Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Taiseer-ul-Quran - Al-Maaida : 54
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤ١ۙ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ١٘ یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآئِمٍ١ؕ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے)
مَنْ
: جو
يَّرْتَدَّ
: پھرے گا
مِنْكُمْ
: تم سے
عَنْ
: سے
دِيْنِهٖ
: اپنا دین
فَسَوْفَ
: تو عنقریب
يَاْتِي اللّٰهُ
: لائے گا اللہ
بِقَوْمٍ
: ایسی قوم
يُّحِبُّهُمْ
: وہ انہیں محبوب رکھتا ہے
وَيُحِبُّوْنَهٗٓ
: اور وہ اسے محبوب رکھتے ہیں
اَذِلَّةٍ
: نرم دل
عَلَي
: پر
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومن (جمع)
اَعِزَّةٍ
: زبردست
عَلَي
: پر
الْكٰفِرِيْنَ
: کافر (جمع)
يُجَاهِدُوْنَ
: جہاد کرتے ہیں
فِيْ
: میں
سَبِيْلِ
: راستہ
اللّٰهِ
: اللہ
وَ
: اور
لَا يَخَافُوْنَ
: نہیں ڈرتے
لَوْمَة
: ملامت
لَآئِمٍ
: کوئی ملامت کرنیوالا
ذٰلِكَ
: یہ
فَضْلُ
: فضل
اللّٰهِ
: اللہ
يُؤْتِيْهِ
: وہ دیتا ہے
مَنْ يَّشَآءُ
: جسے چاہتا ہے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
وَاسِعٌ
: وسعت والا
عَلِيْمٌ
: علم والا
اے ایمان والو ! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے) عنقریب اللہ ایسے لوگ لے آئے گا جن سے اللہ محبت رکھتا ہو اور وہ اللہ سے محبت
96
رکھتے ہوں، مومنوں کے حق میں نرم دل اور کافروں کے حق میں سخت ہوں، اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ
97
نہ ہوں۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے
98
دے دے۔ وہ بہت فراخی والا اور سب کچھ جاننے والا ہے
96
مرتدین کے متعلق پیشین گوئی :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی پیشین گوئی فرمائی ہے۔ جب رسول اللہ کی وفات ہوگئی تو اکثر قبائل عرب نے یہ سمجھا کہ اسلام کو جتنی کامیابیاں اور کامرانیاں نصیب ہوئیں۔ اس کا باعث صرف رسول اللہ کی ذات تھی جن پر وحی کے ذریعہ ہر وقت مسلمانوں کے لیے حالات کے مطابق ہدایات نازل ہوتی رہتی تھیں۔ اب چونکہ آپ انتقال کرچکے ہیں۔ لہذا اب پھر کفر کو غلبہ نصیب ہوگا۔ اس خیال سے عرب کے بہت سے قبائل اسلام سے مرتد ہوگئے اور بعض کہنے لگے کہ اب زکوٰۃ ادا کرنے کا اور اسلام کی دوسری پابندیاں سہنے کا کیا فائدہ ؟ آپ کی وفات کے فوراً بعد مسلمانوں کو انتہائی نازک اور ہنگامی حالات سے دو چار ہونا پڑا۔ ایک تو مسلمانوں کو آپ کی وفات کا سخت صدمہ تھا دوسرے اسی حالت میں بہت سے قبائل مرتد ہوگئے تھے جن سے جہاد لازمی تھا۔ تیسرے بعض قبیلوں نے زکوٰۃ کی ادائیگی سے سرے سے انکار کردیا تھا حالانکہ اس وقت جہاد کے لیے بہت زیادہ اخراجات کی ضرورت تھی۔ پھر لشکر اسامہ کی روانگی کا مسئلہ بھی تھا جسے آپ اپنی زندگی میں ترتیب دے چکے تھے۔ شامی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اس لشکر کی روانگی بھی ضروری تھی گویا مسلمان اس وقت اندرونی اور بیرونی دونوں طرح سے خطرات سے دوچار تھے اور سب سے بڑی مشکل یہ کہ فنڈز بھی موجود نہ تھے ان فتنوں میں سب سے بڑا فتنہ تھا جس کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے لہذا اس کا ذکر ہم ذرا تفصیل سے کریں گے۔ رسول اللہ کی زندگی میں چند جاہ طلب مدعیان نبوت اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ جن میں سرفہرست مسیلمہ ہے جو یمنی قبیلہ بنو حنیفہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اس قبیلہ کا ایک وفد
