Ruh-ul-Quran - Al-Haaqqa : 6
وَ اَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَةٍۙ
وَاَمَّا عَادٌ : اور رہے عاد فَاُهْلِكُوْا : پس وہ ہلاک کیے گئے بِرِيْحٍ : ساتھ ایک ہوا کے صَرْصَرٍ : پالے والی۔ تند عَاتِيَةٍ : سرکش ۔ حد سے نکلنے والی
رہے عاد، تو وہ ایک بڑی شدید طوفانی آندھی سے تباہ کردیئے گئے۔
وَاَمَّا عَادٌ فَاُھْلِکُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَۃٍ ۔ سَخَّرَھَا عَلَیْہِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَۃَ اَیَّـامٍ لا حُسُوْمًا لا فَتَرَی الْقَوْمَ فِیْھَا صَرْعٰی لا کَاَنَّھُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَۃ۔ فَھَلْ تَرٰی لَھُمْ مِنْ م بَاقِیَۃٍ ۔ (الحآقۃ : 6 تا 8) (رہے عاد، تو وہ ایک بڑی شدید طوفانی آندھی سے تباہ کردیئے گئے۔ اس کو اللہ نے سات رات اور آٹھ دن ان کی بیخ کنی کے لیے ان پر مسلط رکھا، تم دیکھتے کہ وہ وہاں اس طرح بچھاڑے پڑے ہیں جیسے وہ کھجور کے بوسیدہ تنے ہوں۔ تو کیا تم دیکھتے ہو ان میں سے کوئی بچ رہنے والا۔ ) مشکل الفاظ کی تشریح : رِیْحٍ صَرْصَرٍ … اس سخت ہوا کو کہا جاتا ہے جو بہت زیادہ سرد بھی ہو۔ اردو زبان میں جسے بادصرصر بولتے ہیں۔ اس کی تیزی اور ٹھنڈک کو اقبال نے شمشیر کی تیزی قرار دیا ہے۔ حُسُوْمًا … حاسم کی جمع ہے۔ استیصال کردینے والی اور فنا کردینے والی چیز کو کہتے ہیں۔ قومِ عاد کا انجام اور عَاتِیَۃٍ کا مفہوم اس آیت کریمہ میں قوم عاد کے انجام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جرم ان کا یہی تھا کہ انھوں نے قیامت کا انکار کیا اور جب جوابدہی کا اندیشہ جاتا رہا تو پھر کسی رسول کو ماننے اور کسی کتاب کو تسلیم کرنے کا کیا سوال پیدا ہوسکتا تھا۔ نتیجہ کے طور پر زندگی ہر اخلاقی قدر سے تہی دامن ہوگئی۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا۔ ان پر سرما کی تیز و تند باد صرصر چلی اور اس نے ان کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ یہاں بادصرصر کی صفت کے طور پر عاتیہ کا لفظ آیا ہے جس کے معنی ہیں وہ ہوا جو سرکش اور بےقابو ہوجائے جسے ہم طوفانی ہوا کہتے ہیں۔ پھر اس پر مزید اللہ تعالیٰ کا غضب یہ ہوا کہ آٹھ دن اور سات راتیں یہ عذاب ان پر مسلط رہا۔ بعض روایات میں ہے کہ بدھ کی صبح سے یہ آندھی کا عذاب شروع ہو کر دوسرے بدھ کی شام تک رہا۔ اس طرح دن تو آٹھ ہوگئے اور راتیں سات ہوئیں۔ اور یہ ہَوائیں اس لیے ان پر مسلط کی گئی تھیں تاکہ ان کا استیصال کردیں، یعنی ان کو جڑ پیڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آٹھ دنوں میں ہر چیز تباہ ہوگئی۔ ثمود قوم کا کوئی فرد زندہ نہ بچا، عمارتیں زمین بوس کردی گئیں اور ان کی لاشیں زمین پر اس طرح پچھاڑی ہوئی پڑی تھیں جیسے وہ کھجوروں کے کھوکھلے تنے ہوں جو ہوا کے زور سے ادھر ادھر لڑھکتے پھر رہے ہوں۔ تیسری آیت میں مخاطب کی چشم تصور کے سامنے یہ پورا منظر لا کر یہ سوال کیا گیا ہے کہ کیا تمہیں ان میں سے کوئی شخص باقی بچا نظر آتا ہے۔ یعنی وہ لوگ جو اپنے دور کے سب سے ترقی یافتہ، سب سے زیادہ وسائل پر قابض اور سب سے زیادہ طاقتور قوم سمجھے جاتے تھے۔ اور ثروت و حشمت میں کوئی قوم ان کی ہمسر نہ تھی۔ جب وہ قیامت کے انکار کے باعث اخلاقی بگاڑ کی انتہا کو پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوڑا ایسا ان پر برسا کہ ان کی قوت اور حشمت ان کے کسی کام نہ آئی اور وہ تاریخ میں عبرت کا سامان ہو کے رہ گئے۔
Top