایا : حاکم کو کوئی اختیار نہیں جب وہ اس کے پاس اپنا فیصلہ لے آئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” حتی یعطو الجزیۃ عن ید وھم صغرون “۔ (توبہ) یہاں تک کہ دین وہ جزیہ اپنے ہاتھ سے اس حال میں کہ وہ مغلوب ہوں۔ نحاس نے کہا : یہ احتجاجات میں صحیح ترین ہے، کیونکہ جب (آیت) ” وھم صغرون “ کے ارشاد کا یہ معنی ہو کہ ان پر مسلمان کے احکام جاری ہوں گے تو واجب ہے کہ انہیں ان کے احکام کی طرف نہ لوٹایا جائے اور یہ واجب ہے تو آیت منسوخ ہوئی، یہی امام ابو حنیفہ، امام زفر، امام ابو یوسف، اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ جب اہل کتاب امام کے پاس فیصلہ لے آئیں تو اسے ان سے اعراض کرنا جائز نہیں، مگر امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : عورت اور اس کا خاوند آئیں تو ان کے درمیان عدل سے فیصلہ کرے اگر صرف عورت آئے اور اس کا خاوند نہ ہو تو ان کا فیصلہ نہیں کرے گا۔ باقی علماء نے کہا : فیصلہ کیا جائے گا، پس اکثر علماء کا قول یہ ہے یہ آیت منسوخ ہے جب کہ اس کے ساتھ ساتھ حضرت ابن عباس ؓ کی توقیف اس میں ثابت ہے اگر حضرت ابن عباس ؓ سے حدیث مروی نہ ہوتی تو پھر ثابت ہوتا کہ یہ منسوخ ہے، کیونکہ علماء کا اجماع ہے کہ جب وہ امام کے پاس فیصلہ لے آئیں تو اس کے لیے ہے کہ وہ ان کے درمیان غور کرنے کے بعد ان کے درمیان غور کرے اگر وہ انکے درمیان کوئی صحیح فیصلہ کرنے والا پائے تو اس کے پاس بھیج دے ورنہ ان سے اعراض نہ کرے بعض علماء کے نزدیک وہ فرض کا تارک ہوگا اور ایسا کرنے والا ہوگا جو اس کے لیے حلال اور جائز نہیں تھا، نحاس نے کہا : جنہوں نے کہا : یہ آیت منسوخ ہے ان کا ایک دوسرا قول بھی ہے، بعض نے کہا : امام پر واجب ہے جب وہ اہل کتاب سے ایک کی حدود میں سے کسی حد کو جانے تو اسے قائم کرے اگرچہ وہ اس کے پاس فیصلہ نہ بھی لے آئیں، ان علماء نے (آیت) ” وان احکم بینھم بما انزل اللہ “۔ سے حجت پکڑی ہے کہ دو احتمال رکھتا ہے ایک یہ کہ آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں جب وہ آپ کے پاس فیصلہ لے آئیں، دوسرا احتمال یہ ہے کہ آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں، اگرچہ وہ آپ کے پاس فیصلہ نہ بھی لائیں جب کہ آپ ان سے مسئلہ خود جان لیں، انہوں نے کہا : ہم نے کتاب وسنت میں پایا ہے کہ ان پر حد قائم کی جائے گی اگرچہ وہ ہمارے پاس فیصلہ نہ بھی لائیں، کتاب اللہ میں ہے : (آیت) ” یایھا الذین امنوا کونوا قومین بالقسط شھدآء للہ “۔ (النسائ :
135
) اے ایمان والو ! ہوجاؤ مضبوطی سے قائم رہنے والے انصاف پر گواہی دینے والے محض اللہ کے لیے۔ اور سنت میں حضرت براء بن عازب ؓ کی حدیث ہے فرمایا ؛ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک یہودی گزرا جس کو کوڑے لگائے گئے تھے اور منہ کالا کیا گیا تھا، آپ ﷺ نے پوچھا : ” کیا تمہارے ہاں زنا کرنے والے کی یہ حد ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں آپ ﷺ نے ان علماء میں سے ایک شخص کو بلایا فرمایا : ” میں تجھ سے اللہ کے واسطہ سے سوال کرتا ہوں “۔ کیا تم میں زنا کرنے والے کی یہی حد ہے “ اس نے کہا : نہیں (
1
) یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے۔ نحاص نے کہا : انہوں نے حجت پکڑی کہ نبی کریم ﷺ نے خود ان کا فیصلہ فرمایا وہ ان کے پاس فیصلہ نہیں لائے تھے، اس حدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے، اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ مالک عن نافع عن عبداللہ بن عمر کی حدیث میں ہے کہ یہود نبی مکرم ﷺ کے پاس آئے تھے، اس کو کہا جائے گا امام مالک (رح) کی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ جنہوں نے زنا کیا تھا وہ فیصلہ پر راضی ہوئے تھے جب کہ نبی مکرم ﷺ نے انہیں رجم کیا تھا، ابو عمر بن عبدالبر “ نے کہا : جنہوں نے حضرت ابراء کی حدیث سے حجت پکڑی ہے اگر وہ غور کرتے تو اس سے حجت نہ پکڑتے کیونکہ حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ” ان اوتیتم ھذا فخذوہ وان لم تؤتوہ فاحذروا “۔ کی تفسیر ہے اس نے کہا : اگر وہ تمہیں کوڑوں کا اور منہ کالا کرنے کا فتوی دیں تو اسے قبول کرلو اگر وہ رجم کا فیصلہ کریں تو اجتناب کرو، یہ دلیل ہے کہ انہوں نے نبی مکرم ﷺ کو حکم بنایا تھا، یہ حضرت ابن عمر کی حدیث میں واضح ہے اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت ابن عمر کی حدیث میں نہیں ہے کہ زانیوں نے رسول اللہ ﷺ کو حکم بنایا تھا اور وہ آپ کے فیصلے سے راضی نہیں ہوئے تھے، اسے کہا جائے گا کہ زانی کی حد، اللہ کے حقوق میں سے ہے حاکم پر تھا جوان کے درمیان فیصلہ کرتا تھا اور ان پر حدود کو قائم کرنا تھا اس نے رسول اللہ ﷺ کو حکم بنایا تھا۔ واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وان حکمت فاحکم بینھم بینھم بالقسط “۔ نسائی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : قریظہ اور نضیر دو قبائل تھے، نضیر، قریظہ سے زیادہ معزز تھا، جب قریظہ کا کوئی شخص بنی نضیر کا کوئی شخص قتل کردیتا تو اس کے بدلے اسے قتل کیا جاتا اور جب بنی نضیر کا کوئی شخص بنی قریظہ کے کسی شخص کو قتل کردیتا تو وہ سو وسق کھجور دیت دیتا جب رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوئے تو بنی نضیر کے ایک شخص نے بنو قریظہ کا ایک شخص قتل کردیا انہوں نے کہا : اپنا آدمی ہمیں دو تاکہ ہم اسے قتل کردیں انہوں نے کہا : ہمارے درمیان اور تمہارے نبی مکرم ﷺ موجود ہیں تو یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” وان حکمت فاحکم بینھم بینھم بالقسط “۔ یعنی نفس کے بدلے نفس ہوگا اور یہ نازل ہوا (
1
) (آیت) ” افحکم الجاھلیۃ یبغون “۔
Top