9
ھ کو مدینہ آیا۔ اس وفد میں مسیلمہ سمیت سترہ آدمی تھے جو آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام لائے۔ مگر مسیلمہ جو اس وفد کا سردار تھا، اپنے کبر و نخوت کی وجہ سے کچھ دور دور ہی رہا۔ وہ کہتا تھا کہ اگر محمد ﷺ اپنے بعد مجھے نبوت دینے کا وعدہ کریں تو میں ان کی پیروی کروں گا۔ آپ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ ثابت بن قیس خطیب انصار کو ساتھ لے کر مسیلمہ کے سر پر جا کھڑے ہوئے۔ مسیلمہ نے اپنی بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ اگر آپ چاتے ہیں کہ ہم حکومت کے معاملہ میں آپ کو آزاد چھوڑ دیں تو اپنے بعد اسے آپ ہمارے لیے طے فرما دیجئے۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ آپ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اگر تم مجھ سے اس معاملہ میں یہ چھڑی بھی مانگو تو میں نہیں دینے کا اور یاد رکھو تم اللہ کے فیصلے سے آگے نہیں جاسکتے اور تم نے پیٹھ پھیری تو اللہ تعالیٰ تمہیں توڑ کے رکھ دے گا۔ اور اللہ کی قسم ! میں تو تجھے وہی آدمی سمجھتا ہوں جو مجھے خواب میں دکھلیا گیا ہے۔ پھر آپ سمجھانے کا معاملہ قیس بن ثابت کے سپرد کر کے خود واپس چلے آئے (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب وفد بنی حنیفۃ و حدیث ثمامۃ بن اثال خ سب سے پہلے مرتدین مسیلمہ کذاب اور اس کی امت :۔ واپس جا کر مسیلمہ اس معاملہ پر غور کرتا رہا۔ بالآخر اس نے خود نبوت کا دعویٰ کردیا اور کہا کہ مجھے کاروبار نبوت میں رسول اللہ کے ساتھ شریک کیا گیا ہے اس نے اپنی قوم کے لیے زنا اور شراب کو حلال کردیا تاہم آپ کی رسالت کی شہادت بھی دیتا رہا یعنی اس نے بھی ظلی نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ ان مراعات سے قوم میں اس کی خوب قدر و منزلت ہوئی اور اسے یمامہ کا رحمان کہا جانے لگا۔ پھر رسول اللہ کو ایک خط لکھا کہ مجھے آپ کے ساتھ اس کام میں شریک کردیا گیا ہے آدھی حکومت ہمارے لیے ہے اور آدھی قریش کے لیے۔ آپ نے اسے جواب لکھا کہ زمین اللہ کے لیے ہے جسے چاہتا ہے اسے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور انجام متقین کے لیے ہے۔ پھر مسیلمہ نے آپ کی طرف دو قاصد ابن نواحہ اور ابن اثال بھی بھیجے تھے۔ آپ نے ان سے دریافت فرمایا تھا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ وہ کہنے لگے ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔ آپ نے فرمایا میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا۔ اگر قاصد کو قتل کرنا جائز ہوتا تو میں تم دونوں کو قتل کردیتا۔ (مسند احمد۔ بحوالہ مشکوٰۃ ج
2
ص
347
) یہی مسیلمہ اور اس کو ماننے والوں کی سب سے پہلی مرتدین کی جماعت تھی۔ چناچہ ربیع الاول
