Al-Qurtubi - Al-Haaqqa : 6
وَ اَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَةٍۙ
وَاَمَّا عَادٌ : اور رہے عاد فَاُهْلِكُوْا : پس وہ ہلاک کیے گئے بِرِيْحٍ : ساتھ ایک ہوا کے صَرْصَرٍ : پالے والی۔ تند عَاتِيَةٍ : سرکش ۔ حد سے نکلنے والی
رہے عاد تو ان کا نہایت تیز آندھی سے ستیاناس کردیا گیا .
واما عادفا ھلکوا بریح صر صر، صر صر یعنی ٹھنڈی جو اپنی ٹھنڈک کے ساتھ جلا دیتی ہے جس طرح آگ جلابی ہے، یہ صر سے ماخوذ ہے، یہ ضحاک کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد سخت آواز ہے۔ مجاہد نے کہا، سخت زہریلی، عاتیۃ۔ وہ اپنے خازنوں پر سرکش ہوگئی اور اس نے ان کی اطاعت نہ کی اور اس ہوا کے تیز چلنے کی وجہ سے اس پر قابو نہ رکھ سکے۔ وہ ہود اللہ تعالیٰ کے غضب کی وجہ سے غضب ناک ہوئی۔ غاتیۃ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ قوم عاد پر سرکش ہوگئی اور ان پر غالب آگئی۔ سفیان ثوری نے موسیٰ بن مسیب سے وہ شہر بن حو شب وہ حضرت ابن عباس سے روایت نقل کرتے ہیں (2) کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” اللہ تعالیٰ ہوا کا جھونکا نہیں بھیجتا مگر ایک پیمانہ سے اور پانی کا قطرہ نہیں بھیجتا مگر اندازہ سے مگر قوم عاد اور قوم نوح کے دن کیونکہ پانی حضرت نوح (علیہ السلام) کے دن خازنوں پر سرکش ہوگیا خازنوں کو اس پر گرفت کی کوئی صورت نہ رہی ‘ پھر اس آیت کی تلاوت کی انا لما طغا المآء حملنکم فی الجاریۃ۔ (الحاقتہ) اور ہوا جب قوم عاد کا دن آیا تو وہ اپنے خازنوں پر سرکش ہوگئی تو ان خازنوں کو ہوا پر کوئی غلبہ نہ رہا “ پھر اس آیت بریح صر صرعاتیۃ کی تلاوت کی سخرھا علیھم اللہ تعالیٰ نے اسے بھیجا اور اسے ان پر مسلط کیا (3) تسخیر کا معنی ہے کسی شی سے قدرت کے ساتھ کام لینا۔ سبع لیال وثمنیۃ ایام حسوماً پے در پے ان میں کوئی اقنطاع نہیں، یہ حضرت ابن عباس اور حضرت ابن مسعود وغیرہ سے مروی ہے۔ فراء نے کہا، حسوم سے مراد پے در پے کسی عمل کو کرنا ہے (4) یہ حسم الداء سے مشتق ہے جب مریض کو کا ویہ سے پے در پے داغا جائے۔ عبدالعزیز بن زرارہ نے کہا : ففرق بینھم زمان تتابع فیہ اعوام حسوم (٭) مبرد نے کہا : یہ تیرے قول حسمت الشیئی سے ماخوذ ہے جب تو اسے کاٹے اور دوسرے حصے سے جدا کرے۔ اور ایک قول یہ ہے : حسم سے مراد استصال ہے اور تلوار کو حسام کا جاتا ہے کیونکہ یہ دشمنی کو دشمنی کی شدت کی وجہ سے وہاں سے کاٹ دیتی ہے جہاں سے دشمن چاہے۔ شاعر نے کہا : حسام اذا قمت معتضدا بہ کفی العود منہ البدء لیس بمعضد وہ ایسی تلوار ہے جو میں اسے بغل میں لے کر کھڑا ہوتا ہوں تو اسی کا پہلا وار دوسرے کو کافی ہوجاتا ہے یہ درانتی نہیں۔ اس کا معنی ہے ہوا نے انہیں کاٹ کر رکھ دیا اور انہیں تباہ و برباد کردیا۔ یہ جڑ سے اکھاڑ دینے والے عذاب کے ساتھ قطع کرنے والی ہے۔ ابن زید نے کہا، ہوا نے انہیں ہلاک کردیا ان میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا (1) ان سے یہ بھی مروی ہے : ہوا راتوں اور دنوں میں پے در پے آئی یہاں تک کہ انہیں ہر طرف سے گھیر لیا (2) کیونکہ پہلے دن یہ ہوا سورج کے طلوع ہونے کے قوت شروع ہوئی اور آخری دن سورج کے غروب ہونے کے وقت ختم ہوئی۔ لیث نے کہا : حسوم سے مراد نحوست ہے یہ جملہ بولا جاتا ہے : یہ نحوست کی راتیں ہیں، یعنی بھلائی کو ان کے اہل سے ختم کرنے والیاں ہیں، صحاح میں یہ قول کیا ہے۔ عکرمہ اور ربیع بن انس نے کہا، مراد ناحواست والے (3) ، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے، فی ایام نحسات (فصلت : 16) عطیہ عوفی نے کہا : خسوماً سے مراد ہے جنہوں نے بھلائی کو ان کے اہل سے ختم کردیا (4) اس کے پہلے دن کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اتوار کی صبح یہ سدی کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جمعہ کے دن کی صبح، یہ ربیع بن انس کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : بدھ کی صبح، یہی یحییٰ بن سلام اور وہب بن مبنہ نے کہا : وہب نے کہا : وہ دن جنہیں عرب ایام عجوز کہتے ہیں وہ ٹھنڈے اور شدید ہوا والے تھے۔ اس کا پہلا دن بدھ تھا اور آخری دن بھی بدھ تھا۔ انہیں ایک بوڑھی کی طرف منسوب کیا گیا کیونکہ قوم عاد کی ایک بوڑھی درندے کی ایک بل میں داخل ہوئی، ہوا نے اس کا پیچھا کیا اور آٹھویں دن اس کو قتل کردیا۔ ایک قول یہ کیا یا ہے : انہیں ایام عجوز اس لئے کہتے ہیں کیو کہ یہ موسم سرما کے آخر میں واقع ہوئے۔ سریانیوں کے زبان میں یہ آزار (مارچ) کے مہینہ میں ہوا ہے۔ حسوماً حال میں ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ مفعول مطلق ہونے کی حیثیت سے مصنوب ہے۔ زجاج نے کہا : تحسسمھم حسوما انہیں فنا کر دے گی۔ یہ معفول مطلق ہے تاکید کے لئے ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ مفعول لہ ہو یعنی ان کی جڑ ختم کرنے کے لئے ہوا کو اتنی مدت ان پر مسلط کیا۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ حاسم کی جمع ہو۔ سدی نے حصوماً پڑھا ہے۔ یہ ریح سے حال ہے یعنی ہوا کو ان پر مسلط کیا۔ اس حال میں کہ وہ ان کی جڑ ختم کرنے والی تھی۔ فتری القوم فیھا ما ضمیر سے مراد راتیں اور دن ہیں (1) صرعیٰ یہ صریع کی جمع ہے یعنی مردہ ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ھا ضمیر سے مراد ہوا ہے کا نھم اعجاز نخل خاویۃ۔ اعجاز کا معنی تنے ہیں۔ خاویۃ بوسیدہ، یہ ابو طفیل کا قول ہے (2) ایک قول یہ کیا گیا ہے : اندر سے خالی، ان میں کچھ بھی نہ تھا۔ نخل مذکر اور مونث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اور موقع پر فرمایا : کا نھم اعجاز نخل منقعر۔ (القمر) یہ احتمال موجود ہے کہ انہیں ایسی کھجوروں سے تشبیہ دی گئی جو اپنی جڑ سے اکھیڑ کر پھینک دی گئیں۔ یہ اس امر کی خبر ہے کہ ان کو ختم کرنا بڑا عظمی امر تھا۔ یہ بھی احتمال ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد جڑیں ہوں تنے نہ ہوں یعنی ہوا نے انہیں کاٹ کر رکھ دیا یہاں تک کہ وہ یوں ہوگئے جس طرح کھجور کی ایسی جڑیں ہوں جو اندر سے کھوکھلی ہوچکی تھیں۔ ہوا ان کے مونہوں میں داخل ہوتی اور ان کے پیٹوں میں جو انتڑیاں وغیرہ تھیں، ان کو باہر نکال دیتی تو وہ اس کھجور کی طرح ہوگئے جو اندر سے کھوکھلی تھی (3) یحییٰ بن سلام نے کہا، خاویہ کہا کیوں کہ ان کے بدن روحوں سے خالی ہوگئے تھے جس طرح کھوکھلا تنا ہوتا ہے (4) یہ بھی احتمال ہے کہ معنی ہو گویا کھجور کے ایسے تنے ہیں جو اپنی جڑوں سے خالی ہوچکے تھے جو زمین میں گڑھی ہوتی ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے کا فرمان ہے، فتلک بیوتھم خاویۃ (النمل : 52) یعنی وہ کھنڈر ہے ان میں کوئی رہائشی نہیں۔ خاویہ کا معنی بوسیدہ بھی ہو سکتا ہے جس طرح ہم نے ذکر کیا کیونکہ جب وہ بوسیدہ ہوجاتا ہے تو اس کا پیٹ خالی ہوجاتا ہے۔ جب وہ ہلاک کئے جا چکے تو انہیں کھجور کے کھوکھلے تنوں کے ساتھ تشبیہ دی۔
Top