Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 42
سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ١ؕ فَاِنْ جَآءُوْكَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ١ۚ وَ اِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ یَّضُرُّوْكَ شَیْئًا١ؕ وَ اِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ
سَمّٰعُوْنَ : جاسوسی کرنے والے لِلْكَذِبِ : جھوٹ کے لیے اَكّٰلُوْنَ : بڑے کھانے والے لِلسُّحْتِ : حرام فَاِنْ : پس اگر جَآءُوْكَ : آپ کے پاس آئیں فَاحْكُمْ : تو فیصلہ کردیں آپ بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اَوْ : یا اَعْرِضْ : منہ پھیر لیں عَنْهُمْ : ان سے وَاِنْ : اور اگر تُعْرِضْ : آپ منہ پھیر لیں عَنْهُمْ : ان سے فَلَنْ : تو ہرگز يَّضُرُّوْكَ : آپ کا نہ بگاڑ سکیں گے شَيْئًا : کچھ وَاِنْ : اور اگر حَكَمْتَ : آپ فیصلہ کریں فَاحْكُمْ : تو فیصلہ کریں بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان بِالْقِسْطِ : انصاف سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُقْسِطِيْنَ : انصاف کرنے والے
(یہ) جھوٹ کے رسیا، پکے حرام خور ہیں، پھر بھی اگر یہ لوگ (اپنے مقدمات کا فیصلہ کرانے) آپ ﷺ کے پاس آئیں (تو آپ ﷺ کو اختیار ہے کہ اگر آپ چاہیں) تو ان کے درمیان فیصلہ کردیں، یا ان سے منہ پھیر لیں، اور اگر آپ ان سے منہ پھیر لیں تو یہ آپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے، اور اگر آپ فیصلہ کریں، تو ان کے درمیان عدل (وانصاف) ہی کے ساتھ فیصلہ کریں، بیشک اللہ پسند فرماتا ہے انصاف کرنے والوں کو،
106 یہود کی ضرب المثل حرام خوری کا ذکر وبیان :ـسو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ پکے حرام خور ہیں کہ یہ لوگ رشوت خوری، چور بازاری، سود خوری اور فتویٰ فروشی وغیرہ کے عادی ہیں۔ اور آج تک دنیا بھر میں ان کے اطوار یہی ہیں۔ یہ سود خور، جوا باز اور چکر باز ہیں۔ شاید اسی لئے یہاں پر " آکلون " نہیں " اَکَّالُون " فرمایا گیا ہے۔ جو کہ مبالغے کا صیغہ ہے کہ یہ لوگ بڑے ہی حرام خور لوگ ہیں۔ سو ہم نے اپنے ترجمے کے اندر اسی فرق اور زور بیان کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ وَب اللہ التوفیق ولہ الحمد والشکر قبل کل شییئٍ وَ بَعْدَ کُلّ شْیئٍ ۔ اللہ تعالیٰ تمام یہودیانہ خصلتوں سے امت مسلمہ کو محفوظ رکھے ۔ آمین ثم امین یا رب العالمین ۔ بہر کیف سماع حرام اور اکل حرام یہود بےبہبود اور ان کے ہم مشربوں کی دو بڑی بیماریاں تھیں جو ان پر بری طرح مسلط تھیں۔ اور اسی بنا پر یہ لوگ خیر کے بہت سے اسباب سے محروم ہوگئے تھے ۔ والعیاذ باللہ ۔ 107 اہل باطل کے درمیان فیصلے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار :ـسو پیغمبر کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ پھر بھی اگر یہ لوگ آپ کے پاس اپنے مقدمات کا فیصلہ کرانے کے لیے آئیں تو آپ کو اختیار ہے کہ آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں یا ان سے منہ پھیر لیں۔ کیونکہ ان کا مقصد حق کو اپنانا، قبول کرنا اور اس کی پیروی کرنا سرے سے ہے ہی نہیں۔ پھر ان کو منہ لگانے کا فائدہ کیا ؟۔ لہذا معاملہ آپ کی مرضی اور اختیار پر ہے۔ اس لئے آپ چاہیں اور ان کے درمیان فیصلے میں کوئی بہتری اور فائدہ دیکھیں تو ان کے درمیان فیصلہ کردیں۔ نہیں تو ان سے اعراض کرلیں۔ آپ ﷺ کو دونوں باتوں کا اختیار ہے۔ لیکن واضح رہے کہ یہ مرضی اور اختیار اہل ذمہ کے بارے میں نہیں بلکہ ان کے درمیان فیصلہ کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ ایسے لوگ اپنے عقد ذمہ کی بنا پر اسلامی حکم اور فیصلے کے بہرحال پابند ہیں۔ (المراغی وغیرہ) ۔ اور جو لوگ عقد ذمہ کے پابند نہ ہوں اور حق قبول کرنا بھی نہ چاہتے ہوں ان کے فیصلے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لئے ایسوں کا معاملہ آپ کی صوابدید پر ہے۔ چاہیں تو ان کے درمیان فیصلہ کردیں یا ان سے روگردانی کریں۔ 108 عدل و انصاف کی پابندی کا حکم وارشاد :ـسو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو عدل وانصاف ہی کے ساتھ کریں۔ کہ کوئی فریق خواہ کتنا ہی شریر کیوں نہ ہو آپ ﷺ کا کام تو بہرکیف انصاف ہی کرنا ہے۔ اسی کلمہ " او " کی بنا پر بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ امام اور قاضی کو اہل ذمہ کے درمیان فیصلہ کرنے یا اعراض برتنے کا اختیار حاصل ہے۔ اور بعض نے یہ کہا کہ یہ تخییر۔ { وَاَنِ احْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ } ۔ کے حکم و ارشاد سے منسوخ ہوگئی لیکن حق اور صواب یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ منسوخ نہیں محکم ہے۔ اور یہ تخییراب بھی باقی ہے۔ یہی روایت ہے حسن، شعبی، نخعی اور زہری سے۔ اور یہی قول ہے حضرت امام احمد کا۔ یعنی امام کو اختیار ہے کہ ان کے درمیان فیصلہ کرے یا نہ کرے اور ان سے اعراض کر دے۔ لیکن جب فیصلہ کرے تو عدل و انصاف ہی سے کرے۔ (محاسن التاویل للقاسمی) کہ عدل و انصاف بہرحال مطلوب ہے۔ سو اس سے عدل و انصاف کی عظمت و اہمیت واضح ہوجاتی ہے کہ اس کو ہر حال میں ملحوظ رکھنا ہے کہ عدل و انصاف کے قیام اور اس کی بقا پر سارے نظام کا دارومدار ہے۔ اور عدل و انصاف کا حامل اور علمبردار یہی دین حق ہے جو ساری دنیا کیلئے حق و ہدایت، عدل و انصاف اور خیر و برکت کا پیغام بن کر آیا ہے۔ اسی لئے یہاں پر یہ ہدایت فرمائی گئی کہ آپ کو ان کے بارے میں فیصلہ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہے۔ لیکن جب آپ فیصلہ کریں تو عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہی کریں ۔ وَبِاللّٰہِ التوفیق -
Top