11
ھ کے آغاز میں ان لوگوں پر فوج کشی کی گئی۔ بنو حنیفہ بڑے جنگجو اور دلیر لوگ تھے وہ بڑی بےجگری سے لڑے اور بڑے گھمسان کا رن پڑا۔ اگرچہ اس جنگ میں، جو جنگ یمامہ کے نام سے مشہور ہوئی، مسلمانوں کے بھی بہت سے قاری شہید ہوئے اور کافی جانی نقصان ہوا تاہم میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ مسیلمہ کذاب خود وحشی بن حرب کے ہاتھوں اپنے کیفر کردار کو پہنچ گیا۔ یہ وہی وحشی بن حرب ہے جس نے جنگ احد میں آپ کے چچا سیدنا حمزہ کو حربے سے شہید کیا تھا۔ اس جنگ میں اس نے کفارہ کے طور پر اسی حربہ سے مسیلمہ کو قتل کیا۔ (بخاری کتاب المغازی۔ باب غزوہ احد) خ دوسرا مدعی نبوت اسود عنسی :۔ دوسرا مدعی نبوت اسود عنسی تھا۔ ایک دفعہ رسول اللہ نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں دو سونے کے کنگن ہیں اس بات سے مجھے فکر لاحق ہوگئی۔ پھر خواب میں ہی مجھے کہا گیا کہ ان پر پھونک مارو۔ میں نے پھونک ماری تو وہ دونوں اڑ گئے۔ اس کی تعبیر یہی ہے کہ میرے بعد دو جھوٹے نبی نکلیں گے ان میں سے ایک اسود عنسی ہے اور دوسرا مسیلمہ کذاب یمامہ والا۔ (بخاری۔ کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام) اسود عنسی قبیلہ بنو مدلج کا سردار تھا اسے ذوالحمار بھی کہتے ہیں۔ جادوگر تھا۔ اس نے اطراف یمن پر قبضہ کر کے رسول اللہ کے عمال کو نکال دیا تھا۔ آپ نے سیدنا معاذ بن جبل اور یمن کے رئیسوں کو اس کی سرکوبی کے لیے لکھا۔ آخر یہ شخص فیروز دیلمی کے ہاتھوں قتل ہوا۔ اس کے قتل کی خبر رسول اللہ نے اسی وقت دے دی تھی۔ اگرچہ یمن سے یہ خبر دو ماہ بعد آئی تھی۔ تیسرا مرتد قبیلہ بنو اسد تھے جن کے سردار طلیحہ بن خویلد نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ اس پر بھی لشکر کشی کی گئی اور وہ شکست کھا کر ملک شام کی طرف بھاگ گیا۔ بعدہ اس نے پھر سچے دل سے اسلام کو اختیار کرلیا۔ یہ تین قبائل تو وہ تھے جنہوں نے رسول اللہ کی زندگی کے آخری ایام میں ارتداد اختیار کیا تھا اور ان کی بروقت سرکوبی بھی کردی گئی تھی۔ عہد صدیقی میں مرتد ہونے والے قبائل :۔ سات قبیلے ایسے تھے جنہوں نے آپ کی وفات کے بعد ارتداد اختیار کیا تھا : (
1
) فزارہ عیینہ ابن حصن کی قوم (
2
) غطفان قرۃ بن سلمہ قشیری کی قوم (
3
) بنو سلیم۔ فجارہ بن عبدیالیل کی قوم (
4
) بنو یربوع مالک بن نویرہ کی قوم (
5
) بنو تمیم کے بعض لوگ جو سجاح بنت منذر کے مرید ہوگئے اس عورت نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور مسیلمہ سے نکاح کرلیا تھا (
6
) کندہ اشعث بن قیس کی قوم اور (
7
) بحرین میں بنو بکر بن وائل، حطم بن زید کی قوم۔ لشکر اسامہ کی روانگی :۔ گویا وفات نبوی کے بعد ہنگامی طور پر مسلمانوں کے لیے تشویش ناک حالات پیدا ہوگئے تھے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ان حالات میں سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے سب سے پہلے لشکر اسامہ کی روانگی سے متعلق مشورہ کیا تو ایسے نازک حالات میں ساری شوریٰ لشکر اسامہ کی فوری روانگی کے خلاف تھی لیکن سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے ساری شوریٰ کے علی الرغم اپنا دو ٹوک فیصلہ ان الفاظ میں فرمایا اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں ابوبکر صدیق ؓ کی جان ہے اگر مجھے یہ یقین ہو کہ درندے آ کر مجھے اچک لے جائیں گے تو بھی میں اسامہ کا لشکر ضرور بھیجوں گا جیسا کہ رسول اللہ نے حکم دیا تھا اور اگر اس بستی میں میں اکیلا ہی رہ جاؤں تب بھی میں یہ لشکر ضرور بھیجوں گا۔ (طبری ج
3
ص
225
) مانعین زکوٰۃ سے جہاد :۔ چناچہ یہ لشکر بھیجا گیا جو چالیس دن کے بعد ظفریاب ہو کر واپس آگیا۔ اب مانعین زکوٰۃ کے متعلق سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے مہاجرین و انصار کو بلا کر تمام صورت حال ان کے سامنے بیان کر کے ان سے مشورہ طلب کیا تو آپ کی تقریر سے مجمع پر سکتہ طاری ہوگیا۔ طویل خاموشی کے بعد سیدنا عمر نے کہا : اے خلیفہ رسول ! میری رائے تو یہ ہے کہ آپ اس وقت نماز ادا کرنے کو ہی غنیمت سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ اسلام کو قوت دے گا تو پھر ان سے نمٹ لیں گے اس وقت تو ہم میں تمام عرب و عجم کے مقابلہ کی سکت نہیں۔ اس کے بعد ابوبکر صدیق ؓ عثمان ؓ کی طرف متوجہ ہوئے تو انہوں نے بھی سیدنا عمر کی رائے کی تائید کی پھر سیدنا علی نے بھی اسی کی تائید کردی۔ پھر اس کے بعد تمام انصار و مہاجرین اسی رائے کی تائید میں یک زبان ہوگئے۔ آپ نے سیدنا عمر کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ تم کفر کی حالت میں تو بہت جری اور دلیر تھے اب اسلام میں آ کر کمزوری دکھاتے ہو ؟ پھر پوری شوریٰ سے خطاب کیا کہ اللہ کی قسم ! میں برابر امر الہی پر قائم رہوں گا اور اس کی راہ میں جہاد کروں گا۔ جب تک یہ لوگ پوری کی پوری زکوٰۃ ادا نہ کریں جو وہ رسول اللہ کو ادا کرتے تھے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نماز اور زکوٰۃ میں کوئی فرق نہیں کیا اس واقعہ کو امام بخاری نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ جب آپ کی وفات ہوگئی اور سیدنا ابوبکر صدیق ؓ خلیفہ بن گئے تو عرب کے کچھ قبائل کافر ہوگئے تو سیدنا عمر نے سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سے کہا : آپ ان لوگوں سے کیسے لڑیں گے جبکہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہیں۔ پھر جس نے یہ شہادت دے دی اس نے اپنا مال اور اپنی جان مجھ سے بچا لیے الا یہ کہ وہ کوئی ایسا کام کرے جس سے اس کے مال یا جان کا نقصان ہو اور اس کے باطن کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ اس کے جواب میں ابوبکر صدیق ؓ نے کہا اللہ کی قسم ! میں اس شخص سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا اس لیے کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے (جیسے نماز جسم کا) اللہ کی قسم ! اگر یہ لوگ مجھے ایک بکری کا بچہ بھی نہ دیں گے جو آپ کو دیا کرتے تھے تو میں ان سے ضرور لڑوں گا۔ تب سیدنا عمر نے کہا اللہ کی قسم۔ اس کے بعد میں سمجھ گیا کہ ابوبکر صدیق ؓ کے دل میں جو لڑائی کا ارادہ ہوا ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی نے ان کے دل میں ڈالا ہے اور میں پہچان گیا کہ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی رائے درست ہے۔ (بخاری۔ کتاب استتابۃ المعاندین والمرتدین ) چناچہ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ خود جہاد کو روانہ ہونے پر تیار ہوگئے۔ سیدنا علی نے انہیں یہ رائے دی کہ آپ کا مدینہ میں موجود رہنا جہاد پر روانہ ہونے سے زیادہ ضروری ہے۔ چناچہ آپ نے مانعین زکوٰۃ اور مرتدین دونوں کی سرکوبی کے لیے سیدنا خالد بن ولید کو سپہ سالار بنا کر روانہ کیا اور اس وقت تک جہاد کا کام جاری رکھا جب تک کہ مرتدین اور مانعین زکوٰۃ کو راہ راست پر نہیں لے آئے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اس وقت کے مسلمانوں سے تہدید کے طور پر فرماتا ہے کہ اللہ کے دین کی سربلندی کا انحصار تم پر ہی نہیں۔ اگر تم میں سے کوئی مرتد ہوجائے گا تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو آگے لے آئے گا جن میں یہ اور یہ اوصاف ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ کی زندگی کے آخری ایام میں اور آپ کی وفات کے بعد جو بیشمار قبائل مرتد ہوگئے تھے ان کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کون سے لوگ لایا تھا اور ان کا سردار کون تھا جس کے ہاتھ پر یہ وعدہ پورا ہوا ؟ اور جو لوگ تاریخ اسلام سے تھوڑے بہت بھی واقف ہیں وہ بےساختہ کہہ دیں گے کہ ان مرتدوں کے مقابلہ میں صحابہ کرام ؓ انصار و مہاجرین اور اہل یمن کے لوگ اٹھے تھے۔ جنہوں نے ان سب مرتد لوگوں کی سرکوبی کی تھی اور ان کے سردار اور خلیفہ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ تھے۔ اب اس آیت سے جس طرح رسول اللہ کی نبوت کی اس پیشین گوئی کے پورا ہونے کی تصدیق ہوتی ہے اسی طرح سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت بھی برحق ثابت ہوتی ہے۔ خ شیعہ حضرات کا نظریہ ارتداد اور اس کا رد :۔ یہ تو تھی فتنہ ارتداد کی تاریخی حیثیت۔ اب شیعہ حضرات یہ کہتے ہیں کہ دراصل مرتدین کی سرکوبی کرنے والے گروہ کے سردار اور اس وعدہ کی تکمیل کے مہتمم سیدنا علی تھے اور لوگوں کا سیدنا علی کو خلیفہ بنانا اور ان کا حق تلف کر کے سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کو خلیفہ بنادینا اور سیدہ فاطمہ کو حق باغ فدک نہ دینا ہی اصل ارتداد ہے۔ چونکہ ان لوگوں نے سیدنا علی کے بجائے سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کو خلیفہ بنایا۔ لہذا وہ سب مرتد ہوگئے۔ اگر شیعہ حضرات کے اس نظریہ ارتداد کو درست تسلیم کیا جائے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر صحابہ کرام ؓ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کو خلیفہ بنانے کی وجہ سے مرتد ہوگئے تھے تو کیا سیدنا علی نے ان کی سرکوبی کی تھی ؟ نیز وہ کونسی قوم تھی جن کے ذریعہ اللہ نے ان مرتدوں کی سرکوبی کر کے اپنے وعدہ کو پورا کیا تھا ؟ نیز یہ کہ کیا اللہ کا یہ وعدہ پورا ہوا بھی تھا یا نہیں ؟ یہ سوال ان حضرات کے اس نظریہ کی بھرپور تردید کرتے ہیں۔ بلکہ اس کے برعکس ہوا یہ تھا کہ سیدنا علی ہمیشہ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ و سیدنا عمر کی مجلس شوریٰ کے معزز رکن اور ان کے کاموں میں ان کے معاون و مددگار رہے۔ اور مرتدین پر چڑھائی کرنے میں ان کے ساتھ بدل و جان شریک رہے۔ رہا شیعہ حضرات کا یہ احتمال کہ سیدنا علی دل سے شریک نہ تھے تو ایک تو یہ بات (وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَاۗىِٕمٍ
