Dure-Mansoor - Al-Haaqqa : 6
وَ اَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَةٍۙ
وَاَمَّا عَادٌ : اور رہے عاد فَاُهْلِكُوْا : پس وہ ہلاک کیے گئے بِرِيْحٍ : ساتھ ایک ہوا کے صَرْصَرٍ : پالے والی۔ تند عَاتِيَةٍ : سرکش ۔ حد سے نکلنے والی
اور عاد ٹھنڈی تیزہوا کے ذریعہ ہلاک کیے گئے
قوم نوح اور عاد کی ہلاکت 6۔ فریابی وعبد بن حمید وابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ ہوا میں سے کوئی چیز نہیں بھیجتے مگر پیمانہ کے ساتھ اور کوئی قطرہ بارش کا نازل نہیں فرماتے مگر پیمانے کے ساتھ۔ سوائے قوم نوح اور قوم عاد پر کہ ان دونوں کو بغیر کسی پیمانے اور حد کے بھیجا اور نوح (علیہ السلام) کی قوم کو جب تباہ و برباد کیا تو پانی اس کے خازن فرشتوں پر بھی غالب آگیا اور ان کے لیے اس پر قابو پانے کا کوئی راستہ نہیں رہا پھر یہ آیت پڑھی آیت انا لما طغا الماء (جب پانی نے جوش مارا) اور قوم عاد کی تباہی کے وقت ہوا خازن فرشتوں پر غالب آگئی اور ان کے لیے اس سے بچاؤ کا کوئی ذریعہ نہیں رہا پھر یہ آیت پڑھی۔ آیت بریح صرصر عاتیہ۔ 7۔ ابن جریر نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ فرشتوں کے ہاتھوں سے بغیر پیمانے اور مقرر حد کے بارش کا کوئی قطرہ نازل نہیں ہوا سوائے نوح (علیہ السلام) کی قوم پر آنے والے سیلاب کے کیونکہ اس دن نے پانی کو خازن فرشتوں کے بغیر اجازت دے دی۔ لیکن اس دن پانی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے خازن فرشتوں پر غالب آگیا اور پھر نکل گیا۔ اور قوم عاد کی تباہی کے دن کے سوا فرشتوں کے ہاتھوں بغیر حدود اور پیمانے کے کبھی ہوا نہیں چلی۔ کیونکہ اس دن اسے نگران فرشتوں کے بغیر چلنے کی اجازت دے دی گئی ہو وہ نکل گئی اسی کو فرمایا آیت انا لما طغا الماء (حد سے تجاوز کرنے کی وجہ سے) نگران فرشتوں پر غالب آگئی۔ 8۔ ابو الشیخ نے العظمہ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا میری صبا کے ساتھ مدد کی گئی اور قوم عاد کو دبور کے ساتھ ہلاک کیا گیا پھر فرمایا ذمہ دار فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ قوم عام پر ہوا کو بھیجیں انگوٹھی کی مقدار سوراخ سے تو وہ ذمہ دار فرشتوں پر غالب آگئی۔ اور وہ درواوں کے کناروں سے نکل گئی تو اس لیے فرمایا آیت بریح صرصر عاتیہ پھر فرمایا وہ تیز اور تند ہوا جو ذمہ دار فرشتوں پر غالب آگئی۔ وہ دیہات کے رہنے والوں پر سب سے پہلے چلی اور اس نے انہیں ان کے مویشیوں اور ان کے گھروں کے ساتھ اٹھالیا اور ان کو شہری آبادی کے سامنے لے آئی۔ آیت فلما رأوہ عارض امستقبل اودیتہم۔ قالوا ہذا عاض ممطرنا (الاحقاف آیت 24) جب انہوں نے اسے دیکھا کہ وہ ایک ابر ہے جو ان کے میدانوں کی طرف بڑھا چلا آرہا ہے کہنے لگے یہ تو ابر ہے جو ہم پر برسے گا۔ جب ہوا قریب آئی تو ان پر چھاگئی تو لوگ اور مویشی اس میں آگے بڑھ گئی۔ تو اس نے دیہاتیوں کو شہریوں پر پھینک دیا وہ ان کو توڑنے لگی تو وہ سب کے سب ہلاک ہوگئے۔ 9۔ ابو الشیخ نے العظمہ میں والدارقطنی فی الافراد ووابن مردویہ وابن عساکر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی کا ایک بھی پانی نہیں اتارا مگر پیمانے کے ساتھ اور ہا کی ایک مشت نہیں بھیجی مگر پیمانے کے ساتھ۔ مگر نوح (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب کے دن ایسا نہیں کیا کیونکہ اس دن پانی ذمہ دار فرشتوں پر غالب آگیا تو ان کو اس پر کوئی کنٹرول نہ رہا کہ اس کو روک سکیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت انا لما طغا الماء حملنک فی الجاریۃ۔ جب پانی نے جوش مارا تو ہم نے تم کو اس کشتی میں سوار کردیا جو پانی میں چل رہی تھی۔ اور قوم عاد کے دن ہوا ذمہ دار فرشتوں پر غالب آگئی اس کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت بریح صرصر عاتیہ یعنی غالب ہونے والی۔ 10۔ عبد بن حمید نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ ” الصر صر “ سے مراد ہے سخت ٹھنڈی ہوا۔ عاتیہ یعنی وہ ہوا ذمہ دار فرشتوں پر غالب آگئی۔ 11۔ ابو الشیخ نے العظمہ میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” عاتیہ “ سے مراد انتہائی شدید آندھی اور آیت ” حسوما “ سے مراد ہے لگاتار۔ 12۔ ابن عساکر نے ابن شہاب (رح) کے طریق سے قبیصہ بن ذوئب (رح) سے روایت کیا کہ جو بھی ہوا چلتی اس پر فرشتے مقر رہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں اس کی مقدار کو اس کے عدد کو اور اس کے وزن اور کیل کو، مگر وہ ہوا جو قوم عاد پر بھیجی گئی وہ اتنی تیزی سے نکلی کہ فرشتے نہیں جانتے تھے اس کے وزن کو، اس کی مقدار کو اور اس کے کیل اور اس کی وجہ یہ تھی یہ اللہ تعالیٰ کا غضب تھا۔ اسی لیے اس کو عاتیہ کا نام دیا گیا اور پانی بھی اسی طرح تھا جب کہ اسے نوح (علیہ السلام) کی تباہی کا حکم دیا گیا۔ اسی وجہ سے اس کا نام طاغیہ رکھا گیا۔
Top