Maarif-ul-Quran - Hud : 80
قَالَ لَوْ اَنَّ لِیْ بِكُمْ قُوَّةً اَوْ اٰوِیْۤ اِلٰى رُكْنٍ شَدِیْدٍ
قَالَ : اس نے کہا لَوْ اَنَّ : کاش کہ لِيْ : میرے لیے (میرا) بِكُمْ : تم پر قُوَّةً : کوئی زور اَوْ اٰوِيْٓ : یا میں پناہ لیتا اِلٰي : طرف رُكْنٍ شَدِيْدٍ : مضبوط پایہ
کہنے لگا کاش مجھ کو تمہارے مقابلہ میں زور ہوتا یا جا بیٹھتا کسی مستحکم پناہ میں
اس وقت ہر طرح سے عاجز ہو کر لوط ؑ کی زبان پر یہ کلمہ آیا (آیت) لَوْ اَنَّ لِيْ بِكُمْ قُوَّةً اَوْ اٰوِيْٓ اِلٰي رُكْنٍ شَدِيْدٍ ، یعنی کاش مجھ میں اتنی قوت ہوتی کہ میں میں اس پوری قوم کا خود مقابلہ کرسکتا یا پھر کوئی جتھہ اور جماعت ہوتی جو مجھے ان ظالموں کے ہاتھ سے نجات دلاتی۔
فرشتوں نے حضرت لوط ؑ کا یہ اضطراب دیکھ کر بات کھول دی اور کہا کہ گھبرائیے نہیں آپ کی جماعت بڑی قوی اور مضبوط ہے، ہم اللہ کے فر شتے ہیں ان کے قابو میں آنے والے نہیں ان پر عذاب واقع کرنے کے لئے آئے ہیں۔
صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق فرمایا کہ اللہ تعالیٰ لوط پر رحم فرماویں وہ کسی مضبوط جماعت کی پناہ لینے پر مجبور ہوگئے، اور ترمذی میں اس کے ساتھ یہ جملہ بھی ہے کہ حضرت لوط ؑ کے بعد اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس کا کنبہ قبیلہ اس کا حمایتی نہ ہو (قرطبی) خود رسول کریم ﷺ کے متعلق کفار قریش نے ہزار طرح کی تدبیریں کیں لیکن آپ کے پورے خاندان نے آپ کی حمایت کی، اگرچہ مذہب میں وہ سب آپ کے موافق نہ تھے، اسی وجہ سے پورے بنی ہاشم اس مقاطعہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک رہے جس میں کفار قریش نے ان پر دانا پانی بند کردیا تھا۔
حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ اس واقعہ میں جب قوم لوط ان کے گھر پر چڑھ آئی تو لوط ؑ نے اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا تھا اور یہ گفتگو اس شریر قوم سے پس پردہ ہو رہی تھی فرشتے بھی مکان کے اندر تھے ان لوگوں نے دیوار پھاند کر اندر گھسنے کا اور دروازہ توڑنے کا ارادہ کیا اس پر حضرت لوط ؑ کی زبان پر یہ کلمات آئے، جب فرشتوں نے حضرت لوط ؑ کا یہ اضطراب دیکھا تو حقیقت کھول دی اور کہہ دیا کہ آپ دروازہ کھول دیں، اب ہم ان کو عذاب کا مزہ چکھاتے ہیں، دروازہ کھولا تو جبرئیل امین نے اپنے پَر کا اشارہ ان کی آنکھوں کی طرف کیا جس سے سب اندھے ہوگئے اور بھاگنے لگے۔
Top