54
)
5
۔ المآئدہ :
54
) کے خلاف ہے۔ دوسرے اگر سیدنا علی سخود بھی ارتداد کا یہی مطلب سمجھتے تھے تو کم از کم یہ تو کرسکتے تھے کہ خود ان کا ساتھ نہ دیتے اور ان کی مدد نہ کرتے۔ تیسرے یہ کہ ان کا آپس میں باہمی رشتوں کا لین دین بھی تاریخ سے ثابت ہے۔ یہ سب باتیں اس بات پر قوی دلیل ہیں کہ ارتداد سے مراد وہ نہیں جو شیعہ حضرات کہتے ہیں اور نہ ہی سیدنا علی نے اسے ارتداد قرار دیا ہے۔
97
مومنوں کے حق میں نرم دل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی قوت مسلمانوں کو دبانے، ستانے یا نقصان پہنچانے میں صرف نہیں ہوتی بلکہ وہ آپس میں نرم خو، رحم دل اور ایک دوسرے کے ہمدرد ہوتے ہیں اور کافر پر سخت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ایمان کی پختگی، دیانتداری میں خلوص اور اصول کی مضبوطی سیرت و کردار اور ایمانی فراست مخالفین اسلام کے مقابلہ میں پتھر کی چٹان ثابت ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ کافروں سے بدمزاجی اور درشتی سے پیش آتے ہیں یا انہیں گالیاں دیتے ہیں یا جب انہیں دیکھتے ہیں تو ان کے چہرہ پر غصہ اور نفرت کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ مومنوں کا دامن ایسے اخلاق رذیلہ سے پاک ہوتا ہے اور ایسے مومنوں کی چوتھی صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ مخالفین کے طعن وتشنیع، ان کے اعتراضات اور ان کی پھبتیوں کی مطلق پروا نہیں کرتے اور جادہ حق پر پورے عزم و استقلال کے ساتھ گامزن رہتے ہیں۔
98
ارتداد کے فتنہ کو کچلنے والے :۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ فضل صحابہ کرام ؓ کی اس جماعت تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ جب بھی کہیں ارتداد کا فتنہ کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے مرتدین کی سرکوبی کے لیے ایسے جاں نثار اور اسلام کے وفادار مسلمان کھڑے کردیتا ہے جو مرتدین سے علم اور قوت دونوں لحاظ سے بہتر ہوتے ہیں اور اس فتنہ کا زور توڑ کے رکھ دیتے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ میں ایسے بیشمار فتنے پیدا ہوئے اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ ان فتنوں کی سرکوبی کے لیے اپنے بندے پیدا کرتا رہا اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ اور ایسے لوگوں میں بھی مندرجہ بالا صفات کسی نہ کسی درجہ میں ضرور پائی جاتی ہیں۔ اور یہ ارتداد کے فتنے بھی دو طرح کے ہوتے ہیں ایک سیاسی دوسرے تحریری۔ دونوں کا سر کچلنے کے لیے اللہ تعالیٰ مناسب لوگوں کو پیدا کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ اور ان کے لیے بشارت یہ ہے کہ یہ ایسے لوگ اللہ کے محبوب ہوتے ہیں۔
Top