Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 54
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤ١ۙ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ١٘ یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآئِمٍ١ؕ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) مَنْ : جو يَّرْتَدَّ : پھرے گا مِنْكُمْ : تم سے عَنْ : سے دِيْنِهٖ : اپنا دین فَسَوْفَ : تو عنقریب يَاْتِي اللّٰهُ : لائے گا اللہ بِقَوْمٍ : ایسی قوم يُّحِبُّهُمْ : وہ انہیں محبوب رکھتا ہے وَيُحِبُّوْنَهٗٓ : اور وہ اسے محبوب رکھتے ہیں اَذِلَّةٍ : نرم دل عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) اَعِزَّةٍ : زبردست عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) يُجَاهِدُوْنَ : جہاد کرتے ہیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَ : اور لَا يَخَافُوْنَ : نہیں ڈرتے لَوْمَة : ملامت لَآئِمٍ : کوئی ملامت کرنیوالا ذٰلِكَ : یہ فَضْلُ : فضل اللّٰهِ : اللہ يُؤْتِيْهِ : وہ دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : علم والا
اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ‘ اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے ۔ (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے ‘ جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے ۔ یہ اللہ کا فضل ہے ‘ جسے چاہے عطا کرتا ہے ۔ اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے ۔
(آیت) ” نمبر 54 تا 56۔ اس صورت میں اور اس مقام پر مسلمانوں کو یہ تنبیہ کرنا کہ وہ مرتد نہ ہوجائیں ‘ اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ ارتداد اور یہود ونصاری کے ساتھ دوستی اور تعلق موالات کے درمیان گہرا ربط ہے۔ خصوصا اس ریمارک کے بعد کہ جو شخص ان کے ساتھ محبت وموالات کا تعلق قائم کرے گا وہ انہیں میں شمار ہوگا ۔ وہ جماعت مسلمہ سے خارج تصور ہوگا اور ان کافر اور آدمی ہوگا ۔ (آیت) ’ ومن یتولھم منکم فانہ منھم) (تم میں سے جو ان کے ساتھ موالات کرے گا وہ ان میں سے ہوگا) اس مفہوم کی رو سے یہ دوسری پکار پہلی ہی تاکید وتائید ہوگی اور اس پکار کے بعد جو تیسری پکار آرہی ہے وہ بھی اس مفہوم پر دلالت کرتی ہے کیونکہ وہاں اہل کتاب اور کفار دونوں کے ساتھ تعلق موالات کی ممانعت کا ذکر ہے اور ان کو ایک صف میں کھڑا کردیا گیا ہے کہ اہل کتاب اور کفار کے ساتھ موالات کا درجہ ایک ہی ہے اور یہ کہ اسلام میں اہل کتاب اور دوسرے کفار کے ساتھ بعض تعلقات میں جو فرق کیا گیا ہے وہ ہدایات تعلق موالات پر لاگو نہیں ہیں ان میں موالات شامل نہیں ہے ۔ (آیت) ” یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ مَن یَرْتَدَّ مِنکُمْ عَن دِیْنِہِ فَسَوْفَ یَأْتِیْ اللّہُ بِقَوْمٍ یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّونَہُ أَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ أَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ یُجَاہِدُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَلاَ یَخَافُونَ لَوْمَۃَ لآئِمٍ ذَلِکَ فَضْلُ اللّہِ یُؤْتِیْہِ مَن یَشَاء ُ وَاللّہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(54) ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ‘ اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے ۔ (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے ‘ جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے ۔ یہ اللہ کا فضل ہے ‘ جسے چاہے عطا کرتا ہے ۔ اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے ۔ کسی ایک گروہ اور جماعت کو اللہ کے کام پر لگانا اللہ کی منشا کو پورا کرنا ہے ۔ اگر ایسا گروہ اس کرہ ارض پر اللہ کے دین کی اقامت کے لئے دست قدرت کا آلہ کار ہو ‘ اور اور اس کے ذریعے دنیا میں عوام الناس پر اللہ کی حکومت قائم ہو ‘ ان کی زندگی میں اللہ کے احکام وہدایت نافذ ہوں ‘ انہی کے مطابق ان کی انتظامیہ ہو ‘ ان کی عدالتوں میں اسلامی شریعت نافذ ہو اور بھلائی ‘ خیر ‘ پاکیزگی اور ترقی کا دور دورہ ہو اور یہ اسلامی نظام کی وجہ سے دنیا کو حاصل ہو تو اس گروہ کا اس کام کے منتخب ہونا اور کیا جانا ہی اللہ تعالیٰ کا عظیم فضل وکرم ہے ۔ اب اگر کوئی اپنے آپ کو اللہ کے اس فضل وکرم سے محروم کرتا ہے تو یہ اس کی اپنی بدبختی ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ غنی بادشاہ ہے اور ان محروم ہونے والوں کے علاوہ بھی اللہ کے علم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس فضل وکرم کے مستحق ہیں ۔ یہاں اللہ تعالیٰ ان مختاران الہی کی جو تصویر کشی فرماتے ہیں اس کے خدوخال نہایت ہی واضح ہیں اور ان کی صفات کا ذکر بھی نہایت ہی واضح طور پر کردیا گیا ہے ۔ یہ تصویر نہایت ہی روشن اور پرکشش ہے ۔ (آیت) ” فسوف یاتی اللہ بقوم یحبونہ “۔ (5 : 54) ” اللہ بہت سے لوگ پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا “۔ یعنی ان کے اور ان کے رب کے درمیان رابطہ اور تعلق محبت کے متبادل تحفے ہوں گے ۔ محبت کیا ہے ؟ ایک روح ہے جو نہایت ہی لطیف ‘ روشن ‘ پر رونق اور نہایت ہی ہشاش وبشاش روح ہے ۔ جو اس قوم اور اللہ تعالیٰ کے درمیان رابطے کا کام دیتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ محبت کرتا ہے ۔ یہ ایک ایسا امر ہے جس کی قدروقیمت کا ادراک صرف اس شخص کو ہو سکتا ہے جس کو معرفت ربانی حاصل ہو اور انہیں صفات سے متصف ہو جو اللہ نے خود بیان کی ہیں ۔ نیز صرف وہی شخص اس کا تصور کرسکتا ہے جس کے حس ‘ شعور اور نفس وشخصیت پر ان صفات کا پر تو پڑا ہو۔ یہ فضل وکرم اسی شخص کے ادراک میں آسکتا ہے جو اس داتا کی حقیقت سے واقف ہو ‘ جو جانتا ہو کہ اللہ کون ہے ؟ اس عظیم کائنات کا مالک اور صانع کون ہے ؟ اور اس کائنات میں اس چھوٹے سے کیڑے انسان کا بھی وہ خالق ہے جو نہایت اونچی عظمتوں والے کے اقتدار میں ہے اور وہ اس کی خدمت میں ہے جو خالص اسی کا ہے اور اس کی بادشادہی میں ہے ۔ اور وہ ذات کون ہے اور یہ انسان کیا ہے جس پر ذات فضل وکرم کر رہی ہے ۔ اس کے ساتھ محبت کر رہی ہے حالانکہ انسان خود اس کا بنایا ہوا ہے ۔ وہ پاک ہے ‘ جلیل القدر ‘ عظیم المرتبہ ‘ الحی ‘ الدائم ‘ الارفیع ‘ الابدی ‘ الاول ‘ الاخر اور الظاہر والباطن ہے ۔ کسی بندے کا اپنے اللہ کے ساتھ محبت کرنا اس بندے کے لئے ایک نعمت ہے اور اس کی صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس کو اس کا ذوق ہو اور اللہ کی جانب سے کسی بند کے ساتھ محبت کرنا تو ایک عظیم بات ہے اور یقینا عظیم اور بھرپور اور فضل جزیل ہے ۔ اسی طرح اللہ کا اپنے بندوں کو ہدایت دینا ‘ ان کی تعریف کرنا بھی ایک بہت بڑا اعزاز ہے ۔ ان کے اندر اس ذوق جمیل کا پیدا ہونا اور ایک ایسا ذوق محبت پیدا ہونا جس کی دنیا کی محبتوں میں کوئی نظیر نہ ہو ‘ تو یہ بھی ایک عظیم وانعام واکرام ہے اور ایک عظیم فضل وکرم ہے ۔ جس طرح اللہ کی جانب سے بندے کے ساتھ محبت ناقابل بیان ہے اسی طرح بندے کی جانب سے اللہ کے ساتھ محبت بھی ناقابل بیان ہے ۔ دنیا کے محبت کرنے والوں کے کلام میں اور عبادات میں اس کا اظہار ممکن نہیں ہے ۔ اور یہ وہ شعبہ ہے جس میں صوفیا میں سے واصل باللہ لوگ ہی برتری کے حامل ہیں ۔ لیکن صوفیوں کے لباس میں ‘ نام نہاد صوفیوں کی جو فوجیں پھرتی نظر آتی ہیں اور عوام کے درمیان معروف ہیں ان میں ایسے واصل باللہ بہت ہی کم نظر آئیں گے ۔ اس سلسلے میں رابعہ عدویہ کے کچھ اشعار میرے ذہن کی اسکرین پر آتے ہیں ۔ وہ کہتی ہیں : فلیتک تحلوا والحیاۃ مریرۃ ولیتک ترضی والانام غضاب (اے کاش کہ آپ میٹھے ہوں اور زندگی کڑوی ہو اور اے کاش کہ آپ راضی ہوں اور تمام لوگ مجھ پر غضبناک ہوں) ولیست الذی بینی وبینک عامر وبینی وبین العلمین خراب : (اے کاش کہ میرے اور آپ کے درمیان ہے وہ بستا رہے اور میرے اور لوگوں کے درمیان جو ہے وہ خراب ہو) یعنی تعلق ورابطہ ۔ اذا صح منک الحب فالکل ھین وکل الذی فوق التراب تراب : (اگر آپ کی جانب سے محبت درست ہوجائے تو پھر سب کچھ آسان اور حقیقت یہ ہے کہ اس مٹی کے اوپر جو مخلوق بھی چلتی پھرتی ہے وہ مٹی ہی ہے) اللہ جل شانہ کی طرف سے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کے ساتھ یوں اظہار محبت اور ایک عاجز بندے کی طرف سے اللہ کے ساتھ اظہار محبت جو منعم حقیقی ہے اور جو حقیقی فضل کرنے والا ہے ایک انعام ہے ۔ یہ محبت اس پوری کائنات میں پھیل جاتی ہے اور یہ محبت بھی ہر زندہ چیز کا مزاج بن جاتی ہے ہے پھر ایک فضا ہوتی ہے اور ایک سایہ ہوتا ہے جو اس پورے وجود کائنات پر چھا جاتا ہے اور انسان جو محبت بھی ہے اور محبوب بھی ‘ اس کی زندگی کا پیمانہ تو اس محبت سے پوری طرح بھر جاتا ہے ۔ اسلامی تصور حیات ایک مومن اور اس کے رب کے درمیان اس طرح کا محبوب رابطہ قائم کرتا ہے جو نہایت ہی عجیب اور نہایت ہی پیارا ہوتا ہے ۔ یہ دائمی محبت کا رابطہ ایسا نہیں ہوتا کہ اچانک قائم ہوجائے یا ایک چمک پیدا ہو اور چلی جائے ۔ یہ اسلامی تصور حیات میں ایک بنیادی اور حقیقی عنصر ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ (آیت) ” ان الذین وعملوا الصلحت سیجعل لھم الرحمن ودا) ” وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے لئے رحمن محبت کرنے والا ہے) اور دوسری جگہ ہے ۔ (آیت) ” ان ربی رحیم ودود “۔ ” بیشک میرا رب رحم کرنے والا اور محبت کرنے والا ہے ) اور دوسری جگہ ہے ۔ (آیت) ” واذا سئلک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان) ” اور جب تم سے میرے بندے ‘ میرے بارے میں پوچھیں و بیشک میں قریب ہوں میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں ‘ جب وہ پکارتا ہے ۔ “ (آیت) ” والذین امنوا اشد حب اللہ) ” اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اللہ کے ساتھ شدید محبت رکھتے ہیں ۔ “ اور دوسری جگہ ہے ۔ (آیت) ” قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ‘ ” کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کرو ‘ تم سے اللہ محبت کرے گا) وغیرہ وغیرہ بیشمار ایسی آیات ہیں جو اس مضمون کا ظاہر کرتی ہیں۔ ان لوگوں پر تعجب ہے کہ وہ اس مضمون کی آیا پڑھتے ہیں اور پھر بھی کہتے ہیں کہ اسلامی تصور حیات ایک خشک سخت اور کرخت تصور ہے اور اس میں خدا بندے کے درمیان تعلق قہر وغضب سزا گوشمالی اور سختی اور دوری کا تعلق ہے ۔ اس میں کوئی ایسا تصور نہیں جس طرح مسیحی تصور میں مسیح کو اقانیم الوہیت میں سے ایک اقنوم تصور کیا جاتا ہے ۔ اور لوگوں میں اور اللہ میں ایک گہرا ربط بلکہ من تو شدم تو من شدی کا تصور پیدا ہوتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تصور حیات کی صفائی اور اس میں حقیقت الوہیت اور مقام بندگی کے اندر مکمل فرق و امتیاز کرنے کی وجہ سے ‘ الفت و محبت کی پرنم فضا میں کوئی کمی نہیں آتی ۔ اللہ اور بندے کے درمیان اس تصور میں نہایت ہی گہرا ربط موجود ہے لیکن یہ ربط وتعلق رحمت اور عدل کا تعلق ہے ۔ اس تعلق کا ایک رخ باہم محبت ہے تو دوسرا رخ مکمل پاکیزگی کا ہے ۔ ایک طرف محبت ہے اور دوسری جانب اللہ کی ذات کے لئے پاکیزگی ہے یہ نہایت ہی جامع اور مانع تصور ہے ۔ اور اس سے وہ تمام بشری تقاضے پورے ہوتے ہیں جو اپنے رب کے حوالے سے انسان کو درکار ہیں۔ چناچہ اس ” مومن رجمنٹ “ کی صفت سے متعلق ‘ جسے اس دین کے لئے اٹھایا گیا ہے اس آیت میں یہ الفاظ آتے ہیں اور بار بار ذہن میں پھرتے ہیں۔ (آیت) ” یحبھم ویحبونہ “۔ (وہ اللہ سے محبت کرتا اور اللہ اس سے محبت کرتے ہیں) اس فضائے محبت میں جب یہ رجمنٹ اپنے عظیم فرائض کی ادائیگی کے لئے نکلتی ہے اور یہ بوجھ اٹھاتی ہے تو اس کے دل میں یہ شعور ہوتا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے اس خصوصی خدمت کے لئے بھرتی کیا ہے اور وہ اللہ جل شانہ کی خصوصی رجمنٹ ہے ۔ اس کے بعد اس رجمنٹ کی باقی خصوصیات بیان کی جاتی ہیں ۔ (آیت) ” اذلۃ علی المومنین “۔ (5 : 54) (مومنوں پر نرم ہوں گے) یہ ایک ایسی صفت ہے جو اطاعت ‘ نرمی اور یسر سے لی گئی ہے اور لفظ یہ استعمال کیا ہے کہ وہ مومنین کے مقابلے میں اپنے آپ کو ذلیل کر کے رکھیں گے ۔ لیکن اگر کوئی مومنین کے مقابلے میں اپنے نفس کو ذلیل کرتا ہے تو وہ ذلت نہیں ہے اور نہ اس میں توہین کا پہلو ہے اس لئے کہ ایک مومن دوسرے مومن کے مقابلے میں اپنے نفس کو ذلیل کرتا ہے تو وہ ذلت نہیں ہے اور نہ اس میں توہین کا پہلو ہے اس لئے ایک مومن دوسرے مومن کے مقابلے میں نہایت ہی نرم ہوتا ہے ‘ سخت اور نافرمان نہیں ہوتا ۔ آسان اور نرم ‘ جلدی لبیک کہنے والا ‘ روادار ‘ محبت کرنے والا ہوتا ہے ۔ اس لئے اس کے لئے اس لفظ کے استعمال میں ذلت بمعنی حقارت کا مفہوم نہیں ہے بلکہ اس سے اخوت ‘ محبت ‘ عدم تکلف ‘ نفسیاتی اتحاد اور نظریاتی لگاؤ کے معانی کا اظہار ہوتا ہے ۔ ایک مومن اور دوسرے مومن کے درمیان کوئی پردہ اور راز نہیں رہتا۔ جب انسان بعض چیزیں اپنی ذات کے لئے اٹھا رکھتا ہے تو یہ جذبہ اسے اپنے دوسرے بھائی کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ‘ بخیل اور کنجوس بنا دیتا ہے ۔ لیکن جب ایک شخص اپنے آپ کو ایک کمپنی یا رجمنٹ کا فرد بنا لیتا ہے تو وہ اپنا سب کچھ اس کے لئے قربان کردیتا ہے اور اس کی انفرادیت کا دائرہ محدود ہوجاتا ہے ۔ پھر اس کمپنی کے علاوہ وہ اپنے لئے کچھ اٹھا نہیں رکھتا جبکہ ان کی کمپنی اخوت اسلامی کی کمپنی ہوتی ہے اور وہ اللہ کے نام اور نظام پر جمع ہوئے ہیں۔ اللہ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ محبت الہی ہی ان میں مشترک ہے اور یہ اسے باہم تقسیم کرتے ہیں ۔ (آیت) ” اعزۃ علی الکفرین “۔ (5 : 54) (جو کفار پر سخت ہوں گے) یعنی کافروں کے مقابلے میں ان کے اندر برتری ‘ ناپسندیدگی اور برتری کے جذبات پائے جاتے ہیں اور چونکہ مقابلہ کفار کے ساتھ ہے اس لئے ان کے مقابلے میں ان جذبات کا ہونا مناسب ہے ۔ ان جذبات کا اظہار ان کے مقابلے میں محض ذاتی عزت کے اظہار کے لئے نہیں ہے اور نہ صرف اپنی خودی بلند کرنا مطلوب ہوتا ہے بلکہ ان کی جانب سے عزت کا اظہار اسلامی نظریہ حیات کی طرف سے عزت کا اظہار ہوگا اس جھنڈے کی برتری ہوگی جس کے نیچے اہل ایمان کھڑے ہوں گے اور اہل کفار کے مقابلے میں ہوں گے ۔ اس سے اس بات کا اظہار ہوگا کہ ان کے پاس جو کچھ ہے وہ خیر ہے اور ان کا مقام یہ ہے کہ وہ دوسروں کو اپنے ساتھ لے کر اس بھلائی کے تابع کردیں ، یہ نہیں ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ مل کر اس چیز کے تابع ہوجائیں جس کے وہ دوسرے حامل ہیں اور وہ خیر نہیں ہے ۔ اس اظہار برتری اور سختی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے اندر دین کے بارے میں خود اعتمادی ہے اور وہ ہوا وہوس کے دین پر قابو پا چکے ہیں ۔ انکے ہاں اللہ کی قوت تمام دوسری قوتوں پر غالب ہے اور اللہ کی جماعت تمام احزاب پر غالب ہے ۔ اگر وہ بعض معرکوں میں شکست بھی کھا جائیں تو پھر بھی وہ بلند عزم لئے ہوئے ہیں کیونکہ اسلامی جدوجہد کی طویل راہ میں بھی کبھی لغزش بھی تو ہو سکتی ہے ۔ (آیت) ” یجاھدون فی سبیل اللہ ولا یخافون لومۃ لائم “۔ (5 : 54) ” وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے ۔ “ یہ جہاد فی سبیل اللہ ہوگا ‘ یہ اس لئے ہوگا کہ زمین پر اسلامی نظام قائم کیا جائے ‘ یہ اس لئے ہوگا کہ لوگوں پر اللہ کی بادشاہت کا اعلان کیا جائے ‘ یہ اس لئے ہوگا کہ ملک کے اندر اسلامی شریعت کے مطابق فیصلے ہوں اور ملک کے اندر بھلائی ترقی اور اصلاح بین الناس کا دور دورہ ہو ۔ یہ ہے ایک دوسری صفت اسلامی رجمنٹ کی ۔ اور اسے اللہ تعالیٰ نے محض اس لئے قائم کیا ہے کہ وہ اس کی زمین پر وہ فریضہ سرانجام دے جو اللہ کو مطلوب ہے۔ یہ رجمنٹ فی سبیل اللہ جہاد کرے گی ‘ اپنے ذاتی مقصد کے لئے نہ کرے گی ۔ نہ اپنی قوم کے کسی مقصد کے لئے لڑے گی ‘ نہ اپنے وطنی مقاصد میں سے کسی مقصد کے لئے لڑے گی ‘ نہ اپنے وطنی مقاصد میں سے کسی مقصد کے لئے لڑے گی ‘ نہ وہ کسی نسل کے لئے کام کرے گی ۔ اس رجمنٹ کے ارکان صرف اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور یہ جہاد اسلامی نظام حیات کے قیام کے لئے ہے ‘ اللہ کی حکومت کے قیام کے لئے ہے ‘ اور اللہ کی شریعت کے نفاذ کے لیے ہے اور اس راہ میں تمام لوگوں کی بھلائی ہے ۔ اس میں ان کی ذاتی کوئی غرض نہیں ہے ‘ نہ ان کا اپنا کوئی حصہ ہے ۔ یہ گروہ صرف اللہ کے لئے ہے اور اس میں کوئی اور شریک نہیں ہے ۔ یہ رجمنٹ اللہ کے راستے میں لڑنے مرنے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کوئی لحاظ نہ رکھے گی ۔ اس کو لوگوں کا کیا خوف ہوگا اور وہ کیا پرواہ کرے گی وہ تو اللہ کی محبت میں سرشار ہوگی اور یہی محبت اس کے لئے امام ضامن ہے ۔ لوگوں کے ہاں رائج مقامات قیام پر وہ سٹاپ نہ کرے گی ۔ سوسائٹی کی اقدار اس کی نظروں میں ہیچ ہوں گی اور جاہلیت کے ہاں معروف اس کے لئے معروف نہ ہوگا ۔ وہ تو سنت الہی کی رجمنٹ ہوگی اور وہ اسلامی نظام حیات پیش کرنے والی ہوگی ۔ لوگوں کی ملامت سے تو وہ لوگ ڈرتے ہیں جو اپنی اقدار اور ہدایات لوگوں کی خواہشات کے مطابق کرنے والی ہوں گی ۔ لوگوں کی ملامت سے تو وہ لوگ ڈرتے ہیں جو اقدار اور ہدایات لوگوں کی خواہشات کے مطابق تشکیل دیتے ہیں اور جن کی قوت اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں لیکن جس جماعت کا رخ اللہ کی اقدار اور پیمانوں کی طرف ہوگا وہ تو کلمہ حق کو عوام کی اقدار اور پیمانوں پر غالب کرنے کی سعی کرے گی اور لوگوں کی خواہشات کے برعکس کام کرے گی تو وہ لوگوں سے کیا ڈرے گی ۔ جس شخص کی قوت اور اقدار کا سرچشمہ ذات باری ہو ‘ تو کیا پرواہ ہو سکتی ہے کہ لوگ کیا کہتے ہیں اور کیا کرتے ہیں ۔ وہ تو یہ سمجھے گا کہ گویا لوگ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں ۔ ان لوگوں کی صورت حالات جو ہو سو ہو ‘ ان لوگوں کی تہذیب و تمدن جو ہو سو ہو ‘ وہ اپنی راہ پر رواں دواں رہے گا ۔ ہم لوگ تو دیکھتے ہیں کہ لوگ کیا کہتے ہیں ‘ لوگ کرتے ہیں ‘ لوگوں کے پاس کیا فکر وعمل ہے ‘ لوگ کن اصطلاحات میں بات کرتے ہیں ‘ لوگوں کی عملی زندگی کیا ہے اور ان میں کیا اقدار اور پیمانے ملحوظ ہیں ۔ ہمارا یہ رویہ اس وجہ سے ہے کہ ہم نے اصل اصول کو بھلا دیا ہے جس کے مطابق ہم نے ان اعتبارات کے مقابلے میں ایک پیمانہ بنانا ہے ‘ جس کے مطابق ہم نے اپنے حساب کو درست کرنا ہے اور جس کے مطابق ہم نے آپ کو تولنا ہے ۔ اور وہ اصول ہے اسلامی نظام حیات اسلامی شریعت اور اللہ کے احکام اصل بات یہ ہے کہ یہی ہے اصول حق اور اس کے ماسوا سب باطل ہے ۔ اگرچہ یہ لاکھوں کروڑوں کے لئے معروف ومتداول ہو۔ اگرچہ کئی نسلیں اسے صدیوں تک مانتی چلی آئی ہوں ۔ کسی صورت حال ‘ کسی رواج ‘ کسی عادت یا کسی قدر کی یہ کوئی قیمت (VAlue) نہیں ہے کہ وہ موجود ہے یا وہ امر واقعہ ہے یا لاکھوں لوگ اس کے ماننے والے والے ہیں یا لاکھوں لوگ اس طرح زندگی بسر کرتے ہیں یا تمام لوگ اسے اصول حیات تسلیم کرتے ہیں ۔ اس قسم کے پیمانے کو اسلامی تصور حیات سلیم نہیں کرتے بلکہ کسی صورت حال ‘ کسی رواج ‘ کسی عادت ‘ کسی قدر کی قیمت یہ ہوگی کہ اسلامی تصور حیات میں اس کی کوئی قیمت ہے یا نہیں ہے اس لئے کہ تمام اقدار اور پیمانوں کا معیار اسلامی نظام ہے ۔ یہ وجہ ہے کہ یہ اسلامی رجمنٹ اللہ کی راہ میں جہاد کرے گی اور وہ کسی امامت کرنے والے کی ملامت سے خوف نہ کھائے گی ، یہ ہے نشانی ان مومنین کی جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس رجمنٹ میں بھرتی کیا ہوگا ۔ اور یہ بھرتی بھی اللہ کرے گا اور پھر اس رجمنٹ کے سپاہیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو بہت گہرا پیار ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ اپنے ان بہادروں کی نشانیاں بتا رہا ہے ۔ ان کے پتے بتا رہا ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ان بہادروں کے دلوں میں جو اطمینان ہوگا اور جس ثابت قدمی کے ساتھ راہ جہاد پر وہ رواں دواں ہوں گے یہ بھی اللہ کا فضل وکرم ہوگا ۔ (آیت) ” ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشآء واللہ واسع علیم “۔ (5 : 54) ” وہ جسے چاہتا ہے ذرائع دے دیتا ہے اور علم کے مطابق دیتا ہے ۔ اور اللہ کا دین بہت ہی وسیع ہے اور اس کے لئے جسے چاہتا ہے منتخب کرلیتا ہے “۔ اب اللہ تعالیٰ دھمکی کے بعد ‘ اس بات کا تعین فرماتے ہیں کہ اہل ایمان کی دوستی اور موالات کس کے ساتھ ہوگی اس کی تصریح کی جاتی ہے ۔
Top