Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Maaida : 54
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤ١ۙ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ١٘ یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآئِمٍ١ؕ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) مَنْ : جو يَّرْتَدَّ : پھرے گا مِنْكُمْ : تم سے عَنْ : سے دِيْنِهٖ : اپنا دین فَسَوْفَ : تو عنقریب يَاْتِي اللّٰهُ : لائے گا اللہ بِقَوْمٍ : ایسی قوم يُّحِبُّهُمْ : وہ انہیں محبوب رکھتا ہے وَيُحِبُّوْنَهٗٓ : اور وہ اسے محبوب رکھتے ہیں اَذِلَّةٍ : نرم دل عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) اَعِزَّةٍ : زبردست عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) يُجَاهِدُوْنَ : جہاد کرتے ہیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَ : اور لَا يَخَافُوْنَ : نہیں ڈرتے لَوْمَة : ملامت لَآئِمٍ : کوئی ملامت کرنیوالا ذٰلِكَ : یہ فَضْلُ : فضل اللّٰهِ : اللہ يُؤْتِيْهِ : وہ دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : علم والا
اے ایمان والو ! اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھرجائے گا تو خدا ایسے لوگ پیدا کردے گا جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں خدا کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والے سے نہ ڈریں۔ یہ خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور خدا بڑی کشائش والا اور جاننے والا ہے۔
حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں لوگوں کے مرتد ہوجانے سے پہلے یہ بات تھی کہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں اور خلفاء کے زمانہ میں کچھ لوگ اسلام لانے کے بعد اسلام سے پھر جاویں گے اس لئے اللہ تعالیٰ نے علم غیب کے طور پر اس آیت میں ان لوگوں کی خبر پہلے سے دی ہے۔ چناچہ ما بعد میں اس علم غیب کا ظہور ہوا کہ گیارہ فرقے عرب کے مرتد ہوئے تین فرقے خود آنحضرت کے اخیر زمانہ میں اس طرح مرتد ہوئے کہ اسود عنسی کے ساتھ بنی مدلج فرقہ مرتد ہوا اور یمن کے تمام شہروں پر اس اسودعنسی کا تسلط ہوگیا اور آنحضرت ﷺ کے عاملوں کو اس نے یمن کے شہروں سے اٹھا دیا۔ آخر آنحضرت ﷺ نے معاذ بن جبل ؓ کو اس کی سرکوبی کے لئے مقرر کیا اور یمن کے مسلمانوں نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کی مدد کی آخر کار فیروز ویلمی ؓ کے ہاتھ سے اسود عنسی مارا گیا۔ اور آنحضرت ﷺ کی وفات سے ایک روز پہلے اسود کے مارے جانے کی خبر مدینہ میں آئی۔ یہ اسود ایک کاہن تھا دوسرا فرقہ بنی حنیفہ مسیلمہ کذاب کے ساتھ مرتد ہوا اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد تک مسیلمہ کا زور رہا اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے خالد بن ولید ؓ کو مسیلمہ کی سرکوبی کے لئے مقرر کیا اور وحشی قاتل حضرت امیر حمزہ ؓ کے ہاتھ سے مسیلمہ مارا گیا۔ چناچہ وحشی کا یہ مقولہ مشہور ہے کہ قَتَلْتُ خَیْرَ النَّاسِ وَ شَرَ النَّاسِ جس کا مطلب یہ ہے کہ حالت کفر میں جس طرح امیر حمزہ ؓ جیسے اچھے آدمی جنگ احد میں میرے ہاتھ سے شہید ہوئے اسی طرح حالت اسلام میں بد ترین خلائق مسیلمہ کو میں نے قتل کیا۔ تیسرا فرقہ بن اسد مرتد ہوا اور خالد بن ولید کے ہاتھ سے شکست پاکر پھر اسلام لایا اس فرقہ کا سر غنہ ایک شخص طلیحہ بن خویلد تھا یہ طلیحہ آخر کو پھر مسلمان ہو کر آخر تک مسلمان رہے 2 ؎۔ ان فرقوں کے علاوہ اور سات فرقے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد میں زکوٰۃ کے منکر اور مرتد ہوئے اور فرقہ غسان حضرت عمر ؓ کے عہد میں مرتد ہوا جن کی لڑائی کی کیفیت سیر اور تاریخ کی کتابوں میں ہے حضرت ابوبکر ؓ کے زمانہ میں زیادہ لوگ مرتد ہوئے اس لئے حضرت عائشہ فرمایا کرتی تھیں کہ میرے باپ کی خلافت میں مصیبتیں پیش آئیں کہ پہاڑ بھی ان مصیبتوں کو نہیں جھیل سکتا۔ حق تو یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقہ ؓ نے ان سات فرقوں سے لڑنے میں بڑی جواں مردی کی۔ جب صحابہ عمومًا اور حضرت عمر ؓ خصوصاً ان لوگوں سے لڑنے میں حضرت ابو بکرصدیق ؓ کے مخالف ہوئے تو آپ اکیلے تن تنہا ہتھیار لگا کر میدان جنگ کو روانہ ہوئے آخر آپ کو اکیلا جتے ہوئے دیکھ کر سب لوگ ساتھ ہوئے۔ اس پر آشوب زمانہ میں اہل یمن اور جن لوگوں نے دین کی حمایت کی ہے انہیں لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنا پیارہ فرمایا ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ ان پیاروں کے سردار حضرت ابوبکر صدیق ؓ ہیں اور اب بھی کسی فتنہ و فاسد کے وقت اسی طرح جو شخص دین کی حمایت کرے گا وہ بھی اللہ کا پیارا ضرور ہے۔ مرتد اس شخص کو کہتے ہں۔ جو اپنے دین سے پھر جاوے اس زمانہ کے لوگ جو دین سے پھرگئے تھے ان میں بعض تو پھر بت پرست بن گئے تھے جیسے بنی اسد طلحہ بن خویلد کے ساتھ اور بعض نبی آخر الزمان ﷺ کی نبوت کے منکر ہو کر اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب کو نبی جاننے لگے تھے۔ بعض آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد زکوٰۃ کو امام کے پاس بھیجنے کے قائل نہیں تھے اور یہ کہتے تھے کہ آیت { خُدْمِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تَطَھِّرْھُمْ وَ تُزَّکِیْہِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْ اِنَّ صْلٰوتَکَ سَکَنٌ لَہُمْ } ( 9: 103) کے موافق زکوٰۃ کا حکم آنحضرت ﷺ کے زمانے تک تھا 1 ؎۔ کیونکہ زکوٰۃ لینے کے بعد زکوٰۃ دینے والے کے لئے دعا کرنا اور اس دعا کا مفید ہونا یہ آنحضرت ﷺ کی ذات کے ساتھ مخصوص تھا۔ یہ آیت سورة توبہ کی ہے۔ سورة توبہ کی تفسیر میں آوے گا کو جو لوگ تبوک کی لڑائی میں نہیں گئے تھے ان پر اللہ تعالیٰ کی خفگی ہوئی اور خفگی کے بعد جب ان کی توبہ قبول ہوئی تو انہوں نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ جس مال کی الفت اور حفاظت نے ہم کو تبوک کے سفر سے روکا اس مال کو ہم اللہ کی راہ میں خیرات کرنا چاہیے ہیں اس پر یہ آیت نازل فرمائی 2 ؎۔ اور آنحضرت ﷺ نے ان لوگوں کو سب مال کے تیسرے حصہ کی خیرات کا حکم دیا اس سے معلوم ہوا کہ یہ آیت فرضی زکوٰۃ کے باب میں نہیں ہے کیونکہ زکوٰۃ میں ثلث مال نہیں لیا جاسکتا اور جب یہ آیت فرضی زکوٰۃ کے باب میں نہیں تو ما نعین زکوٰۃ نے اس آیت سے مطلب جو نکالا تھا کو زکوٰۃ کا دینا آنحضرت ﷺ کے زمانہ تک تھا وہ مطلب بھی صحیح نہ رہا غرض اس قسم کے وجوہات سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر ؓ کے فیما بین ان ما نعین زکوٰۃ سے لڑنے اور نہ لڑنے میں بڑی بحث رہی جس کی تفصیل سوا ابن ماجہ کے صحاح کی سب کتابوں میں ابوہریرہ ؓ کی روایت سے ہے 1 ؎۔ آخر ابوبکر صدیق ؓ کی رائے پر سب صحابہ کا اتفاق ہوا۔ اور ان لوگوں سے لڑائی ہوئی اور لڑائی کے بعد یہ لوگ زکوٰۃ کے قائل ہوئے اگرچہ اسودعنسی کے قتل کی خبر آنحضرت ﷺ کی وفات سے ایک دن پہلے وحی کے ذریعے معلوم ہوگئی تھی۔ لیکن اس کے ساتھیوں کی پوری سرکوبی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانہ میں ہوئی اور اس کے بعد سوائے فرقہ غسان کے واقعہ کے اور سب لڑائیاں بھی ان ہی کی خلافت میں ہوئی اس لئے یہ سب لڑائیاں ان کی خلافت کی کہلاتی ہیں۔ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے یہ خواب دیکھا کہ کسی نے سونے کے دو کڑے آپ کے ہاتھوں میں پہنا دئیے ہیں۔ ان کڑوں کڑوں کو ہاتھوں میں دیکھ کر آپ کا دل بہت گھبرایا اس لئے کسی نے آپ سے خواب میں یہ بھی کہا کہ ان کڑوں کو پھونک مار کر اڑا دو آپ نے یہی کیا۔ اس خواب کی تعبری آپ نے یہ قرار دی کہ اسودعنسی اور مسیلمہ کذاب یہ دونوں آخر کو مارے جاویں گے۔ یہ حدیث صحیح بخاری میں ابوہریرہ ؓ کی روایت سے ہے ابوہریرہ ؓ کے واسطے سے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے بھی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے حدیث ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے اس خواب کے بعد اپنی قوم کے اییووں کے ساتھ مسیلمہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھی آیا اور آپ سے کہنے لگا کہ مجھ کو نبوت میں بھی شریک کرلیا جائے۔ اتفاق سے اس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک کھجور کی شاخ تھی اس واسطے آپ نے فرمایا کہ تو یہ کھجور کی شاخ بھی مانگے گا تو میں تجھ کو نہ دوں گا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ تو اپنی حد سے قدم باہر نہ رکھ ورنہ ہلاک ہوجائے گا 2 ؎۔ اسود اور مسیلمہ مرتد ہونے کی حالت میں قتل ہونے والے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کا حال اپنے رسول کو خواب میں دکھادیا تاکہ معلوم ہوجاوے کہ طلیحہ بن خویلد کا حال ان دونوں کی طرح نہیں ہے طلیحہ بن خویلد بن نوفل نے بھی آنحضرت ﷺ کی حیات کے زمانے میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور آنحضرت ﷺ نے ضرار بن ؓ الازدراسدی کو طلیحہ اور ان کے ساتھیوں کی سرکوبی کے لئے بھیجا تھا لیکن اس سر کو بی کے خاتمہ سے پہلے آنحضرت ﷺ نے وفات پائی اس لئے یہ سر کو بی ادہوری رہ گئی آخر پھر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خالد بن ولید ؓ کے ہاتھ پر یہ سرکوبی پوری ہوئی شکست کے بعد طلیحہ بن خویلد نے پھر اسلام قبول کیا اور 15 ھ؁ میں قادسیہ کے وقت اہل اسلام کو بڑی مدددی۔ یہ قادسیہ کی لڑائی حضرت عمر ؓ کی خلافت کے زمانہ میں ہوئی ہے۔ صحح بخاری و مسلم کی سہل بن سعد ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی جان پہچان کے بعض شخصوں کو حوض کوثر پر سے نکال دیا جاوے گا 1 ؎ اسلام سے پھرجانے کے ہنگامے جو اوپر گزرے یہ لوگ ان ہی ہنگاموں کے جیسے ہوں گے جو اسلام سے پھر کر اسی حالت میں مرگئے منافقوں کا حل اوپر گزرا کہ ظاہر میں اسلام کا ساتھ دیتے تھے اور باطن میں مخالف اسلام لوگوں کے اولاہنے اور الزام سے ڈر کر ادھر بھی ملے رہتے تھے خالص ایمان داروں کا یہ ذکر فرمایا کہ یہ لوگ راہ خدا میں جس کام کی کوشش کرتے ہیں وہ سچے دل سے کرتے ہیں کسی کے اولاہنے سے ڈر کر اوپرے دل سے نہیں کرتے۔ پھر فرمایا کہ یہ اللہ کا فضل ہے اور اللہ کا فضل اگرچہ بہت بڑا ہے لیکن اس کو ہر ایک کے دل کا حال معلوم ہے دل کے نیک ارادہ کی حالت جانچ کر جس پر وہ چاہتا ہے اپنا فضل کرتا ہے۔
Top