Fi-Zilal-al-Quran - Hud : 80
قَالَ لَوْ اَنَّ لِیْ بِكُمْ قُوَّةً اَوْ اٰوِیْۤ اِلٰى رُكْنٍ شَدِیْدٍ
قَالَ : اس نے کہا لَوْ اَنَّ : کاش کہ لِيْ : میرے لیے (میرا) بِكُمْ : تم پر قُوَّةً : کوئی زور اَوْ اٰوِيْٓ : یا میں پناہ لیتا اِلٰي : طرف رُكْنٍ شَدِيْدٍ : مضبوط پایہ
لوط (علیہ السلام) کاش میرے پاس اتنی طاقت ہوتی کہ تمہیں سیدھا کردیتا ، یا کوئی مضبوط سہارا ہی ہوتا کہ اس کی پناہ لیتا
جب حضرت لوط (علیہ السلام) یہ کلمات کہہ رہے تھے تو روئے سخن ان نوجوانوں کی طرف تھا۔ یعنی فرشتوں کی طرف جو خوبصورت نوجوانوں کی شکل میں موجود تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی نظر میں یہ نوجوان اس قدر مضبوط نہ تھے کہ اپنا دفاع کرسکیں۔ چناچہ حضرت لوط (علیہ السلام) یہ اشارہ دینا چاہتے تھے کہ اگر تم لوگ مضبوط ہوتے تو بھی ان ظالموں کا مقابلہ کیا جا سکتا تھا یا یہ کہ اور کوئی ان کا حامی و مدد گار ہوتا تو وہ اس کی مدد اور معاونت طلب کرلیتے لیکن کوئی نہیں ہے۔ حضرت لوط جن مشکلات سے دو چار تھے اور جس پریشانی میں مبتلا تھے۔ اس میں ان کی نظروں سے وقتی طور پر یہ حقیقت اوجھل ہوگئی کہ وہ تو ایک مضبوط سہارے کی پناہ میں ہیں۔ حضور ﷺ نے جب یہ آیت پڑھی ، ایک حدیث میں فرمایا ، “ اللہ حضرت لوط (علیہ السلام) پر رحم فرمائے وہ تو اس وقت بھی ایک مضبوط سارے کی پناہ میں تھے۔ ” غرض جب حضرت نوح (علیہ السلام) کی پریشانی انتہاؤں کو چھونے لگی اور مصیبت کا دائرہ ان پر تنگ ہوگیا ، تو اس وقت اللہ کے رسولوں نے اپنا تعارف کرا دیا اور بتا دیا کہ وہ تو ایک نہایت ہی مضبوط سہارے کی پناہ میں ہیں۔ خدائی قوت آپ کی پشت پر ہے۔
Top