Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 42
سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ١ؕ فَاِنْ جَآءُوْكَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ١ۚ وَ اِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ یَّضُرُّوْكَ شَیْئًا١ؕ وَ اِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ
سَمّٰعُوْنَ : جاسوسی کرنے والے لِلْكَذِبِ : جھوٹ کے لیے اَكّٰلُوْنَ : بڑے کھانے والے لِلسُّحْتِ : حرام فَاِنْ : پس اگر جَآءُوْكَ : آپ کے پاس آئیں فَاحْكُمْ : تو فیصلہ کردیں آپ بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اَوْ : یا اَعْرِضْ : منہ پھیر لیں عَنْهُمْ : ان سے وَاِنْ : اور اگر تُعْرِضْ : آپ منہ پھیر لیں عَنْهُمْ : ان سے فَلَنْ : تو ہرگز يَّضُرُّوْكَ : آپ کا نہ بگاڑ سکیں گے شَيْئًا : کچھ وَاِنْ : اور اگر حَكَمْتَ : آپ فیصلہ کریں فَاحْكُمْ : تو فیصلہ کریں بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان بِالْقِسْطِ : انصاف سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُقْسِطِيْنَ : انصاف کرنے والے
یہ لوگ جھوٹ کیلئے کان لگانے میں اور برے طریقوں سے مال کھانے میں بیباک ہیں ، پس اگر یہ تمہارے پاس آئیں تو ان کے درمیان فیصلہ کرو یا ان سے کنارہ کش ہوجاؤ ، اگر تم کنارہ کش ہوگئے تو یہ تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور اگر فیصلہ کرو تو چاہیے کہ انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو بلاشبہ اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے
یہود کے خواص جھوٹ گھڑنے اور سنانے کے ماہر تھے اور عوام سننے اور قبول کرنے کے شیدائی : 125: سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ کے الفاظ آیت 41 میں گزرے اور اب دوبارہ اس آیت 42 میں بیان ہو رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ دوبارہ ان الفاظ کا بیان کرنا تاکید کے لئے ہی معلوم ہوتا ہے اور یہی بات مفسرین نے بھی بیان کی ہے : کر رہ تاکیدا وتعظیما (قرطبی) کر رللتدکید (مدارک) یہ وقف دراصل یہود کے خواص اور عوام دونوں کا بیان ہوا ہے اور ظاہر ہے خواص وعوام میں جو فرق ہے وہ اس جگہ بھی یقینا ہے وہ اس طرح کہ یہود کے خواص جھوٹ گھڑنے اور اس کے بیان کرنے میں ماہر تھے اور عوام کو ان جھوٹوں کے سننے اور ان کو قبول کرنے میں بڑا مزا آتا تھا اور وہ ان کے سننے کے عادی ہوچکے تھے ۔ چناچہ اس بیماری کو قرآن کریم نے دوسری جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ” جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل کڑھنے لگتے ہیں اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تویکایک وہ خوشی سے کھل اٹھتے ہیں۔ “ (الزمر 39 : 45) افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت یہ بیماری مسلمانوں میں بھی عام ہے اور اس قدر ترقی پذیر ہے کہ آئے دنوں اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے جن باتوں کا نہ سر ہے نہ پیر۔ ان کو نام کے علماء بیان کرتے ذرا شرم نہیں کرتے اور عوام کا امزاج بھی اتنا بگڑ چکا ہے کہ سچ ان کو ہضم ہی نہیں ہوتا جب تک جھوٹ کی چاشنی اس میں نہ ملائی جائے۔ انبیائے کرام کے معجزات اور اولیائے کرام کی کرامات درست لیکن ان کی بلا سے کہ معجزہ کیا ہے اور کرامت کیا ہے۔ اکثر علماء کی یہ حالت ہے کہ جو ” یکڑ “ ان کے جی میں آیا وہ گھڑا جو ” گپ “ ان کے دل نے چاہا وہ ہان کی اور پھر اپنی ہی صوابدید سے جس کو چاہا معجزہ کا نام دے دیا اور جس کو چاہا کرامت کے نام سے موسوم کرلیا اور پھر ” سرکار “ کے نام کے ساتھ ” ہماری “ ” تمہاری “ کا لفظ لگایا یعنی ہماری سرکار نے فرمایا اور ” تمہاری سرکار نے فرمایا “ کے نام سے اس کو شائع و ذائع کردیا پھر جب ایک بات شائع ہو کر کتاب میں داخل ہوگئی تو اب یہی سند کے طور پر کام دینے لگی۔ قرآن کریم کی زیر نظر آیت میں ان کا یہ وصف مذکور تھا کہ وہ ” جھوٹ سننے اور اس کے قبول کرنے کے عادی تھے “ ظاہر ہے کہ انکا یہ وصف قرآن کریم نے بطور ذم بیان کیا ہے اور انکے اس وصف کو بیان کر کے ان کی مذمت کی ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ جو بات یہود کے حق میں مذمت تھی وہ مسلمانوں کے حق میں یقیناً قابل مذمت ہے۔ ان کے حق میں قابل مذمت تھی وہ ہم مسلمانوں کے حق میں مذمت تھی وہ مسلمانوں کے حق میں مدح ہوجائے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جو بات ان کے حق میں قابل مذمت تھی وہ ہم مسلمانوں کے حق میں بھی یقینا قابل مذمت ہے۔ قرآن کریم نے ان کی اس لغزش کو اس لئے بیان فرمایا تھا کہ مسلمانوں کو تنبیہ ہو اور وہ اس لغزش کے مرتکب نہ ہوں لیکن مسلمانوں نے دوسری ساری باتوں کی طرح اس وصف میں بھی یہود کے کان کاٹ دیئے آج انہی گھڑے ہوئے معجزات اور جھوٹی کرامات کا نام اسلام نظر آنے لگا اگر یقین نہ آئے تو نام کے سواد اعظم علمائے کرام کے وعظ و درس اور خطبات میں بیٹھ کر ، تیسرے ، چوتھے ، ساتویں ، دسویں اور چالیسویں کی مجالس میں اور اس طرح عام جلسوں ، جلوسوں کے ساتھ ساتھ خصوصاً میلاد کے نام موسوم بڑے بڑے جلوسوں میں جن کی قیادت ملک کی اہم شخصیات کرتی نظر آتی ہیں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ جس کام کو کسی صوبہ کا وزیر اعلیٰ یا گورنر اور ملک کا وزیر اعظم یا صدر مملکت سر انجام دے اس کی اہمیت سے کسی کو انکار ہے اور پھر اگر کوئی انکار کرے گا تو الٹا وہ مذاق نہیں بنے گا تو اور کیا ہوگا ؟ اس جگہ ہم چاہتے ہیں کہ دو تین باتیں اعلیٰ سند کی آپ کو سنادی جائیں تاکہ ” پرانی توحید کا زنگ “ آپ کے دل سے اتر جائے۔ “ (یہ الفاظ بھی ہمارے نہیں) ملاحظہ فرمائیں لیکن ارشادات کا تجزیہ ہم نہیں کریں گے بلکہ اس کو آپ کی صوابدید پر چھوڑتے ہیں۔ (1) ” ارشاد ہوا کہ جب اول مرتبہ ہم پیر ان کلیر گئے ہیں تو دو وقت کا فاقہ ہوا ہم نے مخدوم صاحب کے مزار پر جا کر کہا حضرت آپ نے تو عمر بھر گولریوں پر گزارن کی کیا ہم کو بھوکا ہی ماریئے گا۔ غور سے جو دیکھا تو قبر کو ایک سیاہ رنگ کا سانپ لپٹا ہوا تھا خیر ہم اپنا حال کہہ کر چلے آئے۔ تھوڑی دیر میں ایک خادم کھانا لایا اور عذر و معذرت کرنے لگا کہ میں بھول گیا تھا آپ معاف کریں۔ غرض وہاں سال بھر رہنے کا اتفاق ہوا ایک بار تمام خادمان درگاہ حضرت عبد القدوس گنگوہی ؓ کے عرس میں چلے گئے تھے وہاں سوائے ہمارے اور کافر شاہ مجذوب کے کوئی نہ تھا۔ وہ عارضہ اسہال میں مبتلا تھے ایک دن ہم سے کہا کہ اب میرا وقت قریب آگیا ہے میرابدن اور کپڑے سب ناپاک ہیں ، کپڑے تو تالاب پر دھولاؤ اور مجھ کو نہلا دو ۔ ہم نے کپڑے دھودیئے اور ان کو خوب نہلایا۔ بعد نماز مغرب چادر تان کر لیٹ گئے اور السلام علیکم کہہ کر جان بحق ہوگئے۔ ان زمانہ میں مزار کے آس پاس بہت جنگل تھا ہم ان کی لاش کی نگہبانی کرتے رہے۔ جب آدمی رات گزری تو خیال آیا کہ اب لاش کو تنہا چھوڑتے ہیں تو خوف ہے کہ کوئی جانور نہ کھا جائے اور نہیں جاتے تو نماز قضا ہوتی ہے ۔ ہم اس فکر میں تھے وہ مجذوب الا اللہ کہہ کر اٹھ بیٹھے۔ ہم نے لاحول پڑھی اور اپنا ڈنڈا سنبھالا کہ شاید کوئی بھوت لاش کے اندر حلول کر گیا ، مارنے کا ارادہ کیا تھا کہ وہ گھبرا کر بولے میاں غوث علی شاہ خبردار ! کوئی جن بھوت نہیں میں تو وہی کافر شاہ ہوں۔ تم جو متردد تھے اس لئے میں سرکار سے دوپہر کی رخصت لے کر آتا ہوں۔ اب تم جاؤ نماز پڑھو میں دو گھڑی دن چڑھے مروں گا۔ خیر ہم نے لٹھ رکھ دیا اور ان سے باتیں شروع کیں اول تو ہم نے پوچھا کہ آپ ہیں کون ؟ دوسرے یہ کہ آپ کو فیض کہاں سے حاصل ہوا ؟ تیسرے یہ کہ مرنے کے بعد کیا گزری ؟ جواب دیا کہ میں شہزادہ ہوں تیمور خاندان سے اور فیض باطنی مجھ کو حضرت مخدوم علی احمد صابر کی روح پر فتوح سے ہوا ہے اور وہاں کا حال مختلف ہے ، ہم پر خرا گزری زیادہ حال گفتنی نہیں۔ تم جب آؤ گے خود معلوم کرلو گے۔ اب جاؤ نماز پڑھو دیر ہوتی ہے مگر اشراق پڑھ کر جلد چلے آنا ہم ٹھیک وقت پر آپہنچے تو بولے اور اب ہم جاتے ہیں تم کفن کا کچھ فکر نہ کرنا مولوی قلندر صاحب جلال آبادی آتے ہیں دو طالب علم بھی ان کے ہمراہ ہیں وہ تمہارے شریک حال ہوجائیں گے دو چادریں ان کی اور ایک ہماری ان میں لپیٹ کر دفن کردینا اور میری قبر مخدروم صاحب کے پا انداز یعنی پاؤں کی طرف بنانا پھر بولے کہ اب انگوٹھوں سے جان نکل گئی ، اب ٹخنون میں آئی ، اب گھٹنوں میں ، اب کمر میں ، اب سینہ میں ، اب حلق میں اور السلام علیکم کہہ کر رخصت ہوئے۔ تھوڑی دیر میں مولوی صاحب بھی تشریف لائے اور پھر بموجب وصیت ان کو دفن کردیا پھر ہم نے تمام حال مولوی صاحب سے بیان کیا۔ بہت دیر تک متحیر رہے اور کہنے لگے کہ حقیقت میں یہ فقیر اپنے فن کا پورا تھا۔ “ (ص 46 ، 47) (2) ارشاد ہوا کہ ہمارے پیرو مرشد حضرت میرا عظم علی شاہ صاحب ؓ فرماتے تھے کہ قصبہ مہم سے دہلی کو واپس آتے ہوئے اثنائے راہ میں ایک عجیب معاملہ پیش آیا دوپہر کے وقت ایک درخت کے سایہ میں گاڑی ٹھہرا دی تاکہ ذرا آرام لے کر اور نماز ظہر پڑھ کر بعد فرو ہونے تمازت آفتاب کو آگے چلیں گے۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک فقیر صاحب وارد ہوئے۔ ہم نے روٹی پانی کی تواضع کی۔ کھاپی کر وہ بھی سو گئے اور ہم بھی ۔ جب آنکھ کھلی تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہماری گاڑی ایک سرائے میں کھڑی ہے ، بیل گھاس کھا رہی ہے ، بھٹیارن کھانا پکار رہی ہے اور فقیر صاحب پڑے سوتے ہیں ہماری حالت سکتہ میں ہوگئی کہ الٰہی یہ کیسی سرائے ہے اور کون سا شہر ہے اور ہم یہاں کیونکر پہنچے ؟ ہم نے بھٹیاون سے دریافت کیا کہ اس شہر کا نام کیا ہے ؟ کہا کہ حیرت افزاء نیک بخت یہ سرائے کس کی ہے ؟ کہا انہی فقیر صاحب کی اور جتنے روز تم یہاں ٹھہرو گے سب خرچ بھی ان کے ذمہ ہے ۔ آٹھ روز تک ہم اس شہر میں رہے نہ اس کی ابتداء معلوم ہوئی نہ انتہا۔ حقیقت میں وہ شہر حیرت افزا تھا ۔ آدمی وہاں کے نیک سیرت ، پاکیزہ صورت ، مرفہ حال ، مکانات خوش قطع اور مصفا ، اشیاء رنگا رنگ موجود ، بازار نہایت مکلف پر بہار ، جدھر جاتے صورت تصویر بن جاتے ، جامع مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھی۔ اسلام کا زور و شور پایا ، ہر شخص کو یاد خدا میں مشغول دیکھا ، قال اللہ وقال الرسول کے سوا کچھ ذکر نہ تھا ۔ غرض آٹھویں رات کو جب ہم سو کر اٹھے تو دیکھا گاڑی اس درخت کے نیچے کھڑی ہے اور وہی وقت ہے۔ فقیر صاحب بھی سوتے ہیں ہم نماز پڑھ کر روانہ ہوئے۔ فقیر صاحب بھی ہمارے ساتھ ہولئے۔ راستہ میں جس شخص سے پوچھا وہی تاریخ وہی دن ، وہی مہینہ بنایا۔ ہم کو حیرت ہوئی کہ یہ آٹھ دن کہاں گئے ؟ آخر بہادر گڑھ پہنچے وہاں ایک مکان میں ٹھہرے۔ فقیر صاحب نے فرمایا کہ بعد نماز عشاء ہماری روٹی اس مسجد میں لے آنا۔ جب ہم روٹی لے کر مسجد میں پہنچے تو دیکھا کہ نماز پڑھتے ہیں۔ بعد فراغت کھانا کھایا۔ باتیں کرنے لگے۔ جب آدھی رات گزر گئی تو فرمایا کہ شہر کے دھوبی کپڑے دھو رہے ہیں جاؤ ہمارا لنگوٹ دھلو لاؤ ۔ میں نے کہا حضرت آدمی رات ادھر ، آدھی رات ادھر بھلا اس وقت کون کپڑے دھوتا ہوگا۔ فرمایا ذراتم لے تو جاؤ ۔ میں چلا اور شہر کے دروازہ سے باہر نکلا تو دیکھتا کیا ہوں کہ دو گھڑی دن چڑھا ہے اور دھوبی کپڑے دھو رہے ہیں۔ جب دروازے کے اندر آتا ہوں تو نصف شب معلوم ہوتی ہے اور جب باہر جاتا ہوں تو دو گھڑی دن چڑھا ہوا نظر آتا ہے ۔ غرض دھوبیوں کے پاس پہنچا تو ایک دھوبی نے کہا لاؤ میاں صاحب کا لنگوٹ میں دھو دوں اس نے دھویا ، صاف کیا ، دھوب میں سکھا کر حوالہ کیا ۔ میاں صاحب کی خدمت میں لے آیا۔ مجھ کو ان باتوں کا نہایت تعجب تھا فرمایا کہ تعجب نہ کرو۔ یہ بھان متی کا سانگ ہے اور ایسے شعبدے ہم بہت دکھا سکتے ہیں لیکن فقیری کچھ اور ہی چیز ہے ، ان باتوں کا خیال مت کرو۔ صبح کو ہم دہلی کی طرف روانہ ہوئے اور فقیر صاحب غائب ہوگئے۔ “ (ص 358 ، 359) ارشاد ہوا کہ ایک بادشاہ نے نقالوں سے کہا کہ شیر کی نقل لاؤ مگر ان میں ، انہوں نے عذر کیا کہ دن میں راز کھلتا ہے ۔ حکم دیا کہ اگر نقل مطابق اصل نہ لائے تو تمہارے لئے اچھا نہ ہوگا ۔ وہ لوگ بہت گھبرائے کہ دن میں نقل کس طرح بنائیں۔ جب بہت متردد ہوئے تو ڈھولک بجانے والاجس کے سر پر تان ٹوٹا کرتی تھی بولا کہ میاں صاحب کیوں گھبراتے ہو۔ ” شب درمینان مترس ازبلا “ کل کی بات کل دیکھی جائے گی۔ اگلے دن نقال محل شاہی میں طلب ہوئے ، باہم صلاح کی ، ڈھولک نواز نے کہا مجھ پر چادر ڈال دو ، چادر ڈال دی ۔ الا اللہ کا نعرہ مار کر چادر میں سے ایک قہری شیربن کر اسی طرح گونجتا ہوا نکلا جیسے بن کے اندر سے اصل شیر برآمد ہوتا ہے۔ تمام محفل تھرا گئی۔ شیر نے اطراف محفل میں گشت لگایا۔ جب بادشاہ کے روبرو پہنچا پہنچا تو شہزاد ہ جو بادشاہ کی گود میں بیٹھا تھا اس کو ایسا طمانچہ مارا کہ فوراً مر گیا۔ بادشاہ نہایت مضطرب ہوا۔ وزیر نے کہا کہ حضرت گھبرایئے نہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کوئی کامل ہے۔ آپ ان کو حکم دیجئے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نقل لاؤ ۔ نقالوں سے کہا گیا ؓ ڈھولک والے نے کہا کہ حضرت عیسیٰ کی نقل فلاں مقام پر حضرت شمس تبریز ہیں وہ لائیں گے اور یہ بات کہہ وہ غائب ہوگیا۔ بہت سے خوش آواز گانے والے حضرت شمس تبریز کے پاس بھیجے گئے چونکہ وہ الحان کو پسند کرتے تھے سنتے ہی شاہی محفل تک چلے آئے۔ یہاں نقل عیسیٰ ﷺ کی دراخوست کی گئی کہ اچھا ۔ تین بار فرمایا : ” قم باذن اللہ “ مگر لڑکے نے جنبش نہ کی۔ آخر غصہ میں آکر ایک ٹھوکر ماری اور کہا ” قم باذنی “ شہزادہ اسی دم زندہ ہوگیا۔ “ (ص 372 ، 373) قرآن کریم میں یہ بات یہود کے منافقین کے جھوٹ کی چل رہی تھی کہ جھوٹ ان کا من بھاتا کھا جا ہے ۔ وہ جھوٹ کے رسیا اور جھوٹ کے گاہک ہیں۔ انہیں جھوٹی گواہی ، جھوٹی عدالت ، جھوٹا فیصلہ چاہے اس وجہ سے یہ پیغمبر کی عدالت سے گھبرا تے ہیں اور سردار ان یہود کی طرف بھاگتے ہیں اسلئے کہ یہ جس جنس کے خریدار ہیں اسکی فراوانی اسی بازار میں ہے۔ لیکن آپ یقین جانتے کہ اب اس بازار میں بھی اس کی کمی نہیں ہے۔ یہود کی یہ گمراہی کہ وہ برے طریقوں سے مال کھانے میں بےخوف ہیں : 126: ” لِلسُّحْتِ 1ؕ“ کے لفظی معنی کسی چیز کو جڑ بنیاد سے کھود کر برباد کرنے کے ہیں۔ اس معنی میں قرآن نے فرمایا ہے : فَیُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ 1ۚ (طہٰ 21 : 61) یعنی اگر تم اپنی حرکت سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ اپنے عذاب سے تمہارا استیصال کردے گا اور تمہاری جڑ بنیاد ختم کردے گا ، تمہارا نام و نشان مٹا کر رکھ دے گا ۔ قرآن کریم میں یہ لفظ تین بار استعمال ہوا اور تینوں ہی بار سورة المائدہ میں ہے ایک اس جگہ اور دو بار آیت 62 ، 63 میں ۔ مفسرین نے اس جگہ اس سے مراد رشوت لی ہے اور یہی معنی حضرت علی ؓ ، ابراہیم نخعی ، حسن بصری ، مجاہد ، قتادہ اور ضحاک وغیرہ نے بیان کئے ہیں اگرچہ سارے ہی برے طریقوں سے کمال کمانے کو سحت کہا جاسکتا ہے بلکہ کہا گیا ہے جس کی تفصیل دوسرے مقام پر مل جائے گی۔ رشوت کو سحت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف لینے دینے والوں کو برباد کرتی ہے بلکہ پورے ملک و ملت کی جڑ بنیاد اور امن عامہ کو تباہ کرنے والی ہے ۔ جس حکومت یا ملک میں رشوت چل جائے وہاں قانون معطل ہو کر رہ جاتا ہے اور قانون ملک ہی وہ چیز ہے جس سے ملک و ملت کا امن برقرار رکھا جاتا ہے وہ معطل ہوگیا تو نہ کسی کی جان محفوظ رہتی ہے ، نہ آبرو نہ مال۔ اس لئے شریعت اسلام میں اسکو ” لِلسُّحْتِ 1ؕ“ فرما کر اشد حرام قرار دیا ہے اور اس کے دروازہ کو بند کرنے کے لئے امراء و حکام کو جو ہدیئے اور تحفے پیش کئے جاتے ہیں ان کو بھی صحیح حدیث میں رشوت قرار دے کر حرام کردیا گیا ہے۔ (جصاص) ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ رشوت لینے اور دینے والے پر لعنت کرتے ہیں اور اس شخص پر بھی جوان دونوں کے درمیان دلال اور واسطہ بنے۔ (جصاص) چنانچہ نبی اعظم و آخر ﷺ نے فرمایا : (کل لحم نبت بالسحت فالنار اولیٰ بہ قالوا یا رسول اللہ وما الست قال الرشوۃ فی الحکم ) یعنی جو گوشت سحت سے پیدا ہوا سے آگ ہی جلائے گی ۔ عرض کی گئی اے اللہ کے رسول ! سحت کسے کہتے ہیں ؟ فرمایا فیصلہ کرتے وقت رشوت لینا۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ دراصل حاکم رشوت لیتے ہی معزول ہوجاتا ہے خواہ اسے بظاہر معزول نہ بھی کیا جائے یا بظاہروہ معزول نہ بھی ہوا ہو۔ فی زماننا اس نامراد بیماری نے پوری حکومت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ وزیر اعظم اور صدر مملکت سے لے کر چھوٹی چھوٹی عدالتوں کے چپڑاسیوں تک سب اپنے اپنے مدارج کے مطابق راشی ہیں۔ جتنے بڑے لوگ اتنی بڑی رشوت۔ پاکستان کا کوئی محکمہ ایسا نہیں جہاں رشوت ستانی نے پختہ ڈیرانہ لگا لیا ہو اور پھر سب سے بڑھ کر تعجب کی بات یہ ہے کہ اب رشوت کو رشوت کہنا جرم ہے اور رشوت خواروں کو رشوت خوار کہنامنہ میں آگ ڈالنے کے مترادف ہے۔ رشوت دینے اور رشوت لینے کو دینے اور لینے والے کا حق سمجھا جاتا ہے بلکہ اس مملکت اسلامی کا سارا نظام ہی رشوت پر قائم ہے اس اسلامی جمہوریہ میں بنیادی جمہوریتوں سے لے کر قومی اسمبلی کے ایم۔ این۔ اے تک سب کے سب کھلے بندوں رشوت دینے اور لینے ہی سے معرض وجود میں آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ صحیح معنوں میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی لعنت کے مستحق ٹھہرے گویا یہ ساری وزارتیں کیا ہیں ؟ ان خونخوار درندوں یعنی ملعونین کے بھٹ ہیں پھر آپ ہی بتائیں کہ اس ملک عزیز میں امن کس طرح قائم ہوسکتا ہے ؟ کسی کا جان و مال کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے ؟ اچھا آپ بتائیں گے کہ رشوت کی تعریف کیا ہے ؟ اچھا سن لو رشوت کی تعریف شرعی یہ ہے کہ جس کا معاوضہ لینا شرعاً درست نہ ہو اس کا معاوضہ لیا جائے وہ رشوت کہلاتا ہے ۔ بالکل صحیح فرمایا اگر یہ تعریف صحیح ہے تو ان علمائے کرام ہی سے دریافت کرلو کہ دین کے کس کس کام پر معاوضہ لینا جائز اور کس کس کام پر حرام ہے ۔ اگر حدیث سے ان کو چڑ ہے تو قددری ، کنز ، ہدایہ ، شامی ، درمختار ، رد مختارتارخانیہ اور عالمگیری وغیرہ کے نام تو ان کو یاد ہیں ۔ ہاں ! انہی سے نکال کر بتا دیں۔ اس بحث میں امام ابوحنیفہ (رح) نے کیا فرمایا اور امام ابویوسف (رح) اور امام محمد (رح) کا فتویٰ کیا ہے ، امام زفر (رح) کیا کہتے ہیں ؟ ان کا جواب تو ان کے پاس ہے کہ وہ آپ کو کیا دیں گے ایک بات ہماری بھی یاد رکھ لو کہ جو کچھ کہیں گے اس کا آخر کچھ اس طرح ہوگا کہ ” قرآن اور امامت اس سے مستثنیٰ ہیں علی فتویٰ المتاخرین “ یعنی قرآن کریم اور امامت پر معاوضہ لینا رشوت نہیں اور یہ فتویٰ متاخرین کا ہے ۔ اب تم سمجھ لو کہ امام ابوحنیفہ ؓ سے امام زفر تک سب متاخرین سے پہلے کے ہیں لہٰذا یہ سب لوگ قرآن کریم اور امامت پر معاوضہ بھی رشوت سمجھتے تھے لیکن متاخرین نے ان دونوں چیزوں کو مستثنیٰ کردیا تاہم باقی دین کے سارے کاموں کا معاوضہ اب بھی حرام ہے لیکن اب ” معاوضہ “ اور ” حرام “ دونوں لفظ متروک ہوگئے اور ان کی جگہ ثواب اور جزاک اللہ نے لے لی ہے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ پھر جو شخص رشوت لے کر کسی کا کام حق کے مطابق کرتا ہے وہ رشوت لینے کا گناہ گار ہے اور یہ مال اس کے لئے سحت و حرام ہے اور اگر رشوت کی وجہ سے حق کے خلاف کام کیا تو یہ دوسرا شدید جرم ، حق تلفی اور حکم خداوندی کو بدل دینے کا اس کے علاوہ ہوگیا۔ اب علماء کرام کا اوڑھنا بچھونا تمہیں ثواب دینے کے ساتھ وابستہ ہے یعنی تم ان کے خوردو نوش اور بودوباش کے لئے اچھے سے اچھا انتظام کرتے ہو اس لئے کہ وہ تمہارے مردوں کو ان سب چیزوں کا ثواب پہنچانے کے ٹھیکیدار ہیں۔ ظاہر ہے کہ جتنا اچھا تم دو گے اتنا ہی وہ اچھا تمہارے مردوں کو ثواب پہنچا ہیں گے۔ تم نے تو معاوضہ ان کو دے دیا تمہارے مردوں کو ثواب پہنچایا نہیں ان کی بلا سے اس لئے کہ یہ ان کو بھی یقین ہے کہ نہ تمہارا مردہ واپس آئے گا نہ تم کو بتائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا نسخہ بڑاکار گر ہے۔ کسی ملک و قوم کے روساء اور علماء دونوں ہی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ ان میں سے اگر ایک گروہ درست ہو اور دوسرا خراب تو اس ملک اور قوم کی اصلاح کی امید کسی نہ کسی حد تک ضرور ہوتی ہے لیکن جس قوم کے یہ دونوں گروہ ہی رشوت خوار ہوں اور طرح طرح کی خرابیوں میں مبتلا ہوچکے ہوں اس کی اصلاح کی امید یقینا سنت اللہ کے خلاف ہے ۔ الایہ کہ ان دونوں میں سے کسی کی اصلاح ہوجائے یا دونوں ہی درست ہوجائیں اس معاملہ میں ہم دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اے اللہ ! تو قادر مطلق ہے پاکستان میں ان دونوں گروہوں کی اصلاح فرمادے اور پورے عالم اسلام کی پر شانیوں کا مداوا فرما۔ بات ہو رہی تھی اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ 1ؕ کی کہ یہودبرے طریقوں سے لوگوں کا مال کھانے کے عادی ہوچکے تھے اور ظاہر ہے کہ برا طریقہ مال کھانے کا کوئی حرام طریقہ بھی ہو سکتا ہے کسی حلال اور جائز طریقہ سے مال کھانے کو ” السحت “ نہیں کہا جاسکتا اس سلسلے میں ان کی قومی کمزوری ” رشوت “ کا بیان کیا گیا۔ اس کو قومی بیماری اسلئے کہا کہ ان کے ہاں بھی عدل پر قائم رہنے اور رشوت نہ لینے کے احکام آچکے تھے جو ساری تحریفوں کے باوجود ان کی مذہبی کتاب تورات میں اس وقت بھی موجود تھے اور اب بھی موجود ہیں۔ چناچہ کہا گیا کہ ” اپنے سارے فرقوں میں قاضع اور حاکم مقرر کی جو۔ وہ انصاف سے لوگوں کی عدالت کریں تو عدالت میں مقدمہ مت بگاڑئیو تو طرف داری نہ کیجیو اور نہ رشوت لیجیو کہ رشوت دانس مند کی آنکھوں کو اندھا کردیتی ہے اور صادق کی باتوں کو پھیرتی ہے۔ “ (استثناء 16 : 18 ، 19) اور پھر قوم یہود سے قوم مسلم کا موازنہ کر کے تمہارے سامنے رکھ دیا گیا لیکن اس سلسلہ میں جو ذمہ داری آپ کی ہے وہ آپ کو پورا کرنا ہے کیونکہ وہ ہر قاری کا اپنا کام ہے۔ اگر وہ کسی فیصلہ کے لئے آپ کا پاس آئیں تو فیصلہ کرویا کنارہ کش ہوجاؤ تمہیں اختیار ہے : 127: یہود کی ایک چال اور اس کا توڑ اس حکم میں واضح کردیا ۔ فرمایا اے پیغمبر ! یہ لوگ جو دوسروں کے بھیجے ہوئے تمہارے پاس آتے ہیں اور دل میں یہ ارادہ لے کر آتے ہیں کہ فیصلہ ان کے حسب منشاء ہوگا تب تو قبول کریں گے ورنہ رد کردیں گے تو ایسے لوگوں کے متعلق تمہیں اختیار ہے کہ تم ان کے مقدمے کے فیصلے کی ذمہ داری لو یا نہ لو ۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے اوپر قیام عدل و قسط کی ذر داری اصلاً صرف انہی لوگوں کے متعلق ہے جو تمہارے دائرہ اقتدار اور اطاعت کے اندر ہیں جو اس سے باہر ہیں ان کی ذمہ داری شرعاً تم پر عائد نہیں ہوتی۔ مصلحت دیکھو تو ان کا مقدمہ سن لو اور اگر مصلحت فیصلہ نہ کرنے میں ہو تو آپ پابند بھی نہیں کہ ضرور انکا فیصلہ کریں یہ وہ وقت تھا کہ رسول اللہ ﷺ دنیوی حیثیت سے بھی ابھی مدینہ ہی کے حاکم و آمر اور مقتدر تھے کیونکہ اس وقت اس سٹیٹ کی حدود مدینہ ہی حدود تھیں۔ مضافات مدینہ کے یہود اس وقت تک احکام اسلام کے ماننے کے پابند نہ تھے اس لئے کہ وہ اس حکومت کے باشندے قرار نہ پائے تھے۔ تاہم یہود اکثر یہ چاہتے تھے کہ اپنے فیصلے ، قضئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کریں اگرچہ ان کے ایسا کرنے کا مطلب امتحان بھی ہوتا تھا اور یہ بھی کہ وہ سمجھ رہے تھے کہ اسلام کے احکام اکثر اوقات تورات کے احکام سے نرم ہیں۔ پھر وہ یہ خیال بھی رکھتے تھے کہ اگر ان کے فیصلے کو دل نے مان لیا تو قبول ورنہ نہ قبول کرنے کا حق تو ان کا اپنی جگہ محفوظ ہیں۔ فیصلہ کرنا یا نہ کرنا تو تمہارے اختیار لیکن کرنا ہے تو انصاف کے آپ پابند ہیں : 128: فرمایا کہ اگر آپ ان کے درمیان فیصلہ نہ کریں گے تو آپ ﷺ کا کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے اور نہ ہی آپ ﷺ کو کچھ نقصان پہنچا سکیں گے اور یہ ارشاد اس لئے فرمایا کہ یہود اس طرح کے مقدمات نبی اعظم و آخر ﷺ کے پاس بھیجے تھے تو اسمیں ان کی کوئی نہ کوئی غرض مفسدانہ ضرور ہی موجود ہوتی تھی کہ اور کچھ نہیں تو فیصلہ جس فریق کے خلاف ہوگا وہ یقینا آپ ﷺ کا دشمن ہوجائے گا اور وہ اس سے بری الذمہ ہوں گے کیونکہ اس طرح کی چالیں مدت سے لوگ چلتے آرہے ہیں اور آج بھی چلی جا رہی ہیں اور لوگ آج بھی اس سے بہت سے سیاسی فوائد حاصل کرتے رہتے ہیں اور یہ جس کو ” پر یا “ یا ” پنچ “ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یہ کیا ہے ؟ اس طرح کے سیاسی فوائد حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے اور یہ دیہات و قضبات کے وڈیروں کو اندرون خانہ ساتھ ملا کر ان سے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کا ایک بہترین گر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اطمینان دلا دیا کہ آپ ﷺ اگر ان کا معاملہ لیں تو فیصلہ اسی قانون عدل وقسط کے مطابق کرنا جو اللہ نے آپ ﷺ پر نازل فرمایا ہے اور اس طرح یہ عہد پیغمبر اسلام ﷺ سے لے کر آپ ﷺ واسطے سے پوری امت مسلمہ سے لے لیا گیا کہ فیصلہ اپنوں کے کسی معاملہ کا ہو یا غیروں کا بلکہ پکے دشمنوں کا بہر حال وہ لاگ لپٹ سے آزاد اور قانوں عدل وقسط کے مطابق ہو اس لئے کہ ” انصاف کے ساتھ قائم رہنے کا “ مطلب یہی ہے۔ وہ انصاف کا ہے کا انصاف ہوگا جو صرف اپنون ہی کے ساتھ ہو اور اپنے ہی تسلیم کریں کہ ہاں انصاف ہوا۔ انصاف وہی انصاف ہے جس میں اپنے اور پرائے کا قطعا لحاظ نہ ہو۔ یہی وہ بات ہے جس کی خاطر اللہ نے پچھلی امتوں کو معزول کر کے محمد رسول اللہ ﷺ کی امت وسطی کو ان ہدایات سے نوازا ہے یعنی جب فیصلہ کیا جائے تو عدل و انصاف کو پیش نظر رکھا جائے کسی کا یہودی یا عیسائی یا منافق اور دشمن دین ہونا اس پر ظلم کرنے اور اس کا حق ضائع کرنے کیلئے وجہ جواز نہیں بن سکے ۔ اسلام کی تعلیم تو یہی ہے لیکن آج قوم مسلم خود کیا کر رہی ہے اس کا تجزیہ خود کرلو کیونکہ ملک میں شاید ہی کوئی فردایسا ہو جس کو کسی نہ کسی رنگ میں فیصلہ کرنے اور کرانے سے واسطہ نہ پڑا ہو۔ “ اللہ تعالیٰ انصاف پسند لوگوں ہی کو دوست رکھتا ہے : 129: اس تاکید مزید کا مطلب بھی یہی ہے کہ قوم مسلم اس گمراہی میں کہیں مبتلا نہ ہو جس گمراہی میں اس سے پیشتر یہود و نصاریٰ مبتلا رہ چکے ہیں اور ظاہر ہے کہ اللہ جن کے ساتھ محبت کرتا ہے انہیں حق پر رہنے کی توفیق بھی عطا کرتا ہے اور جس طرح عمل کی وضاحت اس کے نتجہ سے ہوجاتی ہے اسی طرح اس توفیق سے وضاحت اللہ کی محبت کی بھی ہوجاتی ہے ، اب مطلب بالکل واضح ہے کہ جو قوم عدل و انصاف کے معاملہ میں اپنے اور پرائے کا فرق رکھتی ہے وہ اللہ کی پیاری اور محبوب نہیں ہو سکتی خواہ وہ اپنی دنیوی ترقی کے باعث ستاروں پر کمند ڈال رہی ہو اس لئے کہ اس کی ترقی کا باعث اللہ تعالیٰ کا قانون ” امہال “ اور ؟ ؟ قضائے بالحق “ ہے جس کی مہلتیں انسانی زندگی کے مقابلہ میں بہت طویل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اس سے دھوکا کھا جاتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ اللہ کی نافرمان قومیں عیش و عشرت کر رہی ہیں اور وہ ترقی کے بام پر ہیں اور وہ جو فرمانبردار ہیں وہ دربدر دھکے کھارہی ہیں اور تقریباً یہی حال افراد کا ہے۔ حالانکہ فرمانبرداری کا حال اس وقت کھلتا ہے جب نتیجہ کھلتا ہے جس طرح طالب علم کی محنت کا حال اس وقت کھلتا ہے جب رزلٹ آؤٹ ہوتا ہے۔ یہ وضاحت اس لئے ضروری ہوئی ہے کہ اس وقت جو قومیں بام عروج پر ہیں ان کی باقی ساری باتیں علیحدہ رکھ کر صرف اس بات کو دیکھا جائے کہ وہ اپنے اور پرائے کے ساتھ عدل و انصاف کر رہے ہیں اگر نہیں تو یہی علامت اس بات کی وضاحت کے لئے کافی ہے کہ ان اقوام کو اللہ کی محبوب نہ تصور کرلیا جائے بلکہ انکی ترقی کا راز ” قانون امہال “ اور ” قصائے بالحق “ کو قرار دیا جائے اور ساتھ ہی اپنی ان کمزوریوں کا حل تلاش کیا جائے جن کمزوریوں کے باعث مشیت ایزدی کے اس قانون نے ان کا ساتھ دیا۔ رہی یہ بات کہ ہماری وہ کمزوریاں کیا ہیں ؟ تو اس کا مختصر اور بالکل صحیح جواب یہی ہے کہ وہ سب کمزوریاں جو اس وقت قوم یہود و نصاریٰ میں موجود تھیں لیکن پیغمبر اسلام ﷺ نے ایسی جماعت تیار کی جس کے اندر وہ کمزوریاں نہ رہنے دیں بلکہ ان کو ایک ایک کر کے ختم کردیا جس کے نتیجہ میں دس سال کی قلیل مدت میں ان سب کو پچھاڑ کر پیچھے چھوڑ دیا اور خود آگے نکل گئے ان کے اوسان ایسے خطا ہوئے کہ ان کو سنبھلتے سنبھلتے سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال ہوگئے اور قومی عروج وزوال کے لئے سنت اللہ کا بیان آئے گا تو انشاء اللہ اس کی مزید وضاحت مل جائے گی۔ تعجب ہے کہ یہ لوگ کتاب الٰہی کو چھوڑ کر آپ ﷺ سے فیصلہ کے لئے رجوع کرتے ہیں : 130: ” کیف “ کلمہ تعجب ہے یعنی اس پر اظہار حیرت ہے کہ یہ لوگ یعنی یہود اپنی کتاب آسمانی رکھنے کے باوجود فیصلہ کے لئے آپ ﷺ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ کتاب جو ان کے پاس ہے وہ بھی ہم ہی نازل کرنے والے ہیں جس میں حق کی طرف راہنمائی موجود ہے اور جس بات کا یہ فیصلہ کرانا چاہتے ہیں اس کا حکم بھی اسی میں آچکا ہے پھر یہ کیسے مان لیا جائے کہ وہ کسی نیک نیت کے ساتھ آپ ﷺ کے پاس آتے ہیں یقینا ان کی نیت درست نہیں بلکہ وہ اس بات کی آزمائش چاہتے ہیں کہ کیا واقعی آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ؟ اور یہ اس طرح کہ اگر آپ ﷺ ان کے رواج کے مطابق فیصلہ دیں گے تو وہ فیصلہ کو مان لیں گے کیونکہ اس میں ان کے لئے آسانی ہے لیکن اپنے اندر اس بات کا پختہ یقین کرلیں گے کہ آپ ﷺ نے فیصلہ وہ کردیا جو پہلے ہی ان کی کتاب میں موجود ہے تو وہ اس فیصلہ پر شوربپا کریں گے کہ فلہکا تو بہت سخت ہے ۔ ماننے کے قابل نہیں اس لئے کہ یہ ان کے رواج کے خلاف ہے اور آپ ﷺ کے فیصلہ کو سخت فیصلہ قرار دے کر لوگوں کو آپ ﷺ سے متنفر کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ سارا کھیل اس برتے پر کر رہے ہیں کہ انہوں نے حکم الٰہی کو جو تورات میں موجود ہے عام لوگوں سے اس کو چھپا دیا ہے۔ کتاب الٰہی کا صرف نام باقی ہے اور اس کا باقی رکھنا ان کی قومی مجبوری ہے : 131: حقیقت یہ ہے کہ ” ایمان “ نام کی چیز ان کے دلوں میں قطعاً موجود نہیں کیونکہ ایمان نام ہے کتاب الٰہی کے مطابق اپنے فیصلے کرنے کا اور یہ لوگ ایسا کرنا نہیں چاہتے اس لئے کہ کتاب الٰہی کے مطابق فیصلہ ہو تو اس میں غریب و امیر کا لحاظ مطلقاً موجود نہیں اور ان کا رواج یہ ہے کہ مجرم اگر غریب ہو تو اس کو پیس کر رکھ دیا جائے اور اگر امیر ہو تو اس کے لئے جتنی زیادہ سے زیادہ نرمی وہ اختیار کرسکیں کریں اور یہ بات اس صورت ہی ممکن ہے کہ ہر قانون میں ان کا عمل دخل ہو اور قانون میں عمل دخل اسی صورت ہو سکتا ہے کہ وہ قانون الٰہی نہ ہو بلکہ انسانون کا اپنا بنایا ہوا اور اپنا نافذ کردہ ہو تاکہ ضرورت کے مطابق اس کو ڈھیلا کیا جاسکے اور ضرورت کے مطابق اسکو ٹائیٹ بی کیا جاسکے۔ پھر کتاب الٰہی کا نام بھی باقی رہے کیونکہ یہ ان کی قومی مجبوری ہے اس لئے کہ من حیث القوم وہ تورات کو کتاب الٰہی تسلیم کرچکے ہیں اور علمائے قوم کا آخر کام ہی کیا رہ جاتا ہے اگر ضرورت کے مطابق وہ احکام میں نرمی یا سختی پیدا ہی نہ کرسکیں اور وہ قانون من و عن نافذ ہوتا رہے۔ زیر نظر آیات میں جو واقعہ حقیقت میں در پیش تھا وہ کیا تھا ؟ تفاسیر میں زنا کے ایک مقدے کا ذکر ہے جس میں یہود مدینہ نے نبی اعظم و اخر ﷺ کی طرف رخ کیا۔ زنا کے مرتکب امیر گھرانے کے افراد تھے ۔ علمائے یہود نے چونکہ امیر وغیریب کے لئے الگ الگ ضابطے بنا رکھے تھے اور تورات کے اصل حکم کو وہ چھپا چکے تھے اس فیصلہ کے مطابق انہوں نے یہ کوشش کی کہ اس کا فیصلہ وہ وقت کے نبی ﷺ سے کرائیں اور شاید اس طرح ان کو کوئی شرارت ہاتھ لگ جائے اور ان کو یہ خیال بھی تھا کہ اگر فیصلہ ان کی منشاء کے مطابق نہ ہوا تو اس سے انحراف کرتے آخر ان کو دیر ہی کیا لگے گی کیونکہ وہ نبی کریم ﷺ کو اللہ کا رسول کب تسلیم کرتے ہیں ؟ قرآن کریم نے ان کی مخفی شرارتوں کی طرف صرف اشارہ فرما دیا اور پیغمبر اسلام ﷺ اور مسلمانوں کو یہ بات بتادی کہ جس معاملہ میں وہ پیغمبر اسلام ﷺ کو حکم ماننے کیلئے دعویدار ہیں اس کا فیصلہ تو خود تورات کے اندر موجود ہے جس کو وہ ایک مدت سے چھپاتے آرہے ہیں اور نہیں چاہتے کہ اس کے مطابق فیصلہ کریں ۔ قرآن کریم کا یہ سب سے بڑا معجزہ ہے کہ وہ مخالفین سے الجھتا بھی نہیں اور بات بھی بالکل صاف صاف بیان کردیتا ہے۔ یہاں بھی اس نے یہی کیا اور یہود کو کتنے واضح الفاظ میں فرمادیا کہ ” اے یہود تورات تمہارے پاس موجود ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کا صاف صاف حکم بھی موجود ہے پھر تم عجیب لوگ ہو کہ اس سے منہ پھیر جاتے ہو اور اس پر صحیح معنوں میں ایمان لانے کیلئے تیار نہیں ہو۔ “ آج بھی جب کہ خود اہل کتاب کو تورات میں تحریف کا اقرار ہے لیکن شادی شدہ افراد کے زنا کے ارتکاب کا حکم اس میں موجود ہے اور قرآن کریم نے بھی اس کو تورات کے حکم کے طور پر تسلیم کیا ہے اس سلسلے میں چند حوالے ملاحظہ فرما لیں ” اور وہ شخص جو دوسرے کی جو رو کے ساتھ یا اپنے پڑوسی کی جو رو کے ساتھ زنا کرے وہ زنا کرنے والا اور زنا کرنے والی دونوں قتل کئے جائیں۔ “ (احبار 20 : 10) ” اگر کوئی مرد کسی عورت کو بیا ہے اور اسکے پاس جائے۔۔ یہ دعویٰ کرے کہ میں نے اس میں کنوارے پن کے نشان نہیں پائے۔۔ اور یہ بات سچ ہو کہ اس میں کنوارے پن کے نشانات نہیں پائے گئے تو وہ اس لڑکی کو اس کے باپ کے گھر کے دروازہ پر نکال لائیں اور اسکے شہر کے لوگ اسے سنگسار کریں کہ مر جائے کیونکہ اس نے اسرائیل کے درمیان شرارت کی کہ اپنے باپ کے گھر فاحشہ پن کیا۔ “ (استثناء 22 : 13 ، 31) ” اگر کوئی مرد کسی شوہر والی عورت سے زنا کرتے پکڑا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں یعنی وہ مرد بھی جس نے اس عورت سے صحبت کی اور وہ عورت بھی یوں تو اسرائیل میں ایسی برائی کو دفع کرنا۔ “ (استثناء 22 : 23) اناجیل سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہود نے جو فیصلہ نبی اعظم و آخر ﷺ کے پاس بھجوایا بالکل اسی طرح کا فیصلہ وہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس بھی لے کر گئے تھے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہود کی یہ پرانی عادت تھی کہ وہ دین کی باتوں میں بھی شراتیں کرنے سے باز نہیں آتے تھے ۔ جس فیصلہ کو قرآن کریم نے تورات کا فیصلہ قرار دیا اور یہود کو یہ کہا کہ اس میں آج بھی وہ اللہ کا حکم موجود ہے جس کو تم نے اللہ کا حکم تسلیم کیا ہے تو آج اس کا فیصلہ پیغمبر اسلام ﷺ سے کرانے کی بجائے تم اس فیصلہ کو کیوں تسلیم نہیں کرتے جو تمہاری اپنی مذہبی اور الہامی کتاب تورات میں موجود ہے ۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) سے جب انہوں نے ایسا ہی سوال کیا تو عیسیٰ (علیہ السلام) نے جو جواب دیا وہ بھی آج تک انجیل میں موجود ہے۔ چناچہ تحریر ہے کہ ” اور فقیہ اور فریسی ایک عورت کو لائے جو زنا میں پکڑی گئی تھی اور اسے بیچ میں کھڑا کر کے یسوع سے کہا اے استاد ! یہ عورت زنا میں عین فعل کے وقت پکڑی گئی ہے ۔ توریت میں موسیٰ نے ہم کو حکم دیا ہے کہ ایسی عورتوں کو سنگسار کریں۔ پس تو اس عورت کی نسبت کیا کہتا ہے ؟ انہوں نے اسے آزمانے کے لئے کہا تھا کہ اس پر الزام لگانے کوئی سبب نکالیں۔ مگر یسوع جھک کر انگلی سے زمین پر لکھنے لگا۔ جب وہ اس سے سوال کرتے ہی رہے تو اس نے سیدھے ہو کر ان سے کہا ” جو تم میں بےگنہ ہو وہی اس کو پہلے تھپڑ مارے۔ “ اور پھر جھک کر زمین پر انگلی سے لکھنے لگا۔ وہ یہ سن کر بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک ایک ایک کر کے نکل گئے اور یسوع اکیلا رہ گیا اور وہ عورت وہی بچک میں رہ گئی ۔ یسوع نے سیدھے ہو کر اس سے کہا اے عورت یہ لوگ کہاں گئے ؟ کیا تجھ پر کسی نے حکم نہیں لگایا ؟ اس نے کہا اے خداوند ! کسی نے نہیں۔ یسوع نے کہا میں بھی تجھ پر حکم نہیں لگاتا ، جا پھر گناہ نہ کرنا۔ “ (یوحنا 8 : 3 تا 11) اندازہ کیجئے کہ یہود خود ہی عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس فیصلہ لائے اور جب فیصلہ سن لیا تو اس سے خود ہی ہٹ بھی گئے اور بالکل قرآن کریم نے بھی ان کی وہی حرکت بیان کی کہ وہ خود ہی نبی اعظم و آخر ﷺ کے پاس فیصلہ لے کر آئے اور جب رسول اللہ ﷺ نے ان کو ان کی الہامی کتاب کا حوالہ دیا تو یَتَوَلَّوْنَ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ 1ؕ یعنی ” پھر اس کے بعد خود ہی ہٹ گئے “ کے الفاظ بیان فرمائے اور مزید فرمایا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ؟ فرمایا : وَ مَاۤ اُولٰٓىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ (رح) 0043 ” اور یہ لوگ ایمان والے نہیں۔ “ صرف آزمائش چاہتے ہیں وہ بھی شرارتاً اور آج بھی ایسے لوگوں کی کوئی کمی موجود نہیں بلکہ یہ گروہ ترقی پذیر ہے مزید وضاحت اسکی سورة نور میں آئے گی ۔ ان شاء اللہ